والد کہتا ہے بچوں سے پوچھیں، بچے کہتے ہیں دادا سے جائیداد ملی، نیب کچھ کہتا ہے سمجھ نہیں آتا ہوکیا رہا ہے ،سماعت ایک ڈیڑھ روز میں مکمل ہوجائیگی :جسٹس کھوسہ
غلط بیانی پر نااہل کیسے ؟ کون ہے جو بیوی سے جھوٹ نہیں بولتا :جسٹس عظمت ،حدیبیہ پیپر ملز کیس میں 1.2ارب کی بدعنوانی کا معاملہ بغیر حساب کتاب جانے دیں؟عدالت اسلام آباد(سپیشل رپورٹر،ایجنسیاں) پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آرٹیکل184/3 کے تحت عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہوتا، اس معاملے پر ادارے اگر کام کرتے تو یہ کیس سپریم کورٹ نہ آتا،ایف بی آر کو صرف نوٹسز جاری کرنے میں چھ ماہ کا وقت لگا،اٹارنی جنرل نے معاملے پرعدالتی دائرہ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو فیصلے کا اختیار نہیں ہے ۔پاناما لیکس کیس میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت شروع کی توعدالت کے حکم پر ایف بی آر اور نیب کے چیئرمین پیش ہوئے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پہلے چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر ارشاد کو روسٹرم پربلایا،بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ تو طے شدہ ہے کہ آف شورکمپنی بنانا کوئی غلط کام نہیں، ہم آف شور کمپنیز سے متعلق ایف بی آر کا کردار جاننا چاہتے ہیں۔ چیئرمین ایف بی آرنے کہا کہ پاناما ٹیکس چوروں کی جنت ہے ،پاناما کے ساتھ ٹیکس معلومات کا کوئی معاہدہ نہیں، تاہم وزارت خارجہ کے ذریعے ان ممالک سے رابطے کی کوشش کی گئی۔جسٹس شیخعظمت سعید نے اس پر استفسار کیا کہ ایف بی آرنے معاملے پر وزار ت خارجہ سے کب رابطہ کیا؟اس پر چیئرمین نے بتایاکہ ستمبر2016میں رابطہ کیا،جس پرجسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر کا دفتر وزارت خارجہ سے 200 گز کے فاصلے پر واقع ہے ،مگر رابطہ کرنے میں 6 ماہ لگ گئے ،اس پر جسٹس عظمت سعید نے ڈاکٹرارشاد سے کہا کہ 200 گز کا فاصلہ 6 ماہ میں طے کرنے پر آپ کو مبارک ہو، جسٹس عظمت نے ایک اور سوال کیا کہ ایف بی آر نے پاناما لیکس پر آف شور کمپنی مالکان کو نوٹس کب جاری کیے ؟ اس پر بتایا گیا کہ ستمبر 2016 میں 343 افراد کو ایف بی آر نے پاناما لیکس پر نوٹسز جاری کیے ۔ڈاکٹر ارشاد نے عدالت کو مزید بتایا کہ آف شور کمپنیوں پر صرف ڈائریکٹر کا نام ہونا کافی نہیں، پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے ناموں میں سے 39 کمپنیوں کے مالکان پاکستان کے رہائشی نہیں تھے جبکہ 52 افراد نے آف شور کمپنیوں کی موجودگی سے ہی انکار کردیا تھا۔ چیئرمین ایف بی آر نے تسلیم کیا کہ اس ضمن میں فوری اقدامات نہیں کیے جاسکے اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے ۔اس کے بعد چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری بینچ کے سامنے پیش ہوئے ،انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ادارہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے ،ستمبر 2016 میں معاملہ پبلک اکاونٹس کمیٹی میں سامنے آیا،اس پرجسٹس کھوسہ نے کہا کہ کمیٹی میں ادارے کا موقف رہا ہے کہ پاناما کا معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا جس پر چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ریگولیٹر رابطہ کرے تو کارروائی کی جاتی ہے ۔اس پرجسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا نیب کا موقف یہ ہے کہ ریگولیٹر نہیں آیا، اسی لیے ان کے پاس آف شور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں؟ کیا نیب کو کوئی اور ریگولیٹ کرتا ہے ؟جس پر چیئرمین نیب نے بتایا کہ نیب کا قانون ہمیں ریگولیٹ کرتا ہے اور نیب قانون، چیئرمین نیب کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے ۔جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ کیا نیب آرڈیننس میں کسی ریگولیٹر کا ذکر ہے ، ریگولیٹر نیب کے کام میں رکاوٹ کیسے بن گیا ؟جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب قانون چیئرمین کو کارروائی کا اختیار دیتاہے ،یہ ریگولیٹر کا لفظ آخر کہاں سے آیا؟ قطری خط میں بھی ریگولیٹر آف پاکستان کا ذکر تھا، پاکستان میں آخر ریگولیٹر ہے کون؟بینچ کے سربراہ نے کہا کہ کیا ریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین کو تعینات کرتا ہے ؟ اوگرا اور نیپرا کا تو بطور ریگولیٹر سنا تھا، نیب کا ریگولیٹر کون ہے ؟ عدالت کے اس سوال پر چیئرمین کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے ۔اس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں،جسٹس عظمت سعید نے چیئرمین نیب کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں، تاہم ایک سال گزر گیا اور نیب نے کچھ نہیں کیا، آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس آئے تو نیب انکوائری کرتا ہی ہے ، جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھا تو جاتا، کیا کسی ایک بندے سے پوچھا گیا کہ سرمایہ کہاں سے آیا؟ سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا؟ لوگوں کے طعنے ہمیں سننے پڑے ، اسرائیل کے وزیراعظم کو تحقیقاتی ادارے پوچھ لیتے ہیں تو نیب بھی کسی کو بلاکر پوچھ لیتا۔ایک موقع پر جسٹس کھوسہ نے کہاکہ والد کہتا ہے بچوں سے پوچھیں، بچے کہتے ہیں دادا سے جائیداد ملی۔ نیب کچھ کہتا ہے سمجھ نہیں آتا ہوکیا رہا ہے ؟ جسٹس آصف کھوسہ نے نیب حکام سے دریافت کیا کہ حدیبیہ پیپرز مل کیس میں نیب نے معاملہ ٹھپ کردیا، نہ ہی اپیل کی اور نہ ہی ریفری جج کے فیصلے کو پڑھا، عدالت کو نیب کے اپیل نہ کرنے پر تحفظات ہیں،جس پرچیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ التوفیق کمپنی کے معاملے پر مقدمہ ایف آئی اے نے تیار کیا تھا،جس پر جسٹس عظمت نے جواب دیا کہ ایف آئی اے پاکستان کا ادارہ ہے اٹلی کا نہیں، عدالت نے تکنیکی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا، عدالت نے کیس کو بے بنیاد قرار نہیں دیا تھا جب کہ اپیل دائر نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی، 4 سو روپے کے ملزم کی ضمانت ہو جائے تو نیب عدالت کا دروازہ توڑ دیتا ہے ، اس معاملے میں اربوں کی کرپشن پر اپیل نہیں کی گئی، جب ہائیکورٹ کے جج نے کہا کہ نیب اپیل کر سکتاہے ، تو آپ نے اپیل کیوں نہیں کی؟جسٹس اعجاز افضل نے کہا کیا آپ کے کام نہ کرنے کی وجہ وہ شخص ہے جس نے آپ کو تعینات کیا، نیب غیر سنجیدہ مقدمات میں بھی اپیل دائر کرتا ہے ، نیب وکلاء کہتے ہیں حکام بالا کو مطمئن کرنے کے لیے اپیل کرتے ہیں۔اس پرچیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ پراسیکیوٹر کی مشاورت سے کیا جاتا ہے اور اس معاملے میں پراسیکیوٹر نے رائے دی کہ اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر اپیل کی جاتی تو نیب کی بدنامی ہوتی اور میاں شریف بھی حیات نہیں تھے ۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ سابق پراسیکیوٹر نے رائے دی تھی کہ اپیل دائر کی تو ادارے کی بدنامی ہوگی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تو کیا اس وقت ادارے کی نیک نامی ہورہی ہے ۔اس موقع پر بینچ کے سربراہ نے چیئرمین نیب سے سوال کیا کہ وہ بتائیں کیا کسی دباؤ کے بغیر کیس کھولنے کے حق میں ہیں یا نہیں؟ جس پر چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ متعلقہ اداروں کی طرف سے کارروائی کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں۔ اپنے خیالات پر قائم ہوں، حدیبیہ پیپرز ملز پر اپیل دائر نہیں کروں گا۔اس موقع پرجسٹس عظمت سعید نے کہا بہت بہت شکریہ چیئرمین نیب صاحب! اب آپ کو نتائج بھگتنا ہوں گے ۔وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل کا آغاز کیا،انہوں نے کہا کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار پر قانونی معاونت فراہم کریں گے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان درخواستوں میں وزیراعظم کی نااہلی مانگی گئی اور نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں۔حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی درخواستیں دائر کیں لیکن حنیف عباسی کی درخواستوں کو پاناما کیس سے منسلک نہیں کیا گیا۔اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے اور منفرد مقدمے کے لئے سپریم کورٹ کا فورم چنا گیا۔ اس طرح کے مقدمات میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں ۔ سپریم کورٹ نے ماضی میں ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی۔الیکشن اور نااہلی سے متعلق مقدمات متعلقہ فورم ہی سنتے ہیں۔درخواست گزاروں کی جانب سے منتخب کیا گیا فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے ، درخواستیں کو وارنٹو اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں جن کی سماعت کرنا عدالت کا معمول اور دائرہ اختیار نہیں۔ عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلیمنٹ پر لاگو ہو گا۔دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ تحقیقات کرنا عدالت کا کام نہیں،کیا صرف جھوٹ بولنے والا رکن اسمبلی نہیں بن سکتا؟اس پیمانے پر توہر شخص ہی بیوی سے جھوٹ بولتا ہے دفترمیں بیٹھ کر بیوی کو کہا جاتا ہے راستے میں ہوِں۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک آدمی شادی شدہ ہی نہیں تو وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں موجود شیخ رشید مسکرا د یئے ۔ایک موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درست ہے کہ غفلت برتنے پر نیب نے عوام کے بنیادی حقوق متاثر کیے ۔اس موقع پرجسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی زحمت نہیں کی، کیا ہم نیب کو اپیل دائر کرنے کا حکم دے سکتے ہیں، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، لہذا عدالت آپ سے معاونت چاہتی ہے ،کیا ہم 1.2 ارب کی بدعنوانی کا معاملہ بغیر حساب کتاب جانے دیں؟اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ سوال ان کے لیے آسان نہیں۔ اس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا آپ کی رائے یہ ہے کہ عدالت حدیبیہ پیپر ملز کیس کو دوبارہ نہیں کھلوا سکتی؟جس کے جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کی یہ ہی رائے ہے اور اگر عدالت نیب کو اپیل دائر کرنے کافیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک بری مثال بن جائے گی۔جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے نیب کی جانب سے اپیل نہ کرنے پر فیصلہ دیا تو پھر چیئرمین نیب اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ پاناما کیس کے ہر پہلو کے اثرات دور رس ہوں گے ،انہوں نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے آپ آج دلائل مکمل کرلیں گے ، کوشش کریں گے ایک ڈیڑھ دن میں کیس کی سماعت مکمل ہوجائے ، آج سماعت میں وقفے کے بعد نعیم بخاری کا جواب الجواب سنیں گے ۔ عدالت نے کیس کی سماعت آج صبح تک ملتوی کردی۔