پاکستان

موجودہ دور میں اے آئی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کا زائد استعمال ماحولیات کو کس طرح نقصان پہنچا رہا ہے؟

موجودہ دور میں اے آئی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کا زائد استعمال ماحولیات کو کس طرح نقصان پہنچا رہا ہے؟

عبدالستار عباسی شائع
December 11, 2024
Courtesy Dawn News

ہماری دنیا جو موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نبرد آزما ہے، اسے ایک نئے محرک کا سامنا ہے۔ مصنوعی ذہانت جو ہماری ڈیجیٹل دنیا کی محافظ ہے اور گلوبل وارمنگ کے خلاف جنگ میں ہماری مدد کررہی ہے، اس کی اپنی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں۔ یہ کسی سائنس فکشن کہانی کا منظر معلوم ہوتا ہے جس میں ہم اپنے سیارے کو بچانے کے لیے جو مشینیں تخلیق دے رہے ہیں، وہ اپنے مطابق زیادہ وسائل استعمال کررہی ہیں جس کے ماحولیاتی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

ہر بار جب آپ چیٹ جی پی ٹی سے درجن بھر سوالات پوچھتے ہیں تو آپ کے سوالات کا جواب دینے کے لیے استعمال ہونے والے کمپیوٹرز گرم ہوجاتے ہیں جنہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے 500 ملی لیٹر (ایم ایل) صاف پانی استعمال ہوتا ہے جوکہ دو گلاس پانی کے براہر ہے۔ یہ درجن بھر سوالات کے لیے دو گلاس پانی استعمال کرتا ہے جبکہ جی پی ٹی-3 جیسا ماڈل جو اوپن اے آئی (OpenAI) کے تازہ ترین o1 ماڈل سے بہت پیچھے ہے، اس کی ٹریننگ کرتے ہوئے لاکھوں لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

پاکستان جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے والے ممالک میں شامل ہے، اس کے لیے یہ معاملہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں گلیشیئرز پگھلنے سے شمالی علاقوں میں مقیم افراد کو خطرات لاحق ہیں جبکہ غیرمعمولی بارشوں سے جنوبی علاقوں میں سیلاب آتا ہے، یہاں مصنوعی ذہانت موسم سے موافقت اور پیش گوئی کے لیے اہم ٹول کے طور پر کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔

ایسا ملک جہاں ہر موسمِ گرما میں درجہ حرارت کے گزشتہ تمام ریکارڈز ٹوٹ جاتے ہیں اور پانی کی قلت پیدا ہونے کا مستقل خطرہ موجود ہو، وہاں موسمیاتی تبدیلی کے ڈیجیٹل حل تلاش کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت پر آنے والی لاگت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نیشنل جیوگرافک میں اپنی تحریر میں جیکی اسنو کہتے ہیں، ’آج دنیا کو جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ اس کے لیے تمام ممکنہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی جن میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) بھی شامل ہے‘۔

لیکن اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سیم آلٹمین نے حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم میں اعتراف کیا ہے کہ اے آئی کی توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کی صورت میں ایک نیا چینلج سر اٹھا رہا ہے، ’کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ہم یہ طلب پوری نہیں کرپائیں گے‘۔

موسمیاتی آفات سے نمٹنے میں مثبت کردار

اگر اس کی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کار لایا جائے تو اے آئی سیارے کے اعصابی نظام کے طور پر کام کرسکتا ہے جس کا کام معلوم کرنا، پیش گوئی کرنا اور ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنا ہوگا۔

گوگل کے فلڈ ہب کی ہی مثال لے لیجیے جو 80 سے زائد ممالک میں 7 دن پہلے ہی سیلاب کی پیش گوئی کردیتا ہے۔ اس سروس کی مدد سے افریقہ، یورپ، جنوبی اور وسطی امریکا اور ایشیا پیسیفک خطے بشمول پاکستان کی آبادیاں محفوظ مقام پر منتقل ہوجاتی ہیں۔ سال 2023ء تک یہ 46 کروڑ آبادی کے لیے سیلاب کی پیش گوئیاں کرنے لگا۔ اکتوبر 2023ء میں فلڈ ہب کی سروسز کا دائرہ کار امریکا اور کینیڈا تک پھیل گیا جس نے دریا کے کنارے واقع 800 سے زائد علاقوں کا جائزہ لیا اور ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد لوگوں کو مستفید کیا۔

