گوجرانوالہ پریس کلب میں الیکشن کا نقارہ بج چکا- عتیق انور راجہ (کالم)
گوجرانوالہ پریس کلب میں الیکشن کا نقارہ بج چکا
عتیق انور راجہ (کالم)
چند ہفتے پہلے پی ٹی وی پر بات چیت کرتے ہوئے راقم نے کہا تھا کہ گوجرانوالہ کو لاہور کے نزدیک ہونے کا نقصان ہورہا ہے۔ملک کا پانچواں بڑا شہر ہونے کے باوجود یہ شہر آج بھی پبلک ٹرانسپورٹ،ٹیکنیکل تعلیمی اداروں،آرٹ اکیڈمیوں،چائے خانوں اور پریس کلب جیسی سہولتوں سے محروم ہے۔مزید کہا کہ یہ شہر اجتماعی فائدے سوچنے کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیعی دینے والوں کی پہچان اختیار کررہا ہے۔اس شہر سے قومی سطح کے سیاست دان سامنے نہیں آرہے ہیں۔سیاستدان،لیڈر یا قائد وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے سوچنے والا ہو۔اصل میں راہنما وہ ہوتا ہے جو اپنی بصیرت سے مسقتبل کے بارے نہ صرف سوچتا ہے بلکہ اپنے عمل سے ایسا ماحول بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ لوگ اپنے حقوق و فرائض سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے معاشرے کی بہتری کے لیے متحرک ہوجاتے ہیں۔راقم کی جوانی لاہور کے چائے خانوں،ادبی بیٹھکوں،الحمرا کی تقریبات،تاریخی عمارتوں کے حیرت کردینے والے نظاروں اور پرانے شہر کی محفلوں اورمشہور تنگ گلیوں میں گھومتے گزری ہے۔جہاں علم و ادب کے ساتھ صحافت کے شعبے سے وابستہ ایسے ایسے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا کرتا جو چائے کے ایک کپ میں اقتدار کی ساری خبریں بتادیا کرتے۔گوجرانوالہ میں پچھلے کئی سال سے ہم ادبی و ثقافتی اور علمی محفلیں سجانے میں لگے ہوئے ہیں۔لوگوں کا ذوق اور جذبہ ہمیشہ خوشگوار احساس دلاتا ہے۔لیکن ایک چیز کی کمی ہمیشہ رہی ہے کہ اگر کبھی کچھ شاعروں،ادیبوں،کالمنگاروں اور صحافیوں نے کہیں مل کے چائے پینی ہو،شہر کے حالات اور ملکی منظر نامے پر گفتگو کرنی ہو تو کوئی ایسی جگہ گوجرانوالہ شہر میں نہیں ہے۔جہاں پاک ٹی ہاوس،لاہور پریس کلب یا الحمرا جیسا ماحول میسر ہو سکے۔گوجرانوالہ پریس کلب کافی وقت سے غیر فعال ہے۔اس کی عمارت ایک تو مین سڑک سے ہٹ کے ہے اور پھر وہاں چائے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔اس لیے،زیادہ تر وہاں صحافی کم نظر آتے ہیں۔
سابقہ حکومت کی طرف سے پریس کلب کے لیے پچاس لاکھ روپے فنڈ جاری کیے گئے لیکن مقامی صحافی قیادت کے ایک پیج پر نہ ہونے سے ان پیسوں کا استعمال ممکن نہ ہو سکا،اس دوران کمشنر،ڈپٹی کمشنر اور سیکرٹری اطلاعات کی طرف سے صحافیوں کو مل جل کے پریس کلب فعال کرنے اور الیکشن سے اپنے راہنما منتخب کرنے کے لیے معاہدے ہونے کی خبریں پڑھنے کو ملتی رہیں۔جمعرات کو پریس کلب جانے کا اتفاق ہوا تو بڑی خوشی ہوئی کہ پریس کلب کے باہر،صحن اور ہال میں کثیر تعداد میں صحافی پرجوش تقریریں کررہے تھے۔جلد انتخابات کی ضرورت و اہمیت پر گفتگو ہورہی تھی۔راقم کو گفتگو کا موقع ملا تو عرض کی،کہ بھلے صحافی جتنے مرضی گروپ بنالیں لیکن پریس کلب تب ہی مضبوط ہو سکتا ہے جب الیکشن کے زریعے ایک قیادت منتخب ہونے کا عمل شروع کیا جائے گا۔اس کے ساتھ قائدین کو صحافیوں کے لیے ورکشاپس بھی منعقد کروانی چاہیے جس سے نئے لوگو ں کو سیکھنے کا موقع ملے۔ایک صحافی کو عزت تب ہی مل سکتی ہے جب اسے مسائل سمجھنے اور خبر بنانے کی سمجھ ہو۔ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل صحافیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔بہت سے نوجوان بنت تعلیم و تربیت اس شعبے میں آرہے ہیں جس سے صحافی کے کارڈ کی توقیر کم ہو رہی ہے۔
گوجرانوالہ، ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے،جو نہ صرف اپنے ثقافتی اور سماجی ورثے کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ یہاں کی صحافتی تاریخ بھی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس شہر نے نہ صرف قومی بلکہ مقامی سطح پر بھی صحافت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہاں صحافت کی جڑیں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں پھیلنا شروع ہوئیں، جب خطے میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری کا عمل زور پکڑ رہا تھا۔گوجرانوالہ میں صحافت کا آغاز برطانوی راج کے دور میں ہوا۔ ابتدائی اخبارات اور رسائل زیادہ تر آزادی کی جدوجہد، تعلیمی ترقی، اور سماجی اصلاحات کے موضوعات پر مبنی تھے۔ اردو اور پنجابی زبان میں نکلنے والے یہ اخبارات عوام کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ ان اخبارات میں ”زمیندار”، ”پیسہ اخبار” اور ”کسان” جیسے جریدے نمایاں تھے، جنہوں نے عوام میں آزادی کی تحریک کو پروان چڑھایا۔قیام پاکستان کے بعد گوجرانوالہ کی صحافت نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ آزادی کے ابتدائی سالوں میں شہر میں کئی۔