اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے سیکھنے کا معیار نا قابل ِ برداشت حد تک پست ہے
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیو ز وائس اف کینیڈا )
Powering Pakistan for the 21qst Century
Volume II: The State of Maths & Science in School
پاکستان بھر کے اسکولوں ، بالخصوص سرکاری اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے سیکھنے کا معیار نا قابل ِ برداشت حد تک پست ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ایک بہت واضح مسئلہ ہے جس کی جڑیں نہایت گہری اور جن کے اثرات بہت دُور رس ہیں۔
149 نیشنل ایجوکیشن اسیسمنٹ سسٹم (NEAS) کے تحت 2014 ء میں ہونے والے امتحانی نتائج کے مطابق آٹھویں جماعت کے بچوں کا ریاضی میں اوسط اسکور کُل 1000 میں سے 461 نمبر تھا
149 2014 ء میں ہونے والے NEAS کےامتحانی نتائج کے مطابق چوتھی جماعت کے بچوں کا ریاضی میں اوسط اسکور کُل 1000 میں سے 433 نمبر تھا
149 پنجاب ایگزامنیشن کمیشن (PEC) کے 2016 کے امتحانی نتائج کے مطابق پنجاب میں پانچویں جماعت کے بچوں کا ریاضی میں اوسط اسکور فقط 53 فیصد ہے
149 2016 کے PEC کے امتحانی نتائج کے مطابق پنجاب میں پانچویں جماعت کے بچوں کا سائنس میں اوسط اسکور فقط 49 فیصد ہے
149 سندھ کے سٹینڈرڈائزڈ اچیومنٹ ٹسٹ (SAT) کے امتحانی نتائج کے مطابق سندھ میں پانچویں جماعت کے بچوں کا ریاضی میں اسکور 24 فیصد ہے
149 2016 میں SATکے امتحانی نتائج کے مطابق سندھ میں پانچویں جماعت کے بچوں کا سائنس میں اسکور 24 فیصد ہے
149 خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر، بلوچستان اور فاٹا کے مڈل اسکولوں میں تعلیمی معیار سے متعلق ہمارے پاس NEAS کے علاوہ کوئی اعداد و شمار موجود نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان اپنے غریب ترین طبقات کے بچوں کو مناسب معیار کی ریاضی اور سائنس کی تعلیم نہیں دے رہا۔
(1) NEAS 2014 کے مطابق ریاضی میں پاکستانی بچوں کا اوسط اسکور
(2) NEAS 2014کے مطابق سائنس میں پاکستانی بچوں کا اوسط اسکور
ریاضی اور سائنس کی اس ناقص معیار ِ تعلیم کے پیچھے پانچ بنیادی عوامل ہیں۔
اول یہ کہ ریاضی اور سائنس کی تعلیم کے سیاسی اور معاشی پہلو پاکستانی بچوں کی ترقی و بہبود کی بجائے مختلف گروہوں کے مفادات تک محدود ہیں
دوئم یہ کہ معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ سرکاری ڈھانچہ فرسودہ اور از کار رفتہ ہے۔ ملک کے سب سے زیادہ ضرورت مند طبقات کے بچوں کو یہ ڈھانچہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق معیاری تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہے۔
سوئم یہ کہ ہمارے سرکاری اسکولوں میں نہ صرف ریاضی اور سائنس، بلکہ دیگر مضامین میں بھی معیاری تعلیم دینے کے لیے درکار کافی سہولیات و آلات موجود نہیں ۔
چہارم یہ کہ اساتذہ کو معیاری تعلیم دینے کی ترغیب کے لیے مراعاتی نظام موجود نہیں اور مزید یہ کہ بہت سارے اساتذہ بچوں کو ان مضامین کی تعلیم دینے کی قابلیت بھی نہیں رکھتے۔
پنجم یہ کہ بچوں کو دیا جانے والا تدریسی مواد اور ان کے سیکھنے کی جانچ پڑتال کا نظام نہایت پست اور از کار رفتہ ہے۔
پچھلے چند سالوں میں اساتذہ کی بھرتیوں کے عمل سے سیاسی مداخلت ختم کر دی گئی ہے، یہ خوش آئند رجحان پنجاب سے شروع ہوا اور اب چاروں صوبوں میں قابلیت کی بنیاد پر اساتذہ کی بھرتیاں ہو رہی ہیں۔ 2013 سے اب تک 125,000اساتذہ کی صرف میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں ہوئی ہیں۔ یہ تعداد اب ملک بھر میں اساتذہ کی کُل تعداد کا 20 فیصد ہے ۔ یہ ایک اہم لیکن چھوٹا قدم ہے۔
(3)
اس رپورٹ کی تیسری جلد میں پاکستان الائنس فار میتھس اینڈ سائنس چاروں صوبائی حکومتوں، ریاضی اور سائنس کے ماہرین اور سول سوسائٹی سے مشاورت کے بعد تجاویز پر مبنی ایک لائحہ عمل پیش کرے گی۔
رپورٹ کی دوسری جلد آپ یہاں سے ڈاون لوڈ کر سکتے ہیں؛
مزید معلومات کے لیے آپ زوہیر زیدی +92 345 0315333 کے ذریعے پاکستان الائنس فار میتھس اینڈ سائنس سے رابطہ کر سکتے ہیں