اک ذرا سی بات !
تحریر: حسیب اعجاز عاشرؔ
پرنٹ میڈیا ہویاالیکٹرانک میڈیا،یاپھرسوشل میڈیاہی کیوں نہ ہو،ادبی،قلمی،سیاسی،فلاحی،علمی، ہر طبقہ فکر سے وابستہ شخصیات کے مابین اپنے ہنر،اعزازات ،کمالات،صلاحیتیں گنوا کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ نظر آ رہی ہے ۔جیت جانے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود کچھ شخصیات کو اِس روایتی دوڑ میں شامل ہوکر نام کماناکسی صورت بھی گوارہ نہیں،مگر اُنکے مشن کی گونج اُنہیں گمنام نہیں رہنے دیتی۔نصرت عزیز کا شمار بھی انہیں قابل قدر شخصیات میں ہوتا ہے ۔نصرت امتَ محمدی ﷺ کی فلاح و بہبود اور اصلاح تربیت کی غرض سے ’’حالات و اقعات کے تناظر میں مسائل کو گننے، گنوانے ،پھر ان مسائل کے بارے میںآگاہی پیدا کرنے اور ان مسائل سے نکلنے کا حل بتانے‘‘پر اپنے قلمی ہنر اور کمالِ فکر کوصرف کرنا ہی اپنا اعزاز تصور کرتے ہیں ،یہی اعزاز ایک جنون، مہم، کُل مقصدحیات بن کرایک عظیم جہاد کے درجے میں اِنکے قلم کو بے کراں کئے رکھتے ہیں۔اقبال کاؒ یہ مصرع انہیں نوجوانوں کیلئے ہیں۔۔۔
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر!
شعبہ درس و تدریس سے وابستہ نصرت عزیز نے اپنے قلمی سفر کا آغاز ۸اکتوبر ۲۰۰۵کو اپنے پہلے کالم بعنوان ’’یہ محبت!!!‘‘ سے کیا جو کہ ہولناک زلزلے کے باعث قیامت خیز تباہ کاریوں کے بعد لکھا گیا تھا ۔شروع شروع میں اپنے مضامین کی فوٹو سٹیٹ اپنے طلبا و طالبات میں تقسیم کر کے اپنی پیاسی جنونیت کے خشک لبوں کو تر رکھتے اور پھر یوں انکے ایک سٹوڈنٹ عبدالوحید صدیقی کے توسط سے انکی تحریریں اخبارات کی زینت بننا شروع ہو گئیں۔ ۲۰۰۸ میں انہوں نے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جس میں بغیر کسی معاشی و معاشرتی استحصال کے بالکل مفت ٹیوشن کی سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔ امتِ محمدیﷺ کی اصلاح و تربیت کیلئے ۲۰۱۳ میں ایک اصلاحی ،تربیتی اور معلوماتی رسالہ شروع کیا جسے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی ۔
اپنے بے مثال مشن کے تسلسل میں ،حال ہی میں نصرت عزیز کے منتخب کالموں کا مجموعہ ’’اِک ذرا سی بات‘‘بھی منظرعام پر آچکا ہے، اِس کتاب کی حروف چینی کیلئے مولانا مفتی آفتاب احمداور مس عظمی شیر جبکہ ترتیب کیلے ذیشان ضیاء نے اپنی ذمہ داریوں کو باخوبی نبھایا ہے ، سادہ مگر دلکش سرورق کیلئے عزیز ایڈووئزرکا کمالِ ہنرخوب اُجاگر ہوا ہے۔ ۳۰۴ صفحات پر مشتمل یہ کتاب جسے جمالیات پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے ،کی قیمت صرف ۳۰۰روپے ہیں ۔قابل تحسین بات یہ ہے کہ مصنف نے کتاب سے ہونے والی آمدن کا ۳۰فیصد حق داروں کی فلاح و بہبود کیلئے مختص کر کے مثالی گم گشتہ روایت میں پھر سے روح پھونک کر اپنے قد کاٹھ میں مزید اضافہ کیا ہے ۔اِس کتاب پر عصر حاضر کی ادب و صحافت کی مایہ ناز ہستیوں نے اپنے جامع تاثرات کے اظہار میں وہی لکھا جس کے نصرت حقدار تھے مگر اِس خاکسا ر راقم الحروف کے لئے کوئی ایسا نادر لفظ اور جملہ نہیں چھوڑا جو اِس خوبصورت کاوش پر مصنف کوجداگانہ و منفرد تحسینی کلمات سے خراج تحسین پیش کر سکے۔
مدیر اقراء روضۃ الاطفال اکیڈمی اٹک حافظ عبدالوحید صدیقی نے کتاب اور صاحبِ کتاب کے انداز بیاں کی نذر حبیب جالب یہ اشعار کرتے ہوئے اِس خوبصورت کاوش کو خوب سراہا ہے کہ
مرے ہاتھ میں قلم ہے مرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا ڈر ا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امن عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا
مس عظمی شیر فضائیہ ڈگری کالج ایم آر ایف کامرہ نے تصنیف پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مضمون بعنوان ’’بدلتا اور ہماری ذمہ داریاں‘‘میں لکھا ہے کہ مصنف کا کھراپن انکی کتاب کے مضامین سے ٹپکتا ہے جو کہ قارئین کے لئے جہاں اصلاح و تربیت کا باعث ہے وہاں ہی ایک سوچ اور ایک فکر کا موجب بھی ہے ۔ انہوں نے اِس کتاب کو نصرت کی خوبصورت سوچ،احساسات ،خیالات اور ادبی ذوق کی عملی تفسیر قرار دیا ہے ۔جس میں اصلاح معاشرہ کا کام احسن طریقے سے انجام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔انہوں کا کہنا ہے کہ نصرت عزیز جیسے لوگ ہی زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کا چراغ بن کر صراط مستقیم دکھاتے ہیں ۔چیئرمین اٹک پریس کلب ندیم رضا خان نے اپنے مضمون’’صحافت اور ادب‘‘ میں صاحب کتاب کی قلمی کاوشوں کو دل کھول کر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تعلیم،علم،جدیدیت، معاشرت،ثقافت، بین الاقوامی تعلقات، جغرافیہ اور سیاست پر بے باک انداز میں قلم کاری نصرت کے کالموں کو حسن بخشتی اور اس کے فن کو دوام عطا کرتی ہے۔انکے کالم دعوت فکر دینے کیساتھ ساتھ انفرادی بہتری اور اجتماعی بھلائی کیلئے بانگ درا کا کام کر رہے ہیں ۔
سرسری سے مطالعے کے بعد میں یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہوں کہ اس کتاب میں مجھے ٹائٹل’’اک ذرا سی بات‘‘ کی مناسبت سے ایک بات بھی ذرا سی نہیں مل پائی،سبھی بڑی بڑی معنی خیز باتیں ہیں۔اس کتاب کو پاکستان اور مسلم اُمہ کے’’ مسائل،وسائل اور اصلاح‘‘ کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ انداز تحریر میں ادب کی آمیزش نے تو مضامین میں مزید نکھار پیدا کر دیا ہے جو قاری کوبوریت سے کوسوں دور رکھتا ہے ۔ کتاب کے اوراق پلٹیں تونصرت اپنے کالم ’’آمد مصطفےﷺ ، کمالات مصطفےﷺ اور اُمت کی بے رخی‘‘میں اپنے کرب کا اظہار بڑی ہی دردمندی سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ امت پر آپﷺ کے احسانات لکھنے کیلئے پانی کو سیاہی بنا کر بھی لکھا جائے تو سیاہی ختم ہوجائے گی لیکن احسانات ختم نہیں ہونگے لیکن ہم نے اس عظیم ہستی کیساتھ کیا کِیا اور کیا کر رہے ہیں ؟ قدم قدم پر اس عظیم ہستیﷺ کی سنت کی نافرمانی کر کے کیا خوب وفا نبھا رہے ہیں ؟۔۔اپنے کالم ’’پہلے محاسبہ پھر اصلاح‘‘میں بڑے ہی مدبرانہ اور درویشانہ انداز میں کیا ہی خوبصورت اُن بلندوبانگ کھوکھلے’’تبدیلی‘‘ کے نعروں لگانے والوں کیلئے لکھا ہے کہ ’’آج اگر دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنا محاسبہ کریں پھر اس کے بعد اپنی اصلاح کریں تو یہ کامیابی و کامرانی کیطرف ہمارا پہلا قدم ہوگا جو ایک مستحکم اور خوش حال پاکستان کیطرف بھی پہلا قدم ہوگا‘‘
زلزلہ زدگان کی بحالی کی مد میں وصول ہونے والی امداد کو جنہوں نے مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کر لیا اُنکی اِس بے حسی پر اپنے آنسوؤں کو’’یہ قوم کبھی مر نہیں سکتی مگر۔۔۔۔‘‘میں فکرمندی کیساتھ کچھ اِسطرح بہایا ہے کہ ’’کیا ہم اتنے بہادر اور دلیر ہوچکے ہیں کہ ہم پھر کسی قدرتی آفت کا انتظار کر رہے ہیں یا پھر کسی قدرتی آفت کو اپنی تباہی و بربادی کیلئے دعوت دے رہے ہیں ؟‘‘۔۔فتنہ قادیانیت اور ختم نبوتﷺ پر اپنی بے باک تحریر ’’گر حق ادا نہ ہوا تو پھر‘‘میں ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آج ہم رسول پاکﷺ کی عزت و آبرو کے دشمنوں کیساتھ راہ رسم رکھ کر دنیا تو حاصل کر لیں گے مگر کیا قیامت والے دن حضور پاکﷺ کے سامنا کر سکیں گے؟‘‘ ہماری ایسی ہی بے وفاہی کو انہوں نے ’’کس منہ سے ‘‘میں قلم بند کیا ہے کہ ’’اتنی محبت،اتنی چاہت،اتنی وفا کرنے والی ہستی کیساتھ امت کی یہ بے رخی کچھ بے معنی سے لگتی ہے‘‘۔۔ہمارے منافقانہ رویے کو بے نقاب کرتے ہوئے نصرت عزیز ’’ہم نے جشن ۔۔۔آزادی کا منایا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ نوجوان نسل جو پورا سال پاکستان کو کو ستی رہتی ہے ۱۴اگست کو حب الوطن بن کر شرم و حیاء سے آزاد ہو کر آزادی مناتی ہے آزادی بھی ایسی کہ نہ والدین کی عزت کا خیال تو نہ مسلمانوں کی آبرو و حرمت کا پاس مگر پھر بھی مطمن ہیں کہ ہم آزاد ہیں اور ہم نے بھی جشن۔۔۔آزادی کا منایا‘‘
۹نومبر ۲۰۱۱ میں اپنے لکھے گئے کالم ’’باعث فخر۔۔آئی ایس آئی اور پاک فوج‘‘میں مصنف نے پاک فوج اور ہماری انٹیلی جنس اداروں کی ناقابل فراموش کارکردگی کو والہانہ خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اِس امید کا اظہار کیا تھا کہ ’’ایک بار پھر وہ دور آئیگا جب گلی گلی کوچوں کوچوں، چوراہوں، میدانوں، بازاروں اور پاکستان کے چپہ چپہ سے پاک فوج زندہ باد کے نعرے گونجیں گے‘‘اور نصرت عزیز یہ پیش گوئی سو فیصد آج سچ ثابت ہوئی ہے کہ ضربِ عضب کے کامیاب آپریشن نے پاک فوج کے وقار کو پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بلند ترین کردیا ہے اور پاک فوج دنیا کی بہترین افواج بن کر اُبھری ہے کہ سبھی اِس کے معترف ہوچکے ہیں ،یہ وجہ ہے ۳۹ممالک کے اسلامی اتحادی افواج کی کمان ایک پاکستانی سپاسالا کے ہاتھ میں دینے کے تیاری ہو چکی ہے۔مسلمانوں کے غالب ہونے کی پُرامیدی کونصرت نے اپنے کالم ’’غلبہ اسلام کا ہی ہوگا‘‘ میں ایسے بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی طاقت کا احساس نہیں ،جس دن مسلمانوں کو اپنی طاقت کا احساس ہو گیا تو تب اسلام کا ہی ہو گا۔
گیارہ صفحات پر مشتمل’’یہ ہے میرا اٹک‘‘میں اٹک کی تاریخ کو بھی ایسا خوش اسلوبی اور ایک ربط سے پیش کیا ہے اُس پارکی میٹھی خوشبواِس پار محسوس ہونے لگی ۔اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سیلقہ سیکھاتے ہوئے بقول شاعر کے نصرت لکھتے ہیں
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
مختصراً اِس کتاب میں خوبصورت تحریروں کی بھرمار ہے جو اپنی انفرادیت کی دوڑمیں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتی نظر آر ہی ہیں ،قاری کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کسے صف اول کی سردار تحریر قرار دے ،اپنے تاثرات کو سمیٹے ہوئے بس ان چند سطروں پر اکتفا کرونگا کہ زیرِنظر کتاب میں سمندر سے وسیع ترین ،مذہب،پاکستانیت، علم، تہذیب و ثقافت، معاشرت، اندرونی و بیرونی معاملات ، جغرافیہ، سیاست، معیشت جیسے موضوعات پر اپنے تاثرات کو چند سطروں، پیراگرافس یا چند صفحات کے کوذے میں سمیٹ بھی دیا جائے توصداقت کیساتھ وہ لطافت پیش کرنا ناممکن ہے جو نصر ت کے قلم سے لکھی اِن اصل تحریروں میں ہے۔کالموں کی ترتیب میں ذراکمی محسوس ہوئی ہے ،مثلاً ’’آفات اور ان کا حل‘‘اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی حساس اور بہت اہم ہے مگر اِسے کتاب کے آخری صفحات میں شامل ملی،بہرحال قلمی ہنرمندیوں کے حوالے سے تحریریں مثالی ہیں ۔اہل ذوق احبا ب نے اگر اِس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا تو بلاشبہ ایک شگفتہ تحفے سے تاحال مرحوم ہیں ۔۔۔اختتام پر رب کائنات سے اِ ن کی اِس دعا ہے پر ہم بھی آمین کہتے کہ اللہ تعالی انہیں ہمت،حوصلہ اور استقامت بھی دے کہ یہ اسی طرح حضور کی امت کی فلاح و بہبود اور اصلاح و تربیت کیلئے اپنی کوششوں کو جاری و ساری رکھ سکیں اور ایسے ہی انکے قلم کی سیاہی سفیدی بکھیرتی رہے۔۔۔آمین