کالم,انٹرویو

تلخیاں ”اب وی پی این“ حرام ہوگیاہے! اوکے، کوئی اور حکم؟ علی احمد ڈھلوں

تلخیاں
”اب وی پی این“ حرام ہوگیاہے! اوکے، کوئی اور حکم؟
علی احمد ڈھلوں
”ریل والا کیمرہ“ نیا نیا پاکستان میں آیا تو یہ 80اور 90کی دہائی میں اپنے عروج پر تھا، میرے پاس بھی ذاتی کیمرہ ہوا کرتا تھا، جس میں 36تصاویر والی ریل ڈالی جاتی، اُس وقت کا یہ فیشن سمجھ لیں یا ناسمجھی، کہ یہ ہر وقت ساتھ ہوتا تھا، لہٰذامیں نے یہ کیمرہ ساتھ لیا اورایک مذہبی اجتماع میں دوست کی دعوت اور اسرار پر چلا گیا، کہ وہاں امیر صاحب نے آنا ہے، اوروہ کبھی کبھی آتے ہیں تو بہانے سے ملاقات بھی ہو جائے گی اور دعا وغیرہ بھی کروا لیں گے۔ میںقدرے لبرل قسم کی شخصیت کا مالک تھا، تھوڑا ہچکچایا لیکن دوست کی باتوں میں آگیا اور ساتھ چل دیا، اجتماع کی جگہ پر بہت رش تھا، کمرہ مریدین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، حالات دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیاکہ دوست نے مجھے ٹریپ کیا ہے اور اُس کا مقصد ملاقات نہیں ، بلکہ اجتماع میں لانا تھا۔ ہمیں 15ویں صف میں بھی بمشکل ہی جگہ مل سکی۔ تھوڑی دیر ہی بیٹھے تھے کہ ”حضرت“ نمودار ہوئے، اور ہم سب نے کھڑے ہو کر اُن کا استقبال کیے اور نعرے لگائے۔ نہ لگاتا نعرے تو ہو سکتا ہے کہ مجرم ٹھہرتا اور کمرے سے باہر دور صفوں پر بھجوا دیا جاتا ۔ حضرت نے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ہم سب اپنی اپنی جگہوں پر براجمان ہو گئے، بیان شروع ہوا، تو میں نے کیمرہ نکالا اور حضرت کی تصویر بنانا چاہی، بلکہ بنا لی…. جیسے ہی فلش حضرت پر پڑا تو انہوں نے بھرے ہال میں میری طرف اشارہ کیا اور سختی سے کہا، آپ کو کس نے اجازت دی ہے، بلکہ اتنی سختی سے کہا کہ اُنہوں نے اپنے منہ پر ہاتھ بھی رکھ لیا، بالکل اُسی طرح جیسے ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ آج بھی اسے معیوب سمجھتے ہیں۔ خیراس ”کارروائی“ پر سب لوگ میری طرف متوجہ ہوئے ، میں پریشان ہوگیا، کیمرہ نیچے کر دیا۔لیکن میری جان کی خلاصی اُس سے بھی نہیں ہوئی، کیوں کہ انتطامیہ نے میرے ہاتھ سے کیمرہ لے کر اُس میں سے ریل کو ضائع کرکے مجھے خالی کیمرہ تھما دیا گیا ، جس کے بعد دوست مجھے پکڑ کر باہر لے آیا۔ ہم اس واقعہ پر کافی دیر ہنستے رہے، کہ اچھی خاصی ہماری بے عزتی ہو چکی تھی، لیکن جوانی تھی، ہم نے اسے زیادہ محسوس بھی نہیں کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ حضرت موصوف نے تصویر بنانے کے حوالے سے فتویٰ دے رکھا ہے کہ یہ عمل کافرانہ ہے اس لیے اس کی سختی سے ممانعت ہے، وہ اُس وقت کہا کرتے تھے کہ تصویر بنانا اتنا ہی حرام ہے جتنا بت پرستی کرنا، کیوں کہ تصویر بھی ایک بت کی مانند ہوتی ہے اس لیے یہ برا فعل ہے۔ لیکن افسوس تو اس بات پر ہوا کہ اب وہی موصوف حضرت نے نہ صرف اپنا چینل بنایا ہوا ہے، بلکہ 70فیصد چینل کی نشریات بھی اُنہی کے ویڈیو بیانات پر لائیو نشریات پر منحصر ہوتی ہیں۔ اب اُن کے پوسٹرز بھی چھپتے ہیں، اور چندے والے گلے کے اوپر اُن کی تصویر بھی چسپاں ہوتی ہے۔
خیر اب مجھے وہ والی بے عزتی زیادہ محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ سوچتا ہوں کہ یا تو اسلام اُس وقت صحیح تھا یا آج صحیح ہے؟ اگر حضرت کو آج سمجھ آئی ہے کہ اسلام میں ٹیکنالوجی کو خاص اہمیت حاصل ہے، اور اس کا کہیں نہ کہیں فائدہ ہے تو اُس وقت میرا کیا قصور تھا؟ لیکن خیر مولوی صاحب کو سمجھ آگئی میرے لیے اتنا ہی کافی ہے…. بہرحال یہ واقعہ مجھے آج یاد اس لیے آگیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے آج کل ایک فتویٰ دیا ہے کہ ”وی اپی این“ لگاکر انٹرنیٹ استعمال کرنا حرام ہے، اور اس کا استعمال کرنے والا گناہ کا مرتکب ہوگا۔ اب یہ بھی کوئی پتہ نہیں کہ جن حضرات نے یہ فتویٰ دیا ہے وہ حکومت بدلنے کے بعد کہیں کہ ”اُس وقت حرام تھا لیکن آج حلال ہے“۔ کہہ بھی دیں تو ہماری کیا جرا¿ت ہم نے کونسا انکار کرنا ہے؟ یقین مانیں ہم تو ایسے علماءکرام کو درباری علماءبھی نہیں کہہ سکتے۔ لیکن ایسے علماءکو تاریخ میں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا۔ جو حکومت وقت کا ساتھ صرف اس لیے دیتے ہیں کہ حکومت بدلے میں اُنہیں انعامات سے نوازتی ہے۔
اس پر مجھے تاریخ کا ایک حوالہ یاد آگیا کہ امام احمد بن حنبل نے خلیفہ المامون کے درباری علماءکے کچھ فرمائشی فتوﺅں کومسترد کیا تو حکمرانِ وقت نے اپنے ہاتھ سے ان کا سرقلم کرنے کافیصلہ کیا۔ اس سے قبل کہ المامون ان کاسرقلم کرتاحکمرانِ وقت کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بھائی معتصم باللہ خلیفہ بن گیا۔ اس نے اپنے دربار میں امام احمد بن حنبل کے کپڑے اتروائے اور اپنے سامنے انہیں کوڑے لگوائے۔ امام احمد بن حنبل روزے سے تھے، کوڑے کھاتے کھاتے بے ہوش گئے لیکن حکمران ِوقت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ بے ہوشی کی حالت میں انہیں رہا کردیا گیا۔ انہیں اسحاق بن ابراہیم کے گھر لایا گیا۔ ہوش میں آئے تو کہا گیا آپ کے جسم سے خون بہہ رہا ہے۔ روزہ افطار کرلیں۔ امام احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ حضرت عمرؓنے بھی زخمی حالت میں نماز ادا کی تھی۔ انہوںنے نماز ظہر ادا کی۔ شام کو روزہ افطار کیا اور کوڑے مارنے والے جلادوں کو معاف کردیا۔ انہوںنے معاف نہیں کیا تو ان ”درباری علمائ“ کو معاف نہیں کیا جنہوں نے حکمران وقت کی خوشنودی کیلئے فرمائشی فتوے دے کر شریعت کی خلاف ورزی کی۔
پھر یہی نہیں اگر ہم آج مغربی دنیا سے پیچھے ہیں تو اس میں بھی کہیں نہ کہیں ان بعض ناسمجھ مولانا حضرات کا ہاتھ ضرور ہے، جیسے عثمانی دور میں سب سے پہلے چھاپہ خانہ حرام قرار دیا گیا، جس کی وجہ سے یورپ عثمانیوں آگے بڑھ گیا، اور وہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔اُس وقت کہا جاتا تھا کہ یہ شیطانی مشین ہے، اسی بنیاد پر پرنٹنگ پریس کو 5 سو سال تک مسلم ممالک میں داخل نہ ہونے دیا گیا ،ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں سے کام چلایا جاتا رہا کہ اس سے اسلامی آرٹ خطاطی اور کتابت کو نقصان نہ پہنچا دے۔ اور پھر 13ویںصدی میں جب بغداد پر ہلاکو خان نے حملہ کیا تو اُس وقت علمائے کرام کے درمیان مناظرہ ہو رہا تھا کہ ”کوا“ حرام ہے یا مکروہ۔ پھر اسلامی ممالک میں ”گھڑیال“ کو لایا گیا تو کہا گیا کہ یہ سورج اور چاند کے متبادل کوئی چیز آگئی ہے، اس لیے اسے بدعت قرار دیا گیا، اور ولی عہد نے اسے چوراہے میں رکھ کر توڑ ڈالا مگر آج ہر عالم دین نے گھڑی باندھی ہوئی ہے۔ پھر ریڈیو آیا تو علماءنے کہا کہ یہ شیطانی آواز ہے، اس کا سننا حرام ہے، کیمرے اور ٹی وی کے بارے میں تو میں اوپر ذکر کر چکا ہوں ،بلکہ جب ٹی وی نیا نیا پاکستان میں آیا تو ایک مذہبی جماعت نے اسے سرعام توڑ کر ثواب دارین بھی حاصل کیا۔حدتو یہ ہے کہ کافی (Coffee) تک کو بھی کافر قرار دیا گیا ،ترکی میں کافی پر فسادات ہوئے بعد میں پتہ چلا کہ کافی تو مغرب سے آتی ہی نہیں یہ تو افریقن مسلم ممالک سے آتی ہے۔
پھر پینٹ کوٹ پہننے، انگریزی سٹائل کے بال کٹوانے اور لاﺅڈ سپیکر تک پر اعتراضات کئے گئے جواب بودے اور احمقانہ لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ 1857ءکی جنگ آزادی میں انگریزوں کے حق میں فتوے دیے گئے۔انگریزوں نے ہی مدرسوں کو وظیفے دے کر سرکاری مولوی پیدا کیے، بلکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آپ تاریخ پڑھ لیں جتنے بھی فرقے بنے ہیں وہ انگریز دور میں بنے ہیں، اور سارے انگریز کے فنڈز سے چلتے تھے، حتیٰ کہ ایک بڑا فرقہ بھی انگریز کے دور میں شروع ہوا، اور انگریز آج بھی اُس کا تحفظ کر رہا ہے۔ مطلب! آپ ان سے جس دور میں مرضی اور جیسا مرضی فتویٰ لے لیں، نو ایشو!
اور ابھی حالیہ تاریخ بھی آپ پڑھ لیں کہ ہمارے چند علمائے کرام حکومت وقت کے لیے راستے نکالتے نظر آتے ہیں، کبھی وہ احتجاج کو غیر شروع قرار دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی وہ اپوزیشن کی کسی کارروائی کو۔ جیسے مشرف دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بننا چاہتی تھیں تو انہی درباری علما سے فتویٰ لیا گیا کہ عورت کی حکمرانی حرام ہے۔ بہرحال ان کے ایسا کرنے کی وجہ سے عوام اور علمائے کرام کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا ہوگئی ہے، عوام کا علماءسے اعتماد ختم ہو گیا، جس کا ہمیں مذہبی طور پر بہت نقصان ہو رہا ہے، اور اس کے ذمہ دار کوئی اورنہیں بلکہ علمائے دین ہیں۔ جو کسی ایک پلیٹ فارم پر آج تک اکٹھے نہیں ہوسکے۔ اور پھر مسئلہ وی پی این کا نہیں ہے، چلیں وہ حکومت وقت کی مرضی ہے کہ وہ عوام کو کس قدر Facilitateکرتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ بغیر سوچے سمجھے مذہبی کارڈ کھیل دیتے ہیں جس کی بعدمیں آپ کو خفت اُٹھانا پڑتی ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ جب جب اور جس وقت اسلام نے جدت آمیز چیزوں پر پابندی لگائی، ہم پیچھے رہتے گئے۔
چلیں ! مان لیا کہ سوشل میڈیا بے لگام ہوتا جا رہا ہے، اور آگے 24نومبر کی ایک جماعت کی ڈیڈ کال بھی نزدیک آرہی ہے، مگر کیا یہ طریقہ کار درست ہے؟ کیا ماضی کا تجربہ یہ نہیں ہے کہ آپ کسی بھی چیز پر پابندی لگائیں گے تو وہ اور بھی زیادہ مقبول ہو گی لوگ چوردرازوں سے یا چھپ چھپا کر اس پابندی کو توڑیں گے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلا کر اور گالیاںدے کر بدنام کیا جاتا ہے ،کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ علم نہیں کہ آئی ٹی کے شعبے میں بھارت ہم سے بہت آگے ہے مگر پاکستان میں آئی ٹی کی روز افزوں ترقی سے یہاں بھی بہت سی کمپنیاں اپنے کاروبار کھول رہی ہیں ہمیں فیصلے فوری ضرورت کے تحت نہیں دور رس نتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرنے چاہئیں۔ سوشل میڈیا کو مضبوط کرلیا جائے، ریگولیشن میں لایا جائے تو یہی منفی ہتھیار ہمارا مثبت ہتھیار بن سکتا ہے۔کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ علم نہیں کہ ان کے ایسا کرنے سے پروفیشنل طلبہ جن کے کام کا حرج ہو رہا ہے، اُن کا کیا بنے گا؟
الغرض ہم ہر دور میں ٹیکنالوجی کے دشمن کیوں رہے ہیں؟ جو بھی نئی ایجاد سامنے آتی ہے اس کے خلاف فتویٰ ہمارے ہاں سے ملتا ہے۔ ہر حکمران کے ہاتھ یہ ایسا ہتھیار لگا ہے کہ اب کوئی بھی اس کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔لیکن ان علمائے کرام کو سوچنا چاہیے کہ اگر فتویٰ لگانا ہے تو منی لانڈرنگ پر لگائیں، کرپشن پر لگائیں، کمیشن لینے پر لگائیں، بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر لگائیں۔ اگر کہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اُس پر لگائیں، بیوروکریسی نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اُس پر لگائیں، لندن میں جائیدادیں خریدنے پر لگائیں، اضافی پروٹوکول لینے اور فضول بیرون ملک دورے کرنے پر فتوے لگائیں،اگر ایسا بھی نہیں کرنا تو حضور! ہم حاضر،،، جیسا کہیں گے ویسا ہی ہوگا، ہماری کیا مجال !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button