دستاویز سے متعلق عدالت کو مطمئن کریں ، آئین کے تحت کچھ آپکو بھی ثابت کرنا ہے‘‘نعیم بخاری کے دلائل کے بعد پاناما کیس کی سماعت پیر تک ملتوی
اسلام آباد (نیوز وی او سی آن لائن ) سپریم کورٹ نےتحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل سننے کے بعد پاناما کیس کی سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کر دی ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم نئے 5رکنی لارجر بینچ نے پاناما کیس کی مسلسل تیسری سماعت کی اور تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل سننے کے بعد سماعت پیر تک ملتوی کر دی ۔ اگلی سماعت پر بھی نعیم بخاری اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وزیرا عظم کے نمائندگی کرنے والے شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وزیرا عظم کے خلاف الیکشن کمیشن میں 4ریفرنسز زیر سماعت ہیں جبکہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی درخواست موجود ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں اسحاق ڈار اور مریم صفدر کی جانب سے بھی پیش ہو رہا ہوں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کے خلاف الیکشن کمیشن میں بھی یہی معاملہ ہے ؟ بتایا جائے الیکشن کمیشن میں درخواستیں سپریم کورٹ کے بعد آئیں یا پہلے جس پر شاہد حامد نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن میں درخواستیں پہلے دائر ہوئیں جبکہ کیپٹن صفدر کے خلا ف بھی الیکشن کمیشن میں درخواست دائر ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ لندن فلیٹس کے اصل مالک وزیر اعظم نوازشریف ہیں اور مریم نواز کے نام بے نامی فلیٹس خرید ے گئے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے موقف اپنایا کہ لندن فلیٹس 1993ءسے 1996ءکے درمیان خریدے گئے اور جب فلیٹ خریدے گئے اس وقت مریم نواز کم عمر تھی جبکہ دبئی میں بھی بے نامی سٹیل مل لگائی گئی ۔ مریم نواز ہی لندن فلیٹس کی اصل مالک ہیں تاہم دنیا کو دکھانے کیلئے والد نے مریم نواز کو بینی فشری ظاہر کیا ۔تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ 2011ءمیں وزیرا عظم نے بیٹی کو 3کروڑ 70لاکھ بطور تحفہ دیے اور جب فلیٹ خریدے گئے تب مریم نواز کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا ۔ 2013ءمیں پھر والد نے 3کروڑ سے زائد کی رقم بطور تحفہ دی جبکہ 2011ءمیں مریم نواز نے چوہدری شوگر مل سے 4کروڑ 23لاکھ کا قرضہ لیا اور 2012ءمیں مریم نواز نے اپنے بھائی حسن نواز سے 2کروڑ 89لاکھ قرض لیا ۔
جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ مریم نوا ز کو چوہدری شوگر مل میں شیئر ہولڈر کب بنایا گیا ؟ جسٹس اعجا ز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کمپنی سے متعلق ریکارڈ ایس ای سی پی کے پاس موجود ہوتا ہے ۔نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی کمپنیوں نے موزیک سے آف شور کمپنیوں کی تفصیل مانگی تاہم تحقیقاتی ادارے نے کمپنیوں کی ملکیت اوردیگر امور کا دریافت کیا ۔ تحقیقاتی ادارو ں کو بتایا گیا کہ لندن فلیٹس کرائے پر نہیں دیے گئے اور یہ بھی بتایا گیا کہ فلیٹس میں مریم نواز اور فیملی رہائش پزیر ہیں ۔ سامبا بینک نے کہا کہ مریم ہماری اکاﺅنٹ ہولڈر ہیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ”بخاری صاحب آپکے دلائل سے مریم کا زیر کفالت ہونے کا معاملہ واضح نہیں ہوتا “۔
جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ لندن فلیٹس مریم کو کب اور کیسے منتقل ہوئے ؟ التوفیق کیس میں مریم نواز کا نام نہیں تھا ۔کیا مریم کو جائیدا دمنتقلی کا دستاویزی ثبوت ہے؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک دستاویز مریم کا سامبا بینک اور منروا کمپنی سے تعلق ظاہر کرتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ مریم نوا زکا کمپنیوں سے تعلق 2005ءسے لگتا ہے ۔جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیاآپکے پاس ایسی کوئی دستاویز ہے جو مریم نواز کی 2006ءکی ٹرسٹ ڈیڈ غلط ثابت کرسکے ؟ تو نعیم بخاری نے جواب دیا کہ اپنی دستاویز درست ثابت کرنا مریم نواز کی ذمہ داری ہے ۔نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ مریم نواز کے پاس سرمایہ نہیں تھا کہ فلیٹس خرید سکتیں تو عدالت نے ریمارکس دیے کہ بظاہر لگتا ہے خاندانی سرمائے سے فلیٹس خریدے گئے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینی فشر ی آنر ہیں تو عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس جائیداد کی تفصیل سے متعلق کوئی دستاویز ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جائیداد کی تفصیل سے متعلق کوئی دستاویز نہیں ہے ۔ جسٹس اعجا زافضل نے کہا کہ التوفیق کیس میں میاں شریف ، عباس شریف اور شہباز شریف کا نام ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر لگتا ہے کہ فلیٹس خاندانی سرمائے سے خریدے گئے ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کیا تحفے میں دی گئی رقم بے نامی ہو جاتی ہے ؟ تنازع صرف ٹرسٹی اور بینی فشل مالک کا ہے ۔ موزیک فرم کو ٹرسٹس ڈیڈ کا نہیں بتایا گیا ۔فلیٹس کی آمد ن نہیں تھی تو ٹرسٹ ڈیڈ کی کیاضرورت تھی ؟ مریم نواز کے نام پر دونوں فریق کس حد تک متفق ہیں ۔”کیا ٹرسٹ ڈیڈ قانون کے مطابق ہے“؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا موزیک کمپنی کو اس بارے میں کوئی قانونی طور پر معلومات فراہم کی جا سکتی ہے ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بار ثبوت اس پر ہوتا ہے جس کے قبضے میں چیز ہوتی ہے ۔معلوماتی خط میں مریم نواز کے ذرائع فیملی بزنس لکھا ہے ۔ اس بات سے کس حد تک خاندان کے دوسرے لوگوں سے کنکشن بنتا ہے ؟ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ مریم اور حسین نواز کے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط ہیں اور دونوں ٹرسٹ ڈیڈ کو تسلیم کرتے ہیں اس لیے صرف بے نامی کہہ دینا کافی نہیں ہو گا ۔ بے نامی کا قانون موجود ہے صرف گپ شپ سے نہیں ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کا قانونی ہونا بھی ایک سوا ل ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وہ کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں تو دستاویز دینا بھی انکی ذمہ داری ہے کیونکہ اصل سوال ریکارڈ کا ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ تفصیل نہیں دیں گے تو دستاویزات ادھوری ہونگی ۔جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ دستاویزات سے متعلق عدالت کو مطمئن کریں ۔ آپ نے ای میل کی فوٹو کاپی پیش کی ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ ای میل براہ راست شکایت کندہ کو نہیں بھیجی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے نعیم بخاری سے کہا کہ آئین کے تحت کچھ آپ کو بھی ثابت کرنا ہے ۔ آپ اپنے دلائل دیں اس موقع پر ان پر بات کرنا قبل از وقت ہو گا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری سے مخاطب ہو کر کہا کہ عدالت کا اختیار ہے کہ دستاویز طلب کرے ۔ دستاویز کے معاملے میں ہمارا اختیار کا مسئلہ نہیں ہم بے اختیار ہیں ۔