کیلی فورنیا میں مشین لرننگ الگورتھمز، فائر فائٹرز کی مدد کرتے ہیں جن کا استعمال کرکے وہ جنگلات میں لگنے والی آگ کو ٹریک کرتے ہیں۔ زراعت میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے کاشت کاری کی تکنیک میں جدت آرہی ہے اور پانی کا استعمال کم اور فصلوں کی پیداوار زیادہ ہورہی ہے۔

اے آئی کا یہ استعمال نہ صرف متاثر کُن ہے بلکہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ وارننگ کے نظام کو بہتر بنانے سے موسمیاتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو 30 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

643 کلو واٹ ہاور کی بجلی استعمال کرتا ہے تو جی پی ٹی-3 کی ٹریننگ میں جتنی توانائی صرف ہوتی ہے، اس سے ایک اوسط پاکستانی خاندان کی 2 ہزار سال کی توانائی کی طلب پوری ہوسکتی ہیں۔ رواں سال جنوری میں بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) نے پیش گوئی کی کہ عالمی ڈیٹا سینٹر کی بجلی کی طلب 2022ء کے مقابلے میں 2026ء میں دگنی ہو جائے گی اور اس میں اضافے کی وجہ مصنوعی ذہانت کا استعمال ہے۔

اے آئی سسٹم سے ہونے والا کاربن کا اخراج بھی قابلِ ذکر ہے۔ ایک بڑے لینگویج ماڈل کی ٹریننگ کے لیے 3 لاکھ کلوگرام کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہوتا ہے۔ نیو یارک سے بیجنگ اور بیجنگ سے واپس نیویارک 125 پروازیں بھیجی جائیں تو اتنی کاربن ڈائی آکسائڈ خارج ہوگی جو لینگویج ماڈل خارج کررہا ہے۔

یونیورسٹی آف میساچوسٹس ایمہرسٹ کے محققین کے مطابق ایسے اے آئی ماڈل کو تربیت دینے میں خارج ہونے والی کاربن، پانچ اوسط امریکی گاڑیوں کی جانب سے پورے لائف اسپین میں خارج ہونے والے کاربن کے برابر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید اے آئی سسٹم کو تیار کرنے کے لیے ماحولیات کو کتنی لاگت ادا کرنی پڑتی ہے۔

اس کے علاوہ پانی کی کھپت بھی تشویش ناک ہے۔ جدید ڈیٹا سینٹرز اپنے سسٹمز کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بہت زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں یعنی ایک بڑی فیسیلیٹی میں ایک دن میں 5 لاکھ گیلن پانی استعمال ہوتا ہے۔ کچھ ماہرین امکان ظاہر کرتے ہیں کہ 2027ء تک اے آئی کی پانی کی طلب پورے برطانیہ کے سالانہ پانی کی کھپت کے نصف تک ہو جائے گی۔

اے آئی کی توانائی کی طلب میں تیز ترین اضافہ
امریکی ریاست آئیووا کا شہر ویسٹ دی موین میں ڈیٹا سینٹر کے قرب و جوار میں رہائش پذیر لوگ یہ جان کر حیران ہوگئے کہ جی پی ٹی-4 جیسے جدید اے آئی ماڈلز کی ٹریننگ کے لیے علاقے کے پانی کے زیادہ ذخائر استعمال ہورہے ہیں۔ مقامی باشندوں کی جانب سے دائر ایک مقدمے سے پتا چلتا ہے کہ جولائی 2022ء میں اوپن اے آئی کے ماڈل کی ٹریننگ مکمل ہونے سے پہلے ڈیٹا سینٹر نے ضلع کے لیے مختص پانی کی فراہمی کا تقریباً 6 فیصد استعمال کیا۔

