کالم,انٹرویو

My First Love My MOM

زندگی میں آج تک سالگرہ کا تصور کبھی نہیں دیکھا نہ کبھی امی آغاجان نے اسکو کوئ اہمیت دی نہ اپنے گھر میں ۔البتہ جب اکلوتا شھزادہ بڑا ہوا تو اس نے 2003 میں ایک بڑا سا دل کمرے میں لٹکا دیا جس پر لکھی ہوئ تحریر آج بھی ساری محرومیوں کو ختم کرکے دل اور روح کو ایک عجیب سے سکون بخش اطمینان سے بھر دیتی ہے
My First Love My MOM
Mom is might and always Right
آج ایک طرف میری اکلوتی شھزادی مجھے دعائیں دے رہی تھی تو فیس بک اور ٹویٹر اور واٹس ایپ پر بےشمار نیک خواہشات موصول ہو رہی تھیں اور میں ان سب سے بے خبر ہسپتالوں،تھانوں اور ٹی وی چینلوں کے چکر کاٹتی رہی جہاں پر میرے اکلوتے محمد کی طرح میرے شیر بیٹے کوئ زخمی ہے کوئ گرفتار ہے اور پھر بھی میڈیا کے یک طرفہ حملوں کا شکار۔بچوں میں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں ،میں ایک ماں کی حیثیت سے خود انکی بد سلوکی کا شکار ہوئ مگر میں نے اس نفرت کی آگ پر پانی ڈالا اور اس منظر کو diffuse کرنے کی کوشش کی جو بڑی منصوبہ بندی سے جمعیت کے بڑھتے ہوۓ اثرات سے خوفزدہ لسانی تعصبات کا شکار ملک دشمن عناصر نےبنا رکھی ہے ۔ورنہ یوم پاکستان کے موقع پر علاقائ تعصبات کو پروان چڑھانا کون سے ملک دشمن عناصر کا کھیل ہے ۔؟؟یہ کس سے چھپی بات ہے؟؟؟میں نے جب سے اپنے زخمی بچوں کو دیکھا ہے مجھے طالبات سے اور ایک ماں سے کی گئ بدتمیزی بھول گئ ہے۔اگر جمعیت کے کیمپ سے کسی سے کوئ بدتمیزی ہوئ ہے تو ہم انکا ساتھ بھی نہ دیتے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ انکا کیمپ بھی جلایا گیا ۔انکے بچوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا کہ وہ بری طرح زخمی ہیں اور طالبات کے کیمپ پر بھی حملہ کیا گیا،کچھ لوگوں نے انھیں پختونوں سے جوڑا کچھ نے بلوچوں سے مگر میں ایک پختون ماں اور بلوچستان کی بہو اور پنجاب اور سندھ کی محبتوں کی امین ہونے کی وجہ سے یہ بات دعوے کے ساتھ کہ سکتی ہوں کہ ہماری پاکستانی ماؤں نے وہ بیٹے پیدا ہی نہیں کئے جو طالبات کے کیمپوں پر حملہ آور ہوں ۔ہم تو دشمن کی عورتوں کو بھی عزت دینے والے لوگ ہیں ۔یقین نہ آۓ تو کبھی طالبان کی قید میں رہنے والی ایوان ریڈلے سے پوچھ لئجئے گا جو انکے حسن سلوک سے متاثر ہوکرمسلمان ہو گئ تھی۔مجھے اس کیمپ پر حملہ آور لوگ یزید کے علمبرداروں کی طرح لگے جو اسی روایت پر کاربند تھے کہ طالبات کو خوف ودھشت کا شکار کیا۔بجلی کاٹ دی ۔دندناتے ہوۓ ہر چیز تہس نہس کی۔اسٹیج کے اوپر ہر چیز کو تباہ کر کے جب مغلظات بکنے لگے تو میں نے پشتو میں کہا کہ کسی بہت بے حمیت ماں کے بیٹے ہو جس نے تمھیں عورت کا احترام نہیں سکھایا ۔میری پشتو سن کر وہ بھاگنے لگ گۓ ۔میں نے انکا پیچھا کیا اور وہ ایڈمنسٹریشن کی طرف بھاگے۔انکا پیچھا کرتے ہوۓ بہت چیخ و پکار سنی۔ایک بچی بے ہوش ہوگئ اسے پانی پلاکر دوڑی تو وی سی صاحب نظر آے وہ جمعیت کے خلاف بھرے بیٹھے تھے میں نے ان سےعرض کی کہ ہماری طالبات کا تو اس سارے ہنگامے سے کوئ تعلق ہی نہیں تھا۔ہم اپنا یوم پاکستان منا رہے تھے اور مجھے اور ایک سماجی کارکن فائقہ سلمان کو لیکچر کے لئے بلایا گیا تھا اور تقریریی مقابلہ ختم ہوا اور ترانوں کا مقابلہ شروع ہوا تو یہ غنڈہ گردی شروع ہوگئ۔شروع میں تو سمجھ ہی نہ آئ کہ کیا ہورہا ہے مگر اب تو لگتا ہے کہ بڑی منصوبہ سازی کی گئ ہے کہ جسطرح روشنیوں کے شھر کراچی کو لسانی تعصبات کے ذریعے لاشوں اور بوریوں کا شھر بنا دیا گیا اسی تعصب کی آگ کو یہاں بھڑکایا جا رہا ہے۔ ورنہ پنجاب یونیورسٹی میں یوم پاکستان کے موقع پرصوبائ تعصب کو ہوا دینے کی کیا تک تھی۔میں ایک بات واضع کر دوں کہ وہ زمانے لد گۓ جب جماعت اور جمیعت کو ختم کرنے کے خواب لوگ دیکھا کرتے تھے اب انکی مائیں بھی انکے شانہ بشانہ اور قدم بقدم پر عزم رواں دواں ہیں ۔ہم اپنی ان غلطیوں سے سبق سیکھ کراور زیادہ منظم ہو کر ملک وقوم کی خدمت کے لئےسرکرم عمل ہوں گے انشاءاللہ۔
سب ہی خواہوں کے لئے دعائیں اور نیک تمنائیں.
تحریر
ڈاکٹر_سمیعہ راحیل قاضی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button