خالہ ماں برابر ہوتی ہے لیکن ڈسکہ میں جونہی خالہ ساس بنی تو اس نے اپنی بھانجی کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے
(جرم اورپولیس (غلام عباس
جرم اورپولیس
غلام عباس
دنیا معرض وجود میں آتے ہی جرم ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ جرم کا سلسلہ جاری ہے اور پولیس مجرمان کو مسلسل پکڑتی آرہی ہے۔ گوجرانوالہ ریجن میں دو اندھے قتل کی وارداتیں ہوئیں پولیس نے پیشہ وارانہ مہارت سے دونوں قتل ٹریس آؤٹ کرکے قانون کی بالادستی قائم کردی۔ خالہ ماں برابر ہوتی ہے لیکن ڈسکہ میں جونہی خالہ ساس بنی تو اس نے اپنی بھانجی کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ بہو ساس کی لڑائیاں معاشرے کو لے ڈوبتی ہیں۔عشق کا بھوت بھی سر چڑھ کر بولتاہے تھانہ فیروزوالہ کے علاقہ میں ملزم نے ماں سے چار سالہ اکلوتا بیٹا ہمیشہ کیلئے جدا کردیا۔ پولیس نے دونوں وقوعہ جات ٹریس آؤٹ کرلئے۔ ویلڈن پولیس۔ مگر ایسے جرائم کے تدارک کیلئے علماء کرام، اساتذہ اور بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ ایسی لاقانونیت بارے عوام کو شعور دلائیں۔ انسانی انرجی کا دماغ بیس فیصد حصہ ہڑپ کرجاتاہے اس سے کام بھی لیا جائے۔ایک دن میں انسان 17 ہزار مرتبہ سانس لیتا ہے اور یہ سب اللہ کے فضل کا محتاج ہے سانس کسی بھی وقت رک سکتی ہے۔ حیرت ہے اس کے باجوود انسان جرم کرتاہے، حیرت ہے۔زاراکتنے ناز نخروں سے باپ کے گھر شہزادی بن کے رہی جب جوان ہوئی باپ نے اس کی حقیقی خالہ کے بیٹے کو رشتہ دیا کے جس طرح میرے گھر میری لاڈلی شہزادی بن کے رہی آگے بھی اپنا ہی گھر ھے میری بیٹی خوشحال رھے گی لیکن ایک باپ اور ایک بیٹی کو کیا خبر تھی کے یہ اپنے نہیں بلکہ سب سے بڑے دشمن نکلیں گے۔باپ دو دن سے بیٹی کے نمبر پر ڈسکہ کے نواحی گاؤں کال کر رہا تھا مگر نمبر بند تھا، وہ گھبرا کر بیٹی کے سسرال چلا آیا اور پوچھا میری بیٹی زارا کہاں ھے؟ فون کیوں بند ھے اس کا، جبکہ زارا کا دو سال کا بیٹا گھر میں موجود تھا، ساس اور نندوں نے بتایا دو دن پہلے رات کو کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی، موبائل بھی ساتھ لے گئی۔ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، خاموشی سے تلاش کررہے ہیں۔۔۔
باپ کو یقین نہ آیا، چار سال پہلے اس نے بہت چاہت بڑے ناز نخروں سے اس کا رشتہ اپنی بیٹی کی حقیقی خالہ صغری کے بیٹے قدیر سے کیا، اور وہ دونوں بہت خوش تھے، ہاں سگی خالہ اس سے اکثر نالاں اور لڑتی جھگڑتی رہتی تھی مگر وہ۔ باپ پھر بھی بیٹی کو نباہ اور صبر کی تلقین کرتا رہا۔ باپ نے تلاش گمشدگی کے لیے پولیس کی مدد لی، پولیس نے سسرالیوں کے بیان لیے، زارا کی ساس اور نندوں کو شامل تفتیش کیا گیا، ہر ایک کے بیان میں تضاد موجود تھا، جس پر پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ زارا بھاگی نہیں بلکہ 11 نومبر کی رات انہوں نے اس کو بے دردی سے مار کر پھینک دیا تھا۔ اور اس کے شوہر کو بھی یہی بتایا کہ وہ کسی سے رابطے میں تھی اور گھر سے نکل گئی ھے، جبکہ زارا سات ماہ کی حاملہ تھی، اس کے ساتھ ننھی جان بھی ماری گئی۔
