باپ بیٹے کے اختلافات ،پیپلز پارٹی 2حصوں میں تقسیم-
کراچی (خصوصی رپورٹ) پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اختلافات ختم نہیں ہوئے اور دونوں باپ بیٹوں میں اختیارات کی جنگ جاری ہے، عرفان اللہ مروت کی پہلے پیپلزپارٹی میں شمولیت اور پھرمعذرت بھی باپ بیٹوں کے درمیان اختلافات کا نیتجہ ہے کیونکہ بلاول بھٹو زرداری کی دونوں بہنیں بختاور اور آصفہ اپنے بھائی کساتھ ہیں۔ ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی مستقل دو حصوں میں تقسیم ہے، پیپلزپارٹی سندھ کے رہنما آصف علی زرداری کی پالیسیوں کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن اور دیگر بلاول بھٹوکے ساتھ ہیں اور پیپلزپارٹی پنجاب کی قیادت چاہتی ہے کہ آصف علی زرداری کی جگہ بلاول بھٹو کو سیاسی لیڈر طور پر آگے لایا جائے، ذرائع کے مطابق جب آصف علی زرداری ملک سے باہر جاتے ہیں تو یہ تمام لوگ انہیں پاکستان واپسی سے روک رہے ہوتے ہیں لیکن آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کی کمانڈ بلاول بھٹو زرداری کو دینے کیلئے تیار نہیں۔ ذرائع کے مطابق عرفان اللہ مروت کی شمولیت کیخلاف دراصل بلاول بھٹو زرداری ہیں ان کے اپنے والد سے اختلاف کا ہی شاخسانہ ہے کہ بلاول کی دونوں بہنوں بختاور اور آصفہ نے اپنے بھائی کی پالیسیوں کی حمایت میں عرفان اللہ مروت کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کیخلاف ٹوئٹ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق بلاول نے وفاقی حکومت کو جوچارمطالبات پیش کیے تھے اور حکومت کو ڈیڈ لائن دی تھی اسے ختم ہوئے بھی کافی دن گزر گئے ہیں لیکن اس پر بھی حکومت کیخلاف تحریک باپ بیٹے کے اختلافات کی وجہ سے نہیں شروع کی جاسکی، دونوں ایک صفحے پر نہیں اور یوں یہ مطالبات بھی ہوا میں اڑ گئے جبکہ پارٹی بھی خاموش ہے۔ اس کے علاوہ بینظیر بھٹو کی برسی پر آصف زرداری اور بلاول نے ضمنی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اسے بھی موخر کرنا پڑ گیا۔ ذرائع کے مطابق بلاول اور آصف علی زرداری کے فیصلے اور اعلانات اسی ہی وجہ سے موثر ثابت نہیں ہو پا رہے ہیں کہ پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی بڑی جماعت پیپلزپارٹی ہے لیکن پاکستان کا ہر شخص جانتا ہے کہ تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں حزب اختلاف کا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے، پیپلزپارٹی کی سیاست اپوزیشن کی روایتی سیاست کی تشریح پر پوری نہیں اترتی۔ بلاول بھٹو دو ماہ پہلے گونواز گو کا نعرہ لگا رہے تھے، حکومت کے خلاف تحریکشروع کرنے کی باتیں کرتے تھے، ان کی آواز سیاست کے ایوانوں میں گونج رہی تھی لیکن 90 دن میں کایا پلٹ گئی۔27 دسمبر کو آصف زرداری پاکستان آئے اورایسا لگا کہ صورت حال یکسر بدل گئی۔27 دسمبر 2013 اور فروری 2017ءکے بلاول بھٹو میں زمین و آسمان کا فرق آ گیا ہے اب بلاول بھٹو کے ٹویٹ سامنے آتے ہیں۔ نہ بیانات اور نہ ہی وہ پچھلے دوماہ کے دوران زیادہ مستعد نظر آئے ہیں۔ گزشتہ 8 سال کے دوران پیپلزپارٹی کی سیاست بہت جوڑ توڑ اور مکینیکل قسم کی رہی ۔ پیپلزپارٹی کے پاس کوئی سیاسی پراڈکٹ نہیں ہے جسے وہ پنجاب میں بیچ سکے۔ زرداری اس وقت ٹکراﺅ کے قطعاً موڈ میں نہیں ہیں اور نہ ہی کبھی تھے۔