البرٹوروجاز نیرودا کی آپ بیتی
کلیری ڈاڈ‘‘ (Claridad) کا رسالہ،جس میں میں ایک ادبی اور سیاسی سرگرم رکن کی حیثیت سے شامل ہوا البرٹوروجاز، کے ہاتھ میں تھا، جو میرے انتہائی قریبی دوستوں میں سے تھا۔ وہ ایک قرطبی انداز کا ہیٹ پہنتا اور غرناطی فیشن کے لمبے گل موچھے رکھتا تھا۔ باوجود اپنی غربت کے وہ خود کو انتہائی شاندار انداز میں لئے دئیے رکھتا، جس کے باعث وہ ایک سنہری پرندے کی طرح نمایاں رہتا۔ اس میں نمائشی خوش لباس نوجوانوں کی تمام خصوصیات مثلاً ہتک کا رویہ بے شمار لڑائیوں پر ایک فطری گرفت اور اس کے ساتھ خوش مزاجی ذہنی رویہ اور بے شمار لڑائیوں پر ایک فطری گرفت اور اس کے ساتھ خوش مزاج ذہنی رویہ اور زندگی میں ہر چیز کے لئے رغبت وغیرہ شامل تھیں۔ وہ ہر چیز کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا، جیسے کتابیں، شراب کی بوتلیں، جہاز، سفر کے راستے، جزیروں کے گروہ اور اپنی معلومات کا وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اظہار کرتا رہتا۔ اول دنیا میں وہ ایک بزرگانہ رکھ رکھاؤ کے ساتھ داخل ہوا تھا، ایک ایسے شخص کی مانند جو اپنے حسن اور علمیت کو ضائع کرنے کی عادت میں ہو، اس کی لڑائیاں ہمیشہ بے کراں غربت میں خوشحالی کی شاندار علامت ہوتیں، وہ ہمیشہ ایک نئے گھر اور نئے شہر میں منتقل ہوتا رہتا اور یوں چند ہفتوں کے لئے اس کی فطری حس مزاح، اس کا مستقل اور اچانک باہمت انداز لا تعداد لوگوں کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا۔ وہ ہمیشہ جیسے آتا تھا، ویسے ہی چلا جاتا۔ نظمیں، تصویریں، ٹائیاں، محبتیں اور دوستیاں، جہاں جہاں وہ رہتا چھوڑ کر چلا جاتا کیونکہ وہ کہانیوں کے شہزادے کی طرح ناقابلِ قیاس اور ناقابلِ یقین حد تک فیاض تھا، وہ ہمیشہ اپنی چیزیں بانٹ دیا کرتا۔ ہیٹ، قمیص ، کوٹ، حتیٰ کہ جوتے تک۔جب اس کے پاس کوئی مادی شے نہ رہتی، تو وہ کاغذ کے ٹکڑے پر کوئی سطر یا نظم کا کوئی مصرعہ لکھ دیتا یا پھر کوئی اور دلچسپ بات، جو اس وقت اس کے ذہن میں آجاتی اور جاتے ہوئے وہ کسی کو دے جاتا۔ اس شاندار تاثر کو لئے ہوئے جیسے کہ وہ تمہارے ہاتھ میں کوئی انمول ہیرا رکھ رہا ہو۔اس کی نظمیں جدید انداز میں لکھی ہوئی ہوتیں۔Appollinaire اور جدیدت پسند لوگوں کے خیالات کے مطابق اس نے شاعری کے ایک نئے دبستان کی بنیاد رکھی، جسے اس نے AGU کا نام دیا، اسے وہ انسان کی پہلی فتح، نومولود بچے کی پہلی نظم کہتا تھا۔ روجاز نے ہمارے لکھنے، سگریٹ پینے اور لباس پہننے تک کے انداز میں نئی اختراعات کیں، انتہائی لطیف انداز میں اس نے مجھ سے میرا پڑھنے کا درد ناک انداز ختم کرا دیا، لیکن نہ اس کے مشکوک رویے نے اور نہ ہی اس کی بے تحاشا شراب نوشی نے مجھ پر کوئی اثر مرتب کیا،پھر بھی جب میں اس کا چہرہ یاد کرتا ہوں، جو ہر چیز کو منور کر دیتا تھا، جو خوبصورتی کو ہر گوشے میں یوں لہرا دیتا، جیسے کسی نے کوئی خفیہ تتلی حرکت میں کر دی ہو۔ ڈان میگوئل سے اس نے کاغذ کے پرندے بنانے سیکھے تھے۔ وہ ایک لمبی گردن اور پھیلے ہوئے پروں کا پرندہ بناتا، جسے وہ ہوا میں اڑا دیتا اور اپنی اس حرکت کو وہ ان کے لئے ’’طاقتور دھکے‘‘ سے تعبیر کرتا۔ اس نے فرانسیسی شاعروں کو اور تہہ خانے میں مدفون شراب کی بوتلوں کو دریافت کیا اور فرانسس جیمزکی ہیروئن کو محبت نامہ تحریر کیا۔اس کی خوبصورت نظمیں اس کی جیبوں میں مڑی تڑی تمام جگہوں تک پہنچیں، لیکن آج تک شائع نہ ہو سکیں۔ غلطی کی حد تک سخی ہونے کے باعث وہ توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتا تھا۔ ایک روز کیفے میں ایک اجنبی اس کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا ’’جناب میں آپ کوسنتا رہا ہوں اور آپ مجھے بے حد پسند آئے ہیں، کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟‘‘ ’’وہ کیا بات ہے؟‘‘ روجاز نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اجنبی نے جواب دیا ’’آپ مجھے اپنے اوپر سے پھلانگنے دیجئے‘‘۔ ’’کیا؟‘‘ شاعر نے پوچھا ’’کیا تم اس قدر طاقتور ہو کہ میرے اس میز پر بیٹھنے کے باوجود تم مجھے پھلانگ لو گے؟‘‘۔ ’’نہیں جناب، اجنبی نے کہا، میں بعد میں، جب آپ اپنے تابوت میں آرام کرتے ہوں گے، آپ پر سے پھلانگنا چاہتا ہوں‘‘۔ ’’دلچسپ لوگوں سے جن سے میں آج تک ملا ہوں،میری تعظیم کا یہی طریقہ ہے ۔ (نوبیل انعام یافتہ پابلو نیرودا کی آپ بیتی ’’ یادیں‘‘ سے مقتبس)