پیپلز پارٹی نے آئندہ انتخابات میں فتح کے لیئ تیاری شروع کردی
کراچی (خصوصی رپورٹ) متحدہ قومی موومنٹ کی تقسیم اور زیر عتاب آنے کے بعد اشدہ اسی صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے پی پی پی نے حکمت عملی و ضلع کر لی ہے، کراچی کے تمام اضلاع میں نئی تنظیم سازی کے ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی نے آئندہ عام انتخابات میں کراچی سے نمایاں پارلیمانی نمائندی حاصل کرنے کیلئے بڑے سیاسی ناموں کو پارٹی میں شامل کرنے کیلئے رابطے تیز کر دیئے ہیں، ذرائع کے مطابق سابق ایم این اے نبیل گبول ، پی ٹی آئی سندھ کے صدر سابق صوبائی وزیر نادرا اکمل لغاری، پی ٹی آئی لیبر ونگ کے سابق مرکزی صدر زبیر خان کے بعد سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ، کراچی سے مسلم لیگ (ن) کے ارکان سندھ اسمبلی ہمایوں محمد خان اور حاجی شفیع جاموٹ سمیت متعدد سیاسی شخصیات کی آئندہ دنوں پی پی پی میں شمولیت متوقع ہے۔ سابق صدر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سے کراچی میں ملاقات کے موقع پرنبیل گبول ایک عرصہ سے کسی سیاسی جماعت میں جانے کے لئے مشاورت میں مصروف تھے، ان کے بارے میں عام تصوریہ تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف یا پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ کچھ عرصہ تک ان کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کی اطلاعات بھی زیر گردش رہیں، بالاآخر مشاورت کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل نبیل گبول نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ 25 سالہ رشتہ توڑتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، پارٹی بدلنے کے بعد 2013ء کے انتخابات میں متحدہ نے مضبوط ترین حلقے این اے 246 سے نبیل گبول کو نشست تحفے میں دی جہاں سے انہوں نے 1 لاکھ 37 ہزار 8 سو 74 ریکارڈ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، انہوں نے اپنے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر آٓبائی حلقے لیاری این اے 248 سے بھی الیکشن لڑا مگر صرف 6 ہزار4 سو 89 ووٹ حاصل کئے ، اسی حلقے سے پی پی پی کے ٹکٹ پر شاہ جہاں بلوچ نے 84 ہزار 5 سو 30 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی نبیل گبول کے والد خان احمد خان گبول اور چچا عبدالستار گبول نے پاکستان کی سیاست میں بڑافعال کردار ادا کیا ۔ اﷲ بخش خان گبول مرحوم نے برطانوی دور میں مسلم لیگی رہنما سر عبداﷲ ہارون کو اس حلقے سے شکست دی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد دو مرتبہ کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی گبول قبیلہ کا یہ خاندان اس جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ عبدالستار گبول نے 1970ء کے انتخابات میں لیاری کی نشست سے حصہ لیا اور سر عبداﷲ ہارون کے سفرزند سعید ہارون کو شکست دے کر یہ نشست حاصل کی۔ عبدالستار گبول کے بھیجے اور خان گبول کے صاجزادے سردار نبیل گبول نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا۔ وہ لیاری سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر تین مرتبہ صوبائی اسمبلی اور دو مرتبہ قومی اسمبلی جبکہ 2013ء کے عام انتخاب میں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر تیسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں، مارچ 2015ء میں قومی اسمبلی کی نشست اورایم کیو ایم چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا، ان کی پاکستان پیپلز پارٹی میں واپسی سے پارٹی کو اپنے مضبوط گڑھ لیاری سے مضبوط امیدوار مل گیا ہے تا ہم لیاری میں گینگ وار گروپوں کی موجودگی اور ان کی پارٹی میں واپسی پارٹی پر اندرونی اختلافات کے پیش نظر سیاسی نقصان کا بھی خدشہ پایا جاتا ہے، ذرائع کے مطابق پی پی پی ضلع جنوبی کے کئی اہم رہنماﺅں کو نبیل گبول کی واپسی پر شدید تخفظات ہے، اس طرح کیماؑڑی سے صوبائی اسمبلی پی ایس 89 سے مسلم لیگ (ن) کے منتخب رکن ہمایوں محمد خان کی متوقع شمولیت سے پی پی پی کو ضلع غربی میں بڑا سیاسی فائدہ مل سکتا ہے، ہمایوں خان کے خاندان کا کیماڑی اور ملحقہ علاقوں میں سیاسی حوالے سے کافی اثر ور سوخ ہے تا ہم پی ایس 89 پر انہیں پی پی پی میں شامل مضبوط جدون خاندان کے سابق صوبائی وزیر اختر حسین جدون اور سابق امیدوار سید دلاور شاہ کی مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے، ضلع شرقی میں محمود آباد ، اختر کالونی و دیگر علاقوں پر مشتمل پی ایس 114 سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی سابق صوبائی وزیر عرفان اﷲ مروت کی صورت میں پی پی پی ایک مضبوط امیدوار میسر آجائے گا جبکہ ابراہیم حیدری سمیت ساحلی آبادیوں پر مشتمل پی ایس 129 سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی حاجی شفیع جاموٹ کی پی پی پی میں شمولیت سے پی پی پی کو کراچی میں ایک اور مضبوط نشست مل جائے گی کیونکہ ماہی گیر بستیوں اور ساحلی گوٹھوں میں جاموٹ خاندان کا گہرا اثر ہے، ذرائع کے مطابق کراچی سندھی ، بلوچ، پنجابی اور پختون اکثریتی آبادیوں پر مشتمل علاقوں میں خاطر خواہ سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد پی پی پی کی قیادت شہر کے اکثریتی ارادو بولنے والے آبادی میں اثرورسوخ بڑھانے کیلئے پی ایس پی ، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے ناراض رہنماﺅں سے خفیہ رابطے کر رہی ہے، ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پی پی پی میں شمولیت کی صورت میں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو اردو بولنے والی آبادیوں میں رابطے بڑھانے کیلئے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر ہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اندرون سندھ کئی بڑے مکالف سیاسی نام پی پی پی میں شامل کرنے کے بعد پی پی پی نے اپنی پوری توجہ کراچی پر مرکوز کر دی ہے اور 2018ءکے عام انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشتیں حاصل کرنا ٹارگٹ بنا دیا ہے۔