جھگڑا کیا تھا؟ وہی ساس بہو کی ازلی چپقلش اور نند بھابی کا بیر۔۔۔ زارا کی پانچ نندیں تھیں اور قدیر ان کا اکلوتا بھائی۔۔ اور انہوں نے خود زارا کا رشتہ مانگا اور اپنے ہاتھوں سے رخصت کرکے گھر لائیں۔ جھگڑا پیسے کا تھا، ان کا خیال تھا ان کا بیٹا سارا خرچ بہو کے ہاتھ رکھتا ھے جبکہ اسے سب کچھ ماں بہنوں کو دینا چاہیے، وہ خود زارا کو دیں۔ انہی جھگڑوں سے تنگ آ کر قدیر اسے اٹلی بھی لے گیا اور کچھ ماہ پہلے سسرال چھوڑ گیا۔ اس بار ساس اور نندوں نے سوچا کہ زارا کو واپس ہی نہ جانے دیا جائے اور قدیر کی ساری کمائی ہمیں ملے، پلان کے تحت لاہور سے کسی کو بلایا، فجر سے کچھ دیر پہلے سوئی ہوئی زارا کے منہ پر تکیہ رکھ کر سانس بند کی اور موت کے حوالے کردیا۔۔۔ اب مسئلہ لاش کا تھا کہ وہ کہاں کریں۔۔ اور شناخت کیسے چھپائیں تو سر کو دھڑ سے الگ کرکے چولہے پر جلایا گیا تاکہ نین نقش مسخ ہوجائیں، پھر جسم کاٹ کر دو الگ الگ بوریوں میں ڈالا، ایک بوری نہر میں اور ایک دور جھاڑیوں میں پھینک دی۔ پولیس نے ان کی نشان دہی پر مختلف جگہوں سے جسم کی باقیات برآمد کر لیں۔
لوگ کہتے ہیں رشتہ اپنوں میں کریں۔۔ اپنا مارے گا بھی تو چھاؤں میں ڈالے گا۔۔ یہاں تو چھاؤں میں بھی نہیں ڈالا گیا۔۔۔ اور پھر اپنا ہو۔۔ تو مارے ہی کیوں؟؟
دوسرا واقعہ فیروزوالہ پولیس کی حدود میں پیش آیا۔فیروزوالہ پولیس نے بارہ گھنٹے میں ساڑھے چار سالہ بچے کے اغواء اور قتل کا ملزم گرفتار کرلیا۔ ملزم کی نشاندہی پر نہر کے کنارے سے بچے کے جوتے برآمد۔ملزم علی حسن نے بتایا کہ اس کے بچے کی والدہ سے گذشتہ چار پانچ سال سے ناجائز تعلقات تھے جس سے وہ شادی کا خواہشمند تھا لیکن وہ اس شادی کی راہ میں اپنی محبوبہ کے ساڑھے چار سالہ بچے علی ضامن کو رکاوٹ سمجھتا تھا جسے دور کرنے کیلئے وہ بچے کو گلی میں کھیلتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا اور نہر کنارے لے جا کر اسے دھکا دے کر نہر میں پھینک دیا جبکیہ شک سے بچنے کیلئے وہ خود بچے کو تلاش کرتا رہا اور مساجد میں اعلان کرواتا رہا۔ بچے کی گمشدگی کی اطلاع پا کر ایس ایس پی آپریشن ڈاکٹر رضان تنویر اور ایس پی سول لائن حرکت میں آئے جنہوں نے ڈی ایس پی پیپلز کالونی غازی عارف محمود خان اور ایس ایچ او تھانہ فیروزوالہ اطہر امام کو بچے کی تلاش کا ٹاسک سونپا جنہوں نے ساری رات محنت کرکے ملزم کو گرفتا کیا اور اس کی نشاندہی پر بچے کے جوتے نہر کنارے سے برآمدکرلئے۔