رنگ برنگ

وہ حکمران جواقتدار و اختیار کے نشے میں مدہوش ظالم و جابر بن بیٹھے

جب ہم دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مختلف خطوں پر حکمرانی کرنے والوں میں چند ایسے بھی تھے جن کو اقتدار و اختیار کے نشے نے اکثر ایسا مدہوش کیا کہ وہ ظالم و جابر بن بیٹھے۔
یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ذاتی مفادات کے اسیر تھے۔ ان کی اسی خود غرضانہ سوچ نے انہیں اپنے اقتدار کی طاقت کے بے رحمانہ استعمال پر اکسایا اور وہ اپنی ذات کی تسکین اور مقاصد کی تکمیل کے لیے انسان سے درندے بن گئے اور یوں بے شمار انسانی جانوں کے ضیاع اور بے اندازہ تباہی و بربادی کا باعث ثابت ہوئے۔ جبکہ دوسری جانب ایسے حکمران بھی ہو گزرے ہیں جو ایسے لوگوں کے برعکس اپنے عوام کے لیے باعث رحمت ثابت ہوئے۔ ان میں سے کچھ لیڈر تو وہ تھے جو اپنے عوام کی زندگیوں میں بہتری، آسانی اور آسائش لانے کے لیے ہمیشہ ہی کوشاں رہے۔
آج ہم ان صاحبان اختیار کا تذکرہ اپنے قارئین کے سامنے پیش کررہے ہیں جو اپنے ظلم کی وجہ سے دنیا میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔
-1 ہیراڈ اعظم (Herod The Great)
یہ وہی ’’ہیراڈ اعظم‘‘ ہے جس کا ذکر انجیل مقدس میں بھی موجود ہے اور جس کی وجہء شہرت اپنی جان بچانے کے لیے نوزائیدہ لڑکوں کو قتل کروانے اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو شہید کروانے کی کوشش کرنے کے حوالے سے ہے۔ 73 قبل از مسیح میں فلسطین میں پیدا ہونے والا ’’ہیراڈ‘‘ ایک ظالم حکمران تھا۔ قدیم انسانی تاریخ کے ماہر ’’جوزفس‘‘ (Josephus) نے اس کے مظالم کے بے شمار واقعات رقم کیے ہیں۔ اس ظالم شخص نے اپنے ہی تین بیٹوں اور اپنی دس بیویوں میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ بیوی کو بھی قتل کردیا تھا اور اسی پر بس نہیں، اس نے اپنے دور کے پروہت اعلیٰ کو پانی میں ڈبو کر مار ڈالا۔ اس کے علاوہ وہ اپنی ساس اور اپنے ’انکلز‘ کے قتل میں بھی ملوث مانا جاتا ہے۔
2 ۔ نیرو (Nero)
روم کا یہ بدنام زمانہ حکمران ایک لے پالک بچہ تھا۔ جب اس کے باپ کی وفات ہوئی تو وہ بادشاہ بنا۔ تخت سنبھالنے کے بعد شروع شروع میں اس نے اپنی ظالمانہ فطرت کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا، لیکن اقتدار کے ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعت میں ایک مجنونانہ اشتعال کی سی کیفیت بڑھنے لگی۔ سب سے پہلے اس نے اپنی ماں ’’ایگریپینا دی ینگر‘‘ (Agrippina The Younger) کو قتل کیا۔ بعدازاں کچھ عرصے بعد ہی اس نے اپنی دونوں بیویوں کو بھی باری باری قتل کردیا۔ آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ اس نے پورے روم کو آگ لگانے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ پرانے شہر کی جگہ پر ایک نیا شہر بناسکے۔ یہ آگ ’’دی گریٹ فائر آف روم‘‘ کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو آرام سے بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ وہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے روم کے بچ جانے والے شہریوں پر ہی آگ لگائے جانے کی سازش کا الزام لگا دیا اور ان پر مقدمات چلانے کے بعد بہت سوں کو شدید تشدد کرواکے مروا دیا۔ اس کی یہ ذہنی کج روی بالآخر اتنی بڑھی کہ اس نے خودکشی کرکے اپنی بھی جان لے لی۔
-3 پوپ الیگزینڈر ششم
(Pope Alexander VI)
پوپ دنیا بھر میں عیسائیوں کا سب سے بڑا روحانی پیشوا مانا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے تاریخ میں اس منصب پر کئی ایسے لوگ بھی فائز رہے جو ظلم و جور میں اپنی مثال آپ تھے۔ مگر ان سب میں بلاشبہ پوپ الیگزینڈر ششم سب سے نمایاں ہے۔ وہ 1431ء میں پیدا ہوا اور اس کی پوپائیت کا زمانہ1492-ء تا 1503ء ہے۔ وہ عیسائیت کے عدم تشدد اور رواداری کے اصولوں پر کسی طرح بھی پورا نہیں اترتا تھا۔ بلکہ وہ اپنے نظریات کے اعتبار سے انتہائی سیکولر تھا، اس نے اپنے مرتبے کی طاقت کو اپنے لالچ پورے کرنے کے لیے بیدردی سے استعمال کیا۔ اس کا ایک مخصوص طریقۂ واردات یہ بھی تھا کہ وہ اپنی خوبصورت بیٹی ’’لوکریزیا‘‘ (Lucrezia) کی شادی کسی امیر آدمی سے کردیتا اور اسے خوب جہیز بھی دیتا۔ بعدازاں وہ اس شادی کو بحیثیت ’’پوپ‘‘ منسوخ کردیتا (حالانکہ رومن کیتھولک عیسائیوں کے نزدیک طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے) ۔
پھر کچھ عرصے بعد وہ اپنی بیٹی کو دوبارہ کسی امیر آدمی سے بیاہ دیتا۔ وہ تقریبات منعقد کرنے کا بھی بہت شوقین تھا۔ رقص و سرور اور رنگ رلیوں سے بھر پور یہ تقریبات آہستہ آہستہ قدیم یونانی دیوتاؤں کی پرستش کی رسومات کے لیے کی جانے والی تقریبات کا رنگ اختیار کرتی گئیں، جن میں خوب موج مستی کی جاتی تھی۔ انہی تقریبات میں شریک ہونے والے امراء کی ناجائز دولت کو وہ اپنے اختیارات کے تحت ضبط کرکے اپنی پرتعیش زندگی کے لیے استعمال میں لاتا۔ اس پوپ کا انجام بھی بالآخر عبرتناک ہوا اور اس کو دھوکے سے زہر دے کر قتل کردیا گیا۔
-4 کلیگولا (Caligula)
یہ لفظ ’’کلیگولا‘‘ بنیادی طور پر بے رحمی، جنون و پاگل پن اور شیطانیت کا مترادف ہے۔ ’’کلیگولا‘‘ نامی یہ رومی بادشاہ انتہائی خود پسند تھا۔ اور اس نے خدائی کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ یہ شخص کسی بھی معاملے میں محض شک کی بنیاد پر کسی کو بھی قتل کردیا کرتا تھا۔ اس نے اپنی بہنوں کے ساتھ شادیاں رچائیں۔ نیز دوسروں کی بیویوں کو ورغلا کر اپنی ہوس کا نشانہ بنانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اوپر سے وہ بہت شیخی خورہ بھی تھا۔ اس کا زمانہ 37 تا 41 بعداز مسیح کا ہے۔ اس کا سلسلہ نسب عظیم رومی بادشاہوں سے ملتا ہے۔ یہ اپنا خزانہ قیمتی اور شاہانہ چیزوں پر خرچ کردیتا جبکہ اس کی رعایا ننگ و بھوک سے مررہی ہوتی تھی۔ یہ اتنا بے رحم تھا کہ رات کے کھانے کے دوران کسی زندہ انسان کو آرے سے چرتے ہوئے دیکھنا اس کی بہترین تفریح تھی۔ اس بادشاہ کی مطلق العنانی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ا پنے گھوڑے کو سینیٹر نامزد کردیا تھا۔ ایک جنگ کے دوران اس نے اپنی ساری فوج کو سمندر میں جھونک دیا۔ یاد رہے کہ یہ نام نہاد جنگ ایک یونانی دیوتا ’’نیپچون‘‘ (Neptune) کے خلاف لڑی جارہی تھی۔

-5 کنگ جان (King John)
کنگ جان کو باآسانی انگلستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ ظالم بادشاہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ 24 دسمبر 1166ء کو پیدا ہوا اور 19 اکتوبر 1216ء کو وفات پائی۔ وہ 1199ء سے لے کر اپنے انتقال تک تخت نشین رہا۔ بادشاہت کے حصول کے لیے اس نے اپنے ہی بھائی کے خلاف فرانس کے بادشاہ کے ساتھ مل کر سازش کی۔ جب اس کے مخالفین نے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی تو اس نے انہیں قلعے میں قید کرواکر بھوکا پیاسا مار دیا۔ اس نے بادشاہ بننے کے بعد ایک بہت بڑی بری و بحری فوج تشکیل دی اور اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بھاری محصولات عائد کئے، معززین کی جائیدادیں ضبط کرلیں اور امراء کو قید میں ڈال کر ان پر تشدد کے ذریعے ان کی دولت ہتھیالی۔ بالآخر 1216ء میں وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوکر دنیا سے گزرگیا۔
-6 میکسیمیلین روبسپیار (Maximilien Ro Bespierre)
یہ شخص 1789ء میں بپا ہونے والے فرانسیسی انقلاب کا سب سے اہم معمار تھا اور بعداز انقلاب قائم ہونے والی حکومت میں سب سے بڑا لیڈر گردانا جاتا تھا۔ انقلاب کے دوران ’’روبسپیار‘‘ مسلسل بادشاہت کے خلاف پرچار کرتا رہا۔ وہ طبقہ اشرافیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی باتیںکرتا تھا۔ 6 مئی 1758ء کو پیدا ہونے والا یہ شخص، ایک ماہر قانون اور سیاست دان تھا جو بڑی بے جگری کے ساتھ غریب عوام اور جمہوریت کے حق میں آواز بلند کرتا تھا۔ انقلاب کے بعد اس کو عوامی تحفظ کی کمیٹی کا ممبر منتخب کیا گیا۔ لیکن اس ’عوام اور جمہوریت دوست‘ انسان نے تین لاکھ انقلاب دشمنوں کو گرفتار کرکے ان میں سے سترہ ہزار افراد کو ’’گلوٹین‘‘ کے ذریعے گردنیں کاٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس نے اس ہی پر بس نہیں کیا بلکہ دشمن قرار دیئے جانے والوں کے خاتمے کے بعد بھی یہ مسلسل مزید پھانسیوں کا مطالبہ کرتا رہا۔ اس کے اسی رویے کے باعث اسے گرفتار کرلیا گیا اور اس کی گردن بھی ’’گلوٹین‘‘ کے ذریعے ہی مار دی گئی۔
-7 چنگیز خان (Genghis Khan)
چنگیز خان کے نام سے کون واقف نہیں؟ یہ نام دنیا بھر میں ظلم و بربریت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ چنگیز خان کا اصل نام ’’تموجن‘‘ تھا۔ وہ 1162ء میں پیدا ہوا اور 1227ء میں اس جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ 1206ء میں تمام مغل قبائل کو متحد کرکے ان کا حکمران منتخب ہونے والا چنگیز خان ایک ناقابل شکست کردار اور اپنے زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا مالک تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سلطنت کو تشکیل دینے میںکروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چالیس ملین لوگوں کی اموات کا ذمہ دار تھا۔ اس کے حملوں کے نتیجے میں اس وقت کی دنیا کی آبادی کا تقریباً گیارہ فیصد حصہ ختم ہوگیا۔ یہ روایت بھی مشہور ہے کہ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کی موت کو چھپانے کے لیے جنازے کے راستے میں آنے والی تمام آبادیوں کو نیست ونابود کردیا گیا۔
-8 ولاد دی امپیلر (Vlad The Impaler)
’’ولاد دی امپیلر‘‘ نام شاید آپ کے لیے اجنبی ہو مگر اس شخص کا ایک نام اور بھی ہے جو زبان زد عام ہے اور یقینا آپ نے بھی ضرور سن رکھا ہوگا۔ وہ نام سے ’’ڈریکولا‘‘۔ فلموں یا ناولوں میں ڈریکولا کو انسانوں کا خون پیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے لیکن یہ اصلی ڈریکولا اس طرح تو انسانوں کا خون اپنے نوکیلے دانتوں سے نہیں پیتا تھا، البتہ یہ اس سے بھی زیادہ وحشیانہ طریقہ استعمال کرتے ہوئے خون بہانے کا عادی تھا اور وہ ایسے کہ وہ جیتے جاگتے انسانوں کو اس طریقے سے دردناک موت سے ہم کنار کرتا تھا کہ روح کانپ اٹھے، یعنی وہ میدان جنگ میں اپنے دشمنوں کو لکڑی کی لمبی لمبی تیز میخیں جسم میں ٹھونک کر سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ اس کی افواج کنوؤں کے پانی میں زہر ملا دیتیں، فصلیں اجاڑ دیتیں اور وبائی امراض کے شکار مریضوں کو دشمنوں میں بھیج کر انہیں بھی موذی وبائی امراض میں مبتلا کردیتیں (یہ سمجھ لیں کہ وہ یہ طریقہ اس دور میں کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتا تھا) ۔ 1430ء میں پیدا ہونے والے رومانیہ کے اس بادشاہ کو ’’دی امپیلر‘‘ (میخیں ٹھونکنے والا) کا خطاب ’’ٹارگوسیٹ‘‘ نامی شہر کے باہر لڑی جانے والی جنگ کے دوران دیا گیا کیونکہ اس جنگ میں اس نے دو ہزار عثمانی فوجیوں کے جسموں میں لکڑی کی میخیں ٹھونکنے کے احکامات جاری کیے تھے جنہیں اس عمل کے بعد چیل کوؤں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
-9 آؤان دی ٹیریبل (Ivan The Terrible)
25 اگست 1530ء کو پیدا ہونے والا روس کا یہ بادشاہ، 16 جنوری 1547ء کو تخت نشین ہوا اور اپنی موت یعنی 28 مارچ 1584ء تک حکمرانی کرتا رہا۔ روس کے بادشاہوں کا لقب ’’زار‘‘ ہوتا تھا۔ اس سے قبل اسی کا ہم نام ’آیوان دی گریٹ‘ (Ivan The Great) بھی زار روس رہ چکا تھا، جو اس کا دادا تھا اور اس نے بھی روس پر بڑے دبدبے کے ساتھ حکومت کی تھی۔ لیکن ’آیوان دی ٹیریبل‘ اس معاملے میں اپنے دادا سے بھی آگے نکل گیا کہ اس نے ناصرف روس کو متحد کیا بلکہ اس کو ایک مستحکم مملکت میں بدل ڈالا۔ مگر اس تمام مرحلے کو سر کرنے میں اس نے جو مظالم ڈھائے انہیں کی وجہ سے اسے ’’دی ٹیریبل‘‘ کا خطاب ملا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا بچپن کافی مشکلات میں گزرا اور اسی کی وجہ سے وہ نفسیاتی طورپرشدت پسند ہوگیا۔ وہ بچپن میں چھوٹے موٹے جانوروں اور پرندوں پر تشدد کرکے لطف حاصل کرتا تھا۔
جب وہ روس کا زار بنا تو ابتداء میں اس نے کافی اچھے طریقے سے حکمرانی کی۔ نظام حکومