کالم,انٹرویو

قبلائی خاں

قبلائی خاں چنگیز خاں کا پوتا تھا۔ 1216ء میں پیدا ہوا، اور بعد میں اتنی وسیع سلطنت کا حکمران بن گیا کہ اس سے پہلے کسی بادشاہ کو اتنے لوگوں پر حکومت کرنا نصیب نہ ہوا تھا۔ جب چین میں مغلوں کو ماردھاڑ کرتے آدھی صدی گزری تھی (1279ئ) تو اس وقت قبلائی خاں کی بادشاہی کا جھنڈا پولینڈ کی سرحدوں تک لہرا رہا تھا۔ یورپ کے لوگوں کو سب سے پہلے جس چینی بادشاہ سے شناسائی حاصل ہوئی وہ قبلائی خاں ہی تھا۔ ابھی قبلائی خاں کی عمر دس سال کی تھی کہ اس نے اپنے دادا چنگیز خاں کی آخری مہم میں حصہ لیا (1226ئ۔ 1227ئ) روایت ہے کہ چنگیز نے اپنے بسترِ مرگ پر قبلائی خاں کو لائق اور ہونہار بتایا تھا۔ قبلائی خاں کہیں 1259ء میں جا کر تخت پر بیٹھا، لیکن اس وقت بھی اس کو اپنے بھائی ’’اریک بغا‘‘ اور اپنے چچیرے بھائی ’’قیدو‘‘ سے جنگ کرنی پڑی۔ کیونکہ وہ بھی تخت کے دعویدار تھے۔ قبلائی خاں نے اُن پر فتح پائی اور اپنا نیا پایۂ تخت پیکن میں قائم کیا۔ اُس کے بعد جنوبی چین پر قبضہ کرنے کی طرف متوجہ ہوا۔ جب کبھی قبلائی خاں زیادہ دور دراز فوجی مہمیں اختیار کرتا تھا، اُسے کامیابی نہ ہوتی تھی۔ اُس نے جاپان پر کئی حملے کئے لیکن شدید ناکامی ہوئی۔ پھر کو چین، چائنا اور جاوا پر چڑھ دوڑا، لیکن ان میں بھی کامیاب نہ ہو سکا، البتہ برما میں کامیابی ہوئی اور مغل فوجیں اس ملک میں پھیل گئیں۔ اس شہنشاہ نے جب کبھی دوسرے ملکوں سے امن و مصالحت کی بات چیت کی، وہ ہمیشہ کامیاب ہوا۔ مثلاً جنوبی ہندوستان، مشرقی افریقہ اور مدغاسکر نے اس کی اطاعت کا عہد کر لیا۔ قبلائی خاں کی فوج میں ایشیا کے اکثر ملکوں کے لوگ شامل ہوتے تھے اور اس کے عملے میں ہر ملک کے طالع آزما جنگجو، سائنسدان، حاکم اور سیاسی آدمی شریک تھے۔ مارکوپولو اسی گروہ سے تھا اور قبلائی خاںکے اکثر حالات اسی کے سفرنامے سے معلوم ہوتے ہیں۔ مارکوپولو نے یہ بھی لکھا ہے کہ قبلائی خاں اپنی رعایا کی تعلیم کے لیے یورپ کے پادریوں کو بُلانا چاہتا تھا لیکن جب پادری نہ مل سکے تو اس نے تبت سے بُدھ مت والوں کو بلا لیا۔ اُس کا دربار نہایت شاندار تھا، جہاں عیش و تفریح کے عظیم الشان سامان تھے اور اس کی شکار کی ٹولیاں بڑی آن بان کی ہوتی تھیں۔ قبلائی خاں طبعیت کا نیک تھا اور علمی مشاغل سے دلچسپی رکھتا تھا، لیکن اُس کا اسراف بسا اوقات رعایا کو بغاوت پر آمادہ کر دیتا تھا۔ اُس نے 78 سال کی عمر پا کر 1294ء میں وفات پائی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button