قیامت خود بتائے گی قیامت کیوں ضروری تھی
ڈسکہ کے نواحی گاؤں میں سسرال والوں نے 7 ماہ کی حاملہ بہو کو قتل کر کے اس کے جسم کےٹکرے ٹکرے کر کے دو بوریوں میں بند کر کے اس کی لاش نہر میں پھینک دی۔ سر دھڑ سے الگ کر کے اس کو چولہے پر اس وقت تک جلایا گیا، جب تک اس کے نقوش گوشت کی بوٹی نہیں بن گئے۔ اس کے بعد سرکو الگ مقام پر پھینک دیا تاکہ ملے تو بھی شناخت نہ ہو سکے۔ اور یہ سب خاتون کی سگی خالہ (ساس) نے اور دو سگی خالہ زاد بہنوں (نندوں) نے کیا۔ تینوں ماں بیٹیوں نے لاہور سے جراحی کی خدمات لے کر یہ ظلم کیا ۔ بعد میں جھوٹا الزام لگا دیا کہ آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ زارا قدیر کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ خوبصورت تھی اور شوہر کی محبت تھی جو بیرون ملک مقیم تھا۔۔*
*نوٹ: مقتولہ زارا بی بی کے والد کی طرف سے اس کے پانچ سسرالیوں کے خلاف لکھوائی گئی ایف آئی آر اور قریبی نالے سے مقتولہ کی لاش کے ٹکڑے برآمد ہونے کے بعد تینوں عورتیں اور ان کا سہولت کار مرد گرفتار ہو چکے ہیں۔ تینوں خواتین اپنے جرم کا اقرار بھی کر چکی ہیں۔ مقتولہ کا جلا ہوا سر کل ملا ہے۔ کل ہی اس کا جنازہ پڑھایا گیا ہے۔۔۔*