تلخیاں
پانچ سال کیلئے قومی حکومت بنا دیں!
علی احمد ڈھلوں
Tuesday 27 Nov 2024.
اس وقت ریاستِ پاکستان مشکل میں ہے، بلکہ سخت مشکل میں ہ ے، اس وقت پورا ملک ”کنٹینرستان“ بنا ہوا ہے، اس کی بڑی وجہ تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج کی ”فائنل کال“ ہے، اسی سلسلے میں پشاور سے ایک بڑا عوامی جلوس بانی تحریک انصاف کو جیل سے چھڑوانے کے لیے اسلام آباد میں داخل ہو چکا ہے، پولیس اور سکیورٹی ادارے الرٹ ہیں، کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئی ہیں، جس کے بعد مبینہ طور پر انتظامیہ کی مظاہرین کو روکنے کی حکمت عملی ناکام نظر آرہی ہے، اب آگے کیا ہوتا ہے، تادم تحریر اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ کیوں کہ فی الوقت تو کسی سٹیک ہولڈر کی طرف سے ”فیس سیونگ“ کے لیے کوششیں سامنے نہیں آئیں، اور نہ ہی اپنی بات پر کوئی لچک دکھانے کو تیار ہے۔ لیکن اس سارے آسیب زدہ ماحول میں کون پس رہا ہے؟ عوام اور ریاست؟۔ لیکن نہ تو یہاں کسی کو عوام کی فکر ہے، نہ کسی کو ریاست کی پرواہ ہے۔ اگر دہشت گردی کا سامنا ہے تو وہ عوام کو۔ اور سیاسی دہشت گردی کا کوئی شکار ہے تو وہ بھی عوام ہیں۔ مطلب اس وقت تمام محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ معیشت کا وہ حال ہے کہ آئی ایم ایف شرطیں منوائی جا رہا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام شروع نہیں ہو رہا۔ کرم کے سانحہ کا ذکر کیا کِیا جائے کیونکہ الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔وہاں تو بچے اپنے بڑوں سے پوچھ رہے ہیں کہ بابااُن کے کتنے مرے ہیں اور ہمارے کتنے شہید ہوئے ہیں؟ ۔ جس طرف نظر اٹھتی ہے بیڑہ غرق ہی نظرآتا ہے۔
مہاتیر محمد نے اقتدار سنبھالتے ہیں ملک میں تعلیم کا نظام بہتر کرنے سے پہلے جو کام کیا تھا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کے سامنے ایک نعرہ ”We Can Do“ یعنی ہم کر سکتے ہیں! یہ نعرہ ملائشیا میں قومی نعرہ بن گیا، اس نعرے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ملایشیا کی 80فیصد اپوزیشن نے بھی ملک کو سنوارنے میں مہاتیر محمد کا ساتھ دیا۔ اور آج ملایشیا کو دیکھ لیں پروڈکشن سے لے کر مینو فیکچرنگ تک صحیح معنوں میں وہ لگتا ہی نہیں ہے کہ ”اسلامی ملک“ ہے۔ یعنی اسلامی ممالک میں مسائل ہی اور طرح کے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کریں یا نہ کریں، امریکا کی دی ہوئی امداد قبول کریں یا نہ کریں، کون سعودی بلاک میں بیٹھا ہے اور ایرانی بلاک میں بیٹھا ہے، کون کس کا پٹھو ہے اور کون امریکا ، برطانیہ و روس کی کٹھ پتلی وغیرہ ۔
ؒخیر بات ہو رہی تھی قومی حکومت کی تو میرے خیال میں سب سے پہلے حکومت ، خاص طورپر وزیر اعظم کو قوم کا مورال ٹھیک کرنا چاہیے، اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے، اگر حکومت ایسا کرتی ہے اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ لائحہ یا مضبوط سسٹم بنا لیتی ہے تو ان کا یہی قوم پر سب سے بڑا احسان ہوگا۔ پھر قومی حکومت بنانے کے بعد تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جائے، ایجوکیشن بجٹ کو بڑھا کر اساتذہ اور تعلیمی سیکٹر کا مورال بلند کیا جائے، اپنے تعلیمی نظام کا پوری طرح سے جائزہ لینا چاہئے جو اِس وقت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہمیں بیرون ملک کی معروف یونیورسٹیوں میں کم از کم 70,000افراد کوپی ایچ ڈی کی تربیت دے کر اپنے سائنسی اداروں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے اور تنخواہوں اور لبرل ریسرچ گرانٹس کی کارکردگی پر مبنی میعاد ٹریک نظام کی بحالی کے ساتھ انہیں واپس پاکستان آنےکی طرف راغب کرنا ہوگا۔ پھر ہمیں صوبائیت کے چکر سے نکلنا ہوگا، کیوں کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ترقیاتی فنڈز کا ایک بڑا حصہ صوبوں کو منتقل کردیا گیاہے جو ہمارے بعض بدعنوان رہنماﺅں کے غیر ملکی ناجائز اثاثوں میںتبدیل ہوگیا۔ بلدیاتی انتخابات کروانے میں صوبائی حکومتوں کی ہچکچاہٹ نے ہمارے پارلیمانی نظام کو بے نقاب کردیاہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں مندرجہ ذیل الفاظ میں صوبائیت کے زہر کے بارے میں متنبہ کیا تھا” آپ سے کہتا ہوں کہ اس صوبائیت سے نجات حاصل کرو، کیوں کہ جب تک آپ اس زہر کو پاکستان کی سیاست میں برداشت کریں گے، کبھی ایک مضبوط قوم نہیں بن سکیںگے، اور آپ کبھی اس مقصد کو حاصل نہیں کرسکیں گے جو میری خواہش ہے کہ ہم حاصل کریں“ (تقریر، عوامی جلسہ، ڈھاکہ، 21مارچ 1948)۔ افسوس، تاریخ نے اسے سچ ثابت کردیااور آج ملک صوبائیت کا شکار ہے۔
خیر ہمیں صنعتی انقلاب کی طرف بھی جانا ہوگا، ہمارے لیے یہ بات باعث افسوس ہے کہ اس خطے کے عوام نے نہ تو پہلے صنعتی انقلاب(1765)، نہ ہی دوسرے صنعتی انقلاب(1870) اور نہ ہی تیسرے صنعتی انقلاب(1969) میں حصہ لیااور اب جب کہ دنیا چوتھے صنعتی انقلاب میں قدم رکھنے والی ہے تو ابھی بھی ہم دنیا سے ٹیکنالوجی کے میدان میں 20سال پیچھے ہیں، ویسے تو دنیا مصنوعی ذہانت، اگلی نسل،توانائی ذخیرہ کرنے کے نظام اور بجلی کی گاڑیوں میں پیشرفت کے ساتھ پانچویں صنعتی انقلاب کا آغاز کرچکی ہے، لیکن ہم ایک سوئی تک چین سے منگوا کر سہل پسند ہوتے جارہے ہیں، لہٰذاہمیں صنعتوں کو فروغ دے کر اپنی پراڈکٹس کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ دنیا میں ہماری بھی مارکیٹ بن سکے۔
لہٰذااس ساری صورتحال کا حل صرف یہ ہے کہ اگر کوئی اسٹیک ہولڈر پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تو خدا کے لیے اس ملک میں پانچ سال کے لیے قومی حکومت قائم بنا دی جائے۔ ایسی حکومت جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے عہدیداران شامل ہوں، ہر سیاسی جماعت کو اُس کی صوبائی اور نیشنل نمائندگی کے حساب سے حکومت میں حصہ دیا جائے۔ ساتھ ٹینکنو کریٹس اور کاروباری شخصیات میں سے چند افراد کو حکومت کا حصہ بنا لیں۔ کیوں کہ وزیراعظم ہوںیا وزرا سب ہی عمران فوبیا کا شکار ہیں جو انہیں دن میں سکون دے رہا ہے اور نہ ہی رات میں راحت، سونے پہ سہاگا اس دوران یہ لوگ عمران خان کے بیانیے کا توڑ یعنی جوابی بیانیا بھی ترتیب نہ دے سکے۔ ڈیجیٹل میڈیا پر سرکاری اور نجی ٹیموںکی بھرمار کے باوجود پی ٹی آئی کے بیانیے کا توڑ تو دور کی بات اس کے قریب بھی نہیںپہنچ سکے جس کا انہیں قومی حکومت یا کسی اور نظام کی صورت میں سنگین اور ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔تمام وزارتوں کا پہلے سے بھی برا حال ہے۔
بہرحال قومی حکومت کی ضرورت ناگزیر ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ یہ جو ہر حکومت اقتدار میں آکر 10سالہ پلان ترتیب دیتی ہے، اور اس کے لیے مختلف آئینی ترامیم جیسی حرکات کرتی نظر آتی ہیں، یہ سلسلہ رُک جائے گا،اور سب سے بڑھ کر ملک میں سیاسی استحکام آئے گا، بیرونی سرمایہ کاری آئے گی، دہشت گردی کو روکنے میں سکیورٹی ادارے اپنا سارا دھیان اُدھر لگائیں گے، بیرون ملک میں رہنے والے پاکستانی بے دھڑک اور بغیر کسی خوف کے اپنی رقوم پاکستان میں بھیجیں گے، یہاں کے تاجروں کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ نہ کہیں ملک بند ہوگا، نہ کہیں کنٹینر ہوں گے اور نہ ہی کہیں جلاﺅ گھیراﺅ۔
پی ٹی آئی دور میں بھی 10 سال سے بھی زیادہ اقتدار کے حصول کا منصوبہ تیار ہوا جو اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اقتدار میں مناسب حصہ داری پر اختلاف کی نظر ہو گیا یہاں یہ بھی ذکر کردوں کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کی وجہ صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنا ہی تھی۔آپ کو یاد ہوگا ماضی میں شہباز شریف بھی پانچ سال کے لیے قومی حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ لیکن اب کی بار جب اقتدار ان ظالموں کے ہاتھ میں ہے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ماحول اتنی آسانی سے سازگار نہیں ہوگا، اس کے لیے ریاست کے چاروں ستون انتظامیہ (حکومت)، پارلیمان، عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ ساتھ اداروں کو بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ سب کچھ ملیا میٹ کردیا جائے گا، اور دوبارہ ہم کئی سال کے لیے مارشل کی زد میں بھی آسکتے ہیں!