مقامی اخبارات اور جرائد شائع ہونے لگے، جنہوں نے علاقائی مسائل، تعلیم، اور معاشرتی ترقی پر توجہ مرکوز کی۔ ان اخبارات نے عوام کو ملکی سیاست اور سماجی تبدیلیوں سے آگاہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔آج گوجرانوالہ میں صحافت جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ شہر میں نہ صرف مقامی اخبارات بلکہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز کے نمائندے بھی سرگرم ہیں۔ آن لائن جرنلزم اور سوشل میڈیا نے صحافت کو مزید آسان اور قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ گوجرانوالہ کے کئی صحافی قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔گوجرانوالہ میں کئی صحافیوں نے اپنی قابلیت اور دیانتداری سے نام کمایا۔ ان میں سے کچھ شخصیات نے ملکی سطح پر صحافت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور آج وہ نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
گوجرانوالہ پریس کلب،میں الیکشن کا نقارہ بج چکا ہے۔اُمید ہے آنے والے مہینے صحافی شہر کے مسائل کو اجاگر کرنے اوراپنے حقوق کی بحالی کے لیے کے انتخاب کے ذریعے کلب کے امور کو بہتر بنانے میں حصہ لے سکیں گے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ سب گرپوں کی جانب سے پریس کلب کے انتخابات کی تیاری زور و شور سے جاری ہو چکی ہے۔ موجودہ صورتحال میں دو بڑے پینل نمایاں نظر آرہے ہیں جو صحافیوں کے مختلف گروہوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ امیدواروں کی جانب سے منشور پیش کیے جا رہے ہیں جن میں پریس کلب کی بنیادی سہولیات کی بہتری، صحافیوں کی فلاح و بہبود اور پیشہ ورانہ تربیت پر توجہ دی جا رہی ہے۔انتخابات سے قبل ووٹر لسٹوں کی سکروٹنی ایک اہم عمل ہے جو انتخابات کی شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔آنے والے دنوں گوجرانوالہ پریس کلب کی انتظامیہ نے ووٹر سکروٹنی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گے، جو یہ دیکھے گی کہ تمام ووٹرز کا تعلق صحافتی برادری سے ہے اور ان کی رکنیت قانونی اور مستند ہے۔یہ سکروٹنی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ غیر متعلقہ افراد یا ایسے افراد جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں، انتخابی عمل پر اثر انداز نہ ہوں۔سنا ہے، سکروٹنی عمل کے لیے جدید ڈیجیٹل نظام متعارف کرایا جائے گا تاکہ ہر ووٹر کے ڈیٹا کو محفوظ اور تصدیق شدہ بنایا جا سکے۔اگرچہ سکروٹنی کا عمل خوش آئند ہے، لیکن کچھ حلقوں نے اس پر تحفظات کا اظہار بھی شروع کردیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کچھ ووٹرز کو بلاوجہ نکالا جائے گا اور مرضی کے افراد کو شامل کیا جائے گا۔ورکر صحافی کا نام بہت سنا جاتا ہے اور انتخابات کے دنوں اس نام کا خوب استعمال کیا جاتا ہے،حقیقت میں ہر صحافی ورکر ہی ہوتا ہے۔جو بندہ خبر حاصل کرنے کے لیے سڑک پر نکلتا ہے اور جو بندہ دفتر بیٹھ خبر بناتا ہے وہ ورکر صحافی ہے۔ اپنے کردار سے معیشت اور معاشرت میں گہرا اثر ڈالنے والے ورکر صحافی، کی زندگی مسلسل جدوجہد اور عدم استحکام کا آئینہ دار ہوتی ہے۔جس طرح دیہاڑیاں لگانے والے مزدوروں کو روزگار کے لیے روزانہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔اسی طرح آج کے دور میں اکثریت میں مستقل ملازمت اور کم اجرت ملنے کی وجہ سے ورکر صحافی کو ہر روز’دیہاڑی‘ لگانے کے لیے میدان میں نکلنا پڑتا ہے۔ اکثر انہیں صحت اور دیگر سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ان کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا، جو ان کی زندگی کو مزید دشوار بنا دیتا ہے۔ اپنے قلم اور مشاہدے کے ذریعے معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے والوں کوخود کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر ورکر صحافی فری لانس یا کنٹریکٹ پر کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی ملازمت غیر یقینی ہوتی ہے۔ان کی محنت کے بدلے میں اکثر کم تنخواہ دی جاتی ہے، جس سے وہ مالی پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔تحقیقاتی رپورٹس یا حساس موضوعات پر لکھنے کی وجہ سے انہیں کئی محکموں سے خطرات لاحق ہو تے ہیں۔سماجی تحفظات کا فقدان ان کی زندگیوں میں بے سکونی پیدا کرتا ہے۔ان کی خدمات کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ضرورت ہے کہ انتخابات کے منتخب ہونے والی قیادت ان کی محنت کے مطابق مناسب معاوضہ کے لیے کام کرے۔پھر انہیں صحت، تعلیم اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔قوانین کے ذریعے ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