ایڈیٹرکاانتخاب

سپریم کورٹ نے شریف خاندان کیلئے ایک اور مشکل کھڑی کر دی

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں جاری پاناما پیپرز کیس کی سماعت میں تحریک انصاف کے دلائل مکمل ہوگئے۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کے پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام شواہد اور دستاویزات پیش کردیئے ہیں، عدالت سے وزیراعظم کی نا اہلی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ امید ہے سپریم کورٹ کیس کا فیصلہ جلد سنائے گی۔ نعیم بخاری نے کہاکہ مریم نواز کے پاس آف شور کمپنیوں کے لیے پیسہ نہیں تھا، آف شور کمپنیوں کے لیے مریم کو رقم نوازشریف نے دی۔ شریف خاندان کو ثابت کرنا ہوگا کہ ان کا ہر کام قانون کے مطابق ہوا۔پاناما لیکس کیس میں جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ابھی بھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ لندن فلیٹس کب خریدے گئے؟ شریف فیملی کے مطابق انہیں فلیٹس 2006ءمیں منتقل ہوئے، درخواست گزار کےبقول شریف خاندان نے فلیٹس 1993سے1996 میں خریدے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ وقت آگیا کہ سپریم کورٹ ایک ایسا فیصلہ دے کہ ادارے ریاست کے بجائے عوام کی خدمت کریں۔ دوران سماعت شیخ رشید کے دلائل پر عدالت میں قہقہہ جاری ہو گیا جس پر ججوں نے برہمی کا اظہار کیا۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کے لیے آتے ہیں، شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے، قطری شہزادہ نوازشریف کےلے ریسکیو 1122ہے۔ اسلام آباد(آئی این پی )پاناما کیس میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جبکہ وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم،اسحاق ڈار،کیپٹن صفدر کی نااہلی کی درخواست کی گئی،جواب دہندگان سے ٹیکس وصولی کی عمومی استدعا کی گئی،ٹیکس وصولی کس شخص سے کرنی ہے یہ بھی نہیں بتایا گیا،پی ٹی آئی نے میگا کرپشن کیسز کی تحقیقات کی بھی استدعا کی،میگا کرپشن کیسز سپریم کورٹ میں زیرالتواہیں،وزیراعظم اور اہلخانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی استدعا کی گئی،پی ٹی آئی کے دلائل میں ای سی ایل کا ذکر کہیں نہیں کیا گیا،جس استدعا پر زور نہ دیا جائے وہ ازخود ختم ہوجاتی ہے،استدعا ختم ہونے کے حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں، تمام ایشوز پر عدالت کی معاونت کروں گا،عدالت کا فوکس پانامہ لیکس پر ہے جب کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل میں موقف اختیارکیا ہے کہ قطری خط کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں کیونکہ یہ بیان حلفی کے بغیر اور سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے اور سنی سنائی بات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔بدھ کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اور ان کے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے، کمپنی کا بیریئر سرٹیفکیٹ پرائز بانڈ نہیں ہوتا کہ جس کے پاس ہو آف شور کمپنی اس کی ہوگی، قانون کے مطابق بیریئر سرٹیفکیٹ سے متعلق آگاہ کرنا ضروری ہے،قانون کے اطلاق سے فلیٹس کے ملکیت کی منتقلی تک بیریئر کا ریکارڈ دینا ہو گا۔ رجسٹریشن کے نئے قانون کا اطلاق سب پر ہوتا ہے، شریف خاندان کے بقول 2006 سے قبل بیریئر سرٹیفکیٹ قطری خاندان کے پاس تھے، اس لئے شریف خاندان کو بھی سرٹیفکیٹ کا قطری خاندان کے پاس ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔نعیم بخاری نے کہا کہ بلیک لاڈکشنری کے مطابق زیرکفالت وہ ہوتا ہے جس کےاخراجات کوئی دوسرا شخص برداشت کرے، نوازشریف نے مریم کو کروڑوں روپے بطور تحفہ دیے، مریم نواز کے پاس آف شور کمپنیوں کے لیے پیسہ نہیں تھا،آف شور کمپنیوں کے لیے مریم کو رقم نوازشریف نے دی۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی کے بعد کفالت اس کا شوہر کرے جب کہ ریکارڈ کے مطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی کوئی آمدن نہیں تھی۔جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ اگر آپ کی تعریف مان لیں تو کیا مریم حسین نواز کے زیر کفالت ہیں، ابھی بھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے۔ آپ کے بقول شریف خاندان نے یہ فلیٹس 1993 اور 1996 کے درمیان خریدے جب کہ شریف فیملی کے بقول انھیں فلیٹس 2006 میں منتقل ہوئے، جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ کیا والد کے ساتھ رہنے والا زیرکفالت ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں کوئی نیا نکتہ بیان کریں۔عمران خان کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ ہم عدالت سے وزیراعظم کی نا اہلی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے عدالت کی بہترین معاونت کی ہے۔نعیم بخاری کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل میں کہا کہ وہ نعیم بخاری کی جانب سے دیئے گئے تمام دلائل سے متفق ہیں۔ میرا کوئی بچہ یا فیملی نہیں لیکن یہ قوم ہی میری فیملی ہے، یہ ایک خاندان بامقابلہ بیس کروڑ عوام کا کیس ہے، عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کے لیے آتے ہیں، ایک طرف مریم کہتی ہیں کہ ان کی آمدن نہیں دوسری طرف وہ امیر ترین خاتون ہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ ہر روز ایک ارب چالیس کروڑ روپے چھپائے جارہے ہیں ، ان رقوم کو چھپانے کے لیے ماہر افراد کی خدمات لی جاتی ہیں، انہیں ساڑھے 7 ارب ڈالرز بیرون منتقل کرنے کی بات سن کر افسوس ہوا، یہ پیسہ ملک کا ہے، اسحاق ڈار نے اربوں روپے دبئی منتقل کرنے کا اعتراف کیا، نواز شریف پاناما کیس میں براہ راست ملوث ہیں، قطری شہزادہ مین آف دی میچ ہے اور شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے، قطری خط رضیہ بٹ کا ناول ہے، قطری شہزادہ نواز شریف کے لیے ریسکیو 1122 ہے۔ سب سے پہلے ہم نے قطری نام ہیلی کاپٹر کیس میں سنا۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے دو افراد کو زیر کفالت ظاہر کیا، وہ دو افراد ان کی اہلیہ اور مریم نواز ہیں، قطری خط کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں، یہ بیان حلفی کے بغیر اور سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے، سنی سنائی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا، قانون کے مطابق زبانی ثبوت براہ راست ہونا چاہیے۔ اس خط کے پیچھے اصل چہرہ سیف الرحمن کا ہے، پورٹ قاسم پاور پلانٹ سیف الرحمن کو دیا گیا،ایل این جی کا ٹھیکہ بھی سیف الرحمن کی کمپنی کو دیا گیا۔شیخ رشید کے دلائل پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی۔شیخ رشید نے کہا کہ 2فروری2006کو مریم نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر لندن میں دستخط کیے،ڈیڈ پر بطور گواہ کیپٹن(ر)صفدر کے دستخط ہیں،حسن نواز نے چار فروری2006کو ڈیڈ پر دستخط کیے دوسرے گواہ وقار احمد کے دستخط میں فرق ہے،یقین سے کہتا ہوں نوٹری پبلک کے سامنے کسی نے دستخط نہیں کیے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ لگتا ہے کومبر گروپ کی ٹرسٹ ڈیڈ غلطی سے جمع کرائی گئیں،نیلسن اور نیسکول والی ٹرسٹ ڈیڈ بعد میں جمع کروائی گئی،جس ٹرسٹ ڈیڈ کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ نیلسن اور نیسکول کی نہیں ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا راولپنڈی میں کوئی جائیداد بغیر رجسٹری بیچی جاسکتی ہے۔شیخ رشید نے کہاکہ راولپنڈی میں ایک سائیکل بھی نہیںبکتی جب تک شہادت نہ ہو۔جج صاحب آپ نے کیس پڑھا ہوا ہے،دوسرے فریق نے نہیں،میرا ایمان ہے ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے،ٹرسٹ ڈیڈ پر سفارتخانے کی تصدیق نہیں،جس نے پانامہ پیپرز کی خبر دی اس کو بلایا جائے،19 سال کی عمر میں ہمارے بچوں کا شناختی کارڈ نہیں بنتا،شریف فیملی کے بچے 19سال کی عمر میں اربوں پتی بن جاتے ہیں،پانامہ کیس میں 19سال کی بڑی اہمیت ہے۔شیخ رشید نے کہا کہ طارق شفیع نے 12ملین درہم کس کو دیئے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ بارہ ملین درہم کس کو دیئے گئے یہ نہیں بتایا گیا۔شیخ رشید نے کہاکہ 1980میں دبئی میں31 بینک کام کر رہے تھے،بارہ ملین درہم1993تک کہاں رہے؟،شریف فیملی کی دولت اقتدار کے دور میں بڑھی،جدہ میں کتنے مسلمان کام کرتے ہیں،20کے نام بتادیں،قطری خط لا کر شریف فیملی نے اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری،پاکستان کو بڑے لوگوں کے بچوں نے نقصان پہنچایا،جعلی ڈگری چھوٹااور ملک کا پیسہ لوٹنا بڑا جرم ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ جذباتی نہ ہوں میری بات سن لیں۔شیخ رشید نے کہاکہ شکل سے جذباتی لگتاہوں لیکن ہوں نہیں،آپ کا فیصلہ ملک میں جمہوریت کو زندہ کرے گا۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے شیخ رشید کو سیاسی گفتگو سے روک دیا۔شیخ رشید نے وزیراعظم کو عدالت طلب کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ عدالت نے کئی معاملات پر ازخود نوٹس لیے،سپریم کورٹ پانامہ پیپرز کا بھی ازخود نوٹس لے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ درخواستیں آچکی،ازخودنوٹس لینے کی ضرورت نہیں۔شیخ رشید نے کہاکہ جھوٹ کی تین قسمیں ہیں،حسین نواز کہتا ہے ہماری اور بھی کمپنیاں ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آپ حسین نواز کے ٹی وی انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ دے دیں۔شیخ رشید نے اپنے دلائل مکمل کرلیئے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سراج الحق کی درخواست میں کسی کو فریق نہیں بنایا گیا،جماعت اسلامی کی درخواست عمومی نوعیت کی ہے۔عدالت نے کہاکہ جماعت اسلامی اور طارق اسد کی درخواستوں کی الگ سماعت کریں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ان درخواستوں میں معاملات مختلف ہیں۔ اگر دلائل دینے ہیں تو درخواست گزاروں کی مرضی ہے،جن لوگوں کو گرفتار کرنے کی بات کی جاتی ہے،انہیں فریق نہیں بنایا گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جماعت اسلامی کے وکیل سے مکالمے میں کہاکہ نوازشریف کو فریق نہیں بنایا گیا۔وکیل توفیق آصف نے کہاکہ نوازشریف کو بلانے کی متفرق درخواست دائر کی۔ عدالت میری درخواست پر کارروائی نہیں کرسکتی تو ترمیم کی اجازت دے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ ترمیم کرنے کیلئے آپ کو درخواست واپس لینا ہوگی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مناسب ہوگا جماعت اسلامی اپنی درخواستوںکو الگ رکھے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ درخواست میں ترمیم کرنے کیلئے اجازت کی ضرورت نہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہم کوئی حکم نہیں دے رہے،آپ سوچ لیں کیا کرنا ہے۔جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہاکہ عمران خان اور شیخ رشید کی درخواستوں کو سپورٹ کرتے ہیں،چاہتے ہیں کہ ملوث افراد کے خلاف کارورائی ہو،چاہتے ہیں کمیشن بنے اور سب سے تحقیقات ہوں،نوازشریف کی کرپشن پر بھی عدالت کی معاونت کروں گا،عدالت نے پہلے کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ عدالت نے کہا تھا کہ ضرورت محسوس ہوگی تو کمیشن بنائیں گے۔وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وقت کم ہے، عدالت چاہے تو جمعرات کو دلائل شروع کرسکتا ہوں۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آپ وارم اپ کرلیں،مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم،اسحاق ڈار،کیپٹن صفدر کی نااہلی کی درخواست کی گئی،جواب دہندگان سے ٹیکس وصولی کی عمومی استدعا کی گئی،ٹیکس وصولی کس شخص سے کرنی ہے یہ بھی نہیں بتایا گیا،پی ٹی آئی نے میگا کرپشن کیسز کی تحقیقات کی بھی استدعا کی،میگا کرپشن کیسز سپریم کورٹ میں زیرالتواہیں،وزیراعظم اور اہلخانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی استدعا کی گئی،پی ٹی آئی کے دلائل میں ای سی ایل کا ذکر کہیں نہیں کیا گیا،جس استدعا پر زور نہ دیا جائے وہ ازخود ختم ہوجاتی ہے،استدعا ختم ہونے کے حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ پی ٹی آئی کو لندن فلیٹس تک محدود رہنے کا کہا تھا،آپ کیس کا حصہ تاخیر سے بنے اس لیے شاید آپ کو علم نہیں۔مخدوم علی خان نے کہاکہ تمام ایشوز پر عدالت کی معاونت کروں گا،عدالت کا فوکس پانامہ لیکس پر ہے،سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی سماعت(آج)جمعرات تک ملتوی کردی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button