کرافورڈ نے خبردار کیا ہے کہ محض چند سالوں میں بڑے اے آئی سسٹمز اتنی توانائی استعمال کرسکتے ہیں کہ جس سے کسی ملک کی مجموعی طلب پوری ہوسکتی ہے۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اے آئی سسٹمز کی ٹریننگ کے لیے درکار کمپیوٹنگ پاور 2012ء کے بعد سے ہر 3 عشاریہ 4 ماہ بعد دگنی ہورہی ہے۔ مور کے قانون نے واضح کیا تھا کہ کمپیوٹر پاور معمول کے مطابق 18 ماہ بعد دگنی ہوتی ہے لیکن اس میں اضافہ تیزی سے ہورہا ہے۔

لیکن یہ صرف مشین کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ماحولیات کے وسائل کو استعمال کرنے کا معاملہ نہیں۔ اے آئی سسٹمز کے ہر حصے کو وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اے آئی مشینوں میں استعمال ہونے والی خصوصی چپس کو صاف پانی اور نایاب معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سسٹمز کو چلانے والے سرورز کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی لازمی ہوتی ہے جبکہ اس کی پاور کو اسٹور کرنے کے لیے جو بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں وہ ایسے مواد سے بنتی ہیں جن کی کان کنی کرنے سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مختلف ممالک میں اے آئی کے مختلف ماحولیاتی اثرات
اگرچہ اے آئی کے کچھ فوائد ہیں جیسے یہ بہتر انداز میں موسمیاتی پیش گوئیاں کرسکتا ہے، یہ توانائی کے نظام کو بہتر بناتا ہے جبکہ آفات سے نمٹنے میں مثبت ردعمل دیتا ہے لیکن ان فوائد کے باوجود اے آئی سسٹمز بعض علاقوں اور آبادیوں کو مختلف انداز میں فائدہ پہنچاتے ہیں۔

اور یہ فرق بہت واضح ہے۔ 2022ء میں فن لینڈ میں گوگل کا ڈیٹا سینٹر 97 فیصد کاربن فری توانائی پر چلتا تھا لیکن ایشیا میں اس کے ڈیٹا سینٹرز نے 4 فیصد اور 18 فیصد کے درمیان کاربن فری توانائی کا استعمال کیا۔ اس بڑے فرق کا مطلب ہے کہ کچھ آبادیاں دوسروں کی نسبت فوسل فیول کے استعمال اور فضائی آلودگی کا زیادہ شکار ہیں۔

شاولی رین اور ایڈم ویرمین نے ہارورڈ بزنس ریویو میں نشاندہی کی کہ ’مختلف خطے اور آبادیاں اے آئی کے حوالے سے ماحولیاتی تبدیلی کا کس طرح سامنا کررہے ہیں، اس میں فرق نمایاں حد تک بڑھ رہا ہے‘۔

یہ مسئلہ مزید سنگینی اختیار کرسکتا ہے۔ 2026ء تک اے آئی کے لیے عالمی توانائی کے استعمال میں 10 گنا اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو بیلجیئم کی بجلی کی کُل کھپت سے زائد ہے۔ امریکا میں اے آئی سے آپریٹ ہونے والے ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والی توانائی 2026ء تک ملک کی کُل بجلی کے استعمال کا تقریباً 6 فیصد تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

پاکستان جیسے ممالک جہاں پانی کی قلت ہے اور بوند بوند پانی کی اہمیت ہے، وہاں زراعت اور پینے کا پانی اے آئی سسٹمز میں استعمال ہوسکتا ہے۔
یہ فرق وسائل تک محدود نہیں بلکہ اس میں مہارت کا عنصر بھی شامل ہے۔ او ای سی ڈی کے ذریعے شائع کردہ اسٹیک اوور فلو کے سروے میں سامنے آتا ہے کہ شمالی امریکا میں دنیا کے 30 فیصد اے آئی ماہرین آن لائن طور پر فعال ہیں جبکہ پاکستان میں ان کا تناسب صرف 0.67 فیصد ہے۔ دولت مند ترقی یافتہ ممالک میں ٹیلنٹ اور کمپیوٹنگ کو زیادہ توجہ دی جائے گی تو ان ممالک کی جانب سے نکالے جانے والے موسمیاتی حل، ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو پورا نہیں کریں گے نہ ہی ان کے مسائل کو حل کریں گے جن کا ترقی پذیر ممالک کا سامنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button