پاکستان

بھٹو کی جیل سے کتاب کیسے باہر ائی

👇👇👇🇵🇰🤝🇨🇦
Voice of Canada
بھٹو کی جیل سے کتاب کیسے باہر ائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذولفقار علی بھٹو کو لاہور سے ڈسٹرک جیل پنڈی منتقل کیا گیا اور مرکزی دروازے کے قریب منتقل کر دیا گیا ، سپریم کورٹ اپیل پر ملزم کو پیش نہی کیا جاتا مگر بھٹو کے وکیلوں یحییٰ بختیار ،عبدالحفیظ لاکھوں نے دلائل سے عدالت کو راضی کر لیا بھٹو بھی سپریم کورٹ پیش ہوکر دلائل دیں بھٹو کو پنڈی جیل منتقلی سے قبل کوٹھڑیوں کے فرش پر آٹھ انچ مواتی کنکریٹ اور سریا ڈالا گیا کہ کوئی سرنگ نہ بنائی جاسکے اور کسی ہوائی کاروئی کیلے ایک لیفٹنٹ کرنل رفیع الدین کو فوجی دستے اور اینٹی ائیر کرافٹ سامان کے ساتھ جیل تعینات کر دیا گیا جنکا کام جیل کی دیوار اور ہوئی حملے سے دفاع کا تھا جیل کا ایک ہی سپرٹنڈنٹ ہوتا ہے رفیع سے آئی ایس پی آر نے بعد میں (بھٹو کے آخری 323 دن ) کتاب لکھوائی جو داستان گوئی اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہے بھٹو پر مظالم بیگم نصرت بھٹو پر تشدد شامل نہی ،سپرٹنڈنٹ جیل چودھری یار محمد دریانہ تھے کرنل کا ایک مخبر قادیانی اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ مجید
تھا جو اسے اندر جیل کی خبر دیتا تھا آجکل وہ لندن قادیانی مرکز ہوتا ہے ، ذولفقار علی بھٹو کو حکومت کی جانب سے عدالتی حکم پر دستاویزات قانونی کتب وغیرہ دینے کا حکم تھا لہذا بھٹو دور پر وائٹ پیپر بھی انہی دئے گئے بھٹو نے ان کا جواب لکھنا شروع کیا اور جیل حکام کو بتایا کہ سپریم کورٹ کیلئے جواب تیار کر رہا ہوں مگر یہ جواب جو کتابی شکل میں شائع ہوا بے نظیر بھٹو کو ملاقات کے دوران دیے جاتے تھے بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو پولیس آفیسر ریسٹ ہاؤس سہالہ نظر بند تھیں انکے پاس اپنا ڈرائیور جو کوک بھی تھا وفادار انسان تھا روزانہ سبزی گوشت لینے کالج روڈ راولپنڈی پر اتا تھا اور حساس اداروں سے بھی رابطے میں بھی تھا لہذا اسکی نگرانی کم تھی بھٹو کی کتاب اگر مجھے قتل کر دیا گیا کے اوراق سبزی والے دوکاندار اکرم اور زیب قصائی کو دے جاتا جنکی دوکانیں ساتھ ساتھ تھیں راولپنڈی میں اس دور میں یہاں ہی اچھا گوشت اور سبزی ملتی تھی کیونکہ صاحب ثروت لوگ جن میں مسلم لیگ راولپنڈی کے صدر محمود احمد منٹو ،بریگڈئیر ٹی ایم کے والد بچوں سمیت جنرل حامد کے والد بچوں سمیت ، مسلمان سے کرسچن ہونے والے محمد عبدالقیوم ڈسکوی وغیرہ کئی لوگ رہتے تھے جو گھانے کے بھی شوقین تھے لہذ گوشت سبزی کی بہتر دوکانیں یہاں تھی سڑک کنارے دو سو سال پرانے شیشم کے درخت تھے اور لوگ شام کو واک بھی کرتے تھے ،گوشت اور سبزی کی دوکان کے سامنے پہلی منزل پر میرے ہفت روش کا آفس تھا اسی بلڈنگ میں پنڈی کا پہلا پاسپورٹ آفس بھی رہا اور پھر اخبار مارکیٹ بن گئی ،میرے آفس جس کے ساتھ مسلم لیگ کا آفس بھی تھا اور نجمہ حمید اسکی انچارج تھیں ،پیپلز پارٹی پالیمنڑرین کے پالیمانی امور کے سکریڑی اظہار امروہوی صبح دس بجے میرے آفس آجاتے اور کھڑکی سے دیکھتے رہتے جونہی ڈرائیور اتا سبزی لیتا گوشت بنواتا اظہار امروہوی بے چین رہتے جب ڈرائیور چلا جاتا تو اظہار امروہوی جو روزنامہ انجام کراچی کے بیورو چیف بھی تھے دوکان سے بے نظیر بھٹو کے بھجے ہوئے کاغذات لے کر میرے آفس اتے پھر انہیں گھر لے جاکر ٹائپ کرتے ذولفقار کی بھٹو نے جہاں خالی جگہ چھوڑی ہوتی تھیں وہاں تاریخیں اخبارت کے حوالے تصدیق کرچکے درج کر دیتے پھر وہ ٹائپ شدہ کاغذات عبدالحفیظ لاکھو ایڈووکیٹ کو سلور گرل ہوٹل واقع صدر پنڈی دے اتے جس میں جہاں مقصود ہوتا وہ قانونی حوالے ، نام اور تاریخیں ڈال دیتے جنہوں اظہار امروہوی پھر ٹائپ کر کے مطلوب جگہ پر پہنچا دیتے اور اصل مسودے انہوں نے کسی اور جگہ رکھوا دیے تھے یوں اس کتاب کا یکم جنوری 1979 پہلا ایڈیشن بھارت سے شائع ہوا ذولفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی اور ذولفقار علی بھٹو یہ کتاب بھی نہ دیکھ سکے پھر اس کے اردو میں کئی تراجم شائع ہوئے اس کتاب کے ٹائپ شدہ اوراق مارک ٹیلی نمائندہ بی بی سی کو اظہار امروہوی نے دیے تھے جو خود دھلی لے کر گیا اس نے بعد میں بھارتی شہریت حاصل کر لی تھی اور وہاں ہی وفات پائی ، ڈاکٹر عبدالودودقریشی (ستارہ امتیاز )

50% LikesVS
50% Dislikes

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button