پاکستان

میڈیکل سٹور/فارماسوٹیکل احتجاج حقائق کیا؟

(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)‎
دنیا کا سب سے کرپٹ ترین بزنس ادویات سازی و ادویات فروشی کا ہے۔ یہ واحد کار و بار ہے جو اصل بھی اس درجے کا جعلی ہے کہ پوری دنیا ان کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ کسی وقت اس پر تفصیل سے لکھوں گا آج بس ایک ہی چیز جان لیجئے۔ آپ کے محلے میں بنے میڈیکل سٹور پر دو قسم کی ادویات فروخت ہوتی ہیں۔ ایک اصلی دوسری جعلی۔ میڈیکل سٹور والا آپ کی شکل دیکھ طے کرتا ہے کہ آپ کو اصلی دینی ہے یا جعلی ؟ اصل دوائی پر میڈیکل سٹور والے کو 15 فیصد جبکہ جعلی ادویات پر پچاس 50 فیصد نفع ہوتا۔ یہ جعلی ادویات زیادہ کچھ نہیں کرتیں بس آپ کے گردے فیل کردیتی ہیں، آپ کے بچے کو دمے کا مریض بنا دیتی ہیں، آپ کی اماں جان کو شوگر اور ہیپٹائٹس وغیرہ سے دو چار کر دیتی ہیں اور آپ کے اباجی کی کھانسی صبح قیامت تک کے لئے "ٹھیک” کر دیتی ہیں۔ وہ جعلی سٹنٹ تو یاد ہوں گے جو لاہور میں یہ مافیا دل کے مریضوں کو فروخت کر رہا تھا ؟ شرم آنی چاہئے شہباز شریف کو جو انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے والوں کے خلاف بھاری جرمانوں اور کار و بار سیل کرنے کے قوانین بناتاہے بے شک یہ اقدام فلُ حال کمپنی کی مشہوری کے کئے گئے ہیں لیکن مستقبل میں سنگ میل ثابت ہوگا پاکستان میں جعلی اور دو نمبر ادویات کا دھندہ اس قدر عام ہے کسی کو اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ نہیں میں نے اس ترمیمی ڈرگ ایکٹ کا بغور مطالعہ کیا اور کچھ وکلا دوستو سے مشاورت بھی کی اس میں میڈیکل سٹور مالکان اور فارماسوٹیکل کمپنیوں سے کسی قسم کوئی ذاتی نہیں ہے بلکہ میں حیران ہوں اس میں تو میڈیکل سٹور والوں کیلئے کچھ بھی نہیں سوائے انھیں کہا گیا ہے کہ سٹور کا ٹمپریچر برقرار رکھیں اور فارماسوٹیکل کمپنیوں کو جعلی ادویات بنانے پر دو سے چھ کڑوڑ کا جرمانہ اور دو سے دس سال قید کی سزا ہے تو پھر سٹور مالکان کیوں سڑکوں پر ہیں کیا یہ ان فارما کمپنیوں کو جعلی ادویات بنانے کی اجازت مانگ رہے ہیں اس ایکٹ کے مطابق حکومتی متعلقہ ادارے ان کی بنائی گئی ادویات کو لیباٹری چیک کریں گئے اور بھاری جرمانے اور کاروبار سیل کرنے اختیارات اپنے پاس محفوظ رکھیں گئے اگر ان کے پاس کسی قسم کی جعلی یا مضر صحت ادویات ملی تو ورنہ وہ اپنا کام آرام سے کریں میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں یہ آحتجاج کرنے والے کس بات پر اعتراض کررہے ہیں کہ انہیں جعلی ادویات بیچنے دی جائیں یا پھر ان پر ہونے والے جرمانے کم کریں تاکہ وہ زہر بیچ کر اس میں سے کچھ کمشن گورنمنٹ کو بھی دے دیں میرے حساب سے یہ قتل ہے اور اس کی سزا قاتل کے برابر ہونی چائے ابھی تک دی جانے والی سزائیں بھی بہت کم ہیں کیا تاجر تنظیمیں اپنا کاروبار انسانی لاشوں پر کرنا چاہتی ہیں پاکستان کی فارماسوٹیکل کمپنی کے بہت سے مالکان سے اس سلسلہ میں بات ہوئی ان کا کہنا ہے شہباز شریف نے ہمیں بہت تنگ کیا ہے ادویات میں استعمال ہونے والے اسالٹ کی کوالٹی اور فیکٹری کے کوالٹی کنٹرول پہلے ہی اس کے کہنے پر کافی بہتر کرچکے ہیں اس کے باوجود بھی ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دے رہا ہے وہ چاہتا ہم یورپ اور امریکہ کے سٹنڈر کی ادویات بنائیں پہلے ہی مارجن پچاس فیصد سے کم ہوکر تیس فیصد ہو چکا ہے اب کیا دس فیصد پر کام کریں گئے میرے بہت پیارے دوست احمد رضا بھٹی جو آجکل صحافت کی فیلڈ میں ہیں پہلے دس سال فارماسوٹیکل مارکیٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے انہوں جو بتایا وہ میرے ہوشربا انکشاف تھا بقول ان کےاگر ایک دوائی سو روپے کی ہے تو مین ڈیلر کو بیس فیصد اور چھوٹے سٹور کو پندرہ فیصد ڈاکٹرز اپرول پر تیس فیصد خرچ آتا ہے یعنی فیکٹری کو یہ دوائی پینتیس روپے روپے میں تیار کرنی ہوتی ہےاور اپنی بچت بھی اسی میں نکالنا پڑتی ہے لہذا اس ک حل یہ نکلا دوائی میں استعمال ہونے والے اسالٹ کے ایم جی میں کمی کرکے اسے سستے میں تیار کیا جائے کچھ کمپنیوں نے ایک دوائی کے دو طرح کی پیکنگ بنا لی ایک تو بہتر اسالٹ کے ساتھ اور کم کمشن مارجن کے ساتھ اور دوسری جعلی جس میں کمیشن آپ کی مرضی کے مطابق کونسا میڈیکل سٹور یا تاجر ہوگا جو اصل دوائی کم مارجن پر لے گایہاں سارا جھگڑا اور احتجاج کمیشن کا ہے جس میں اب ہمارے حکومتی ادارے بھی شامل ہوں گئے سادے الفاظ میں آپ کو سمجھاؤں تو موجودہ صوتحال میں فیکٹری مالکان ابھی اس پینتیس فیصد میں سرکاری ملازمین اور اداروں کا کمیشن دینے کے متحمل نہیں ہیں اس لئے انھوں نے میڈیکل سٹور مالکان کو یہ کہہ کر ڈریا ہے اگر دوائی اصل بیچنے پڑی تو کمیشن صرف پانچ سے دس فیصد دیں گئے کیونکہ ڈاکٹرز کا کمیشن تو بند کر نہیں سکتے ہیں ورنہ ان کی دوائی لکھے گا کون لہذا یہ سٹور مالکان اس کو اپنا معاشی قتل سمجھ کر سڑکوں پر آگئے ہیں حالانکہ ان کو یہی احتجاج ان فارماسوٹیکل کمپنیوں کے خلاف کرنا چاہئے اور اتحاد کرکے اپنا معقول کمیشن سیٹ کرنا چائے ان کو میڈیا پر دیکھا کر اور ہڑتال کرکے بڑے مگر مچھ اپنا فائدہ ڈھونڈ رہے ہیں اور عوام کیلئے موت کا سامان تیار کرنے کی اجازت مانگ رہے ہیں میں زیادہ تر حکومت پر تنقید کرتا ہوں کیونکہ حق بھی ان کا ہی بنتا ہے لیکن آج میں کہوں گا ویلڈن شہباز شریف اس سے پیچھے مت ہٹنا یہ کسی کا معاشی قتل نہیں بلکہ لاکھوں کے قاتلو کا حساب ہے اور میڈیکل سٹور مالکان خود کو اس سانڈوں کی لڑائی سے نکالیں اگر وہ عوام کے ساتھ مخلص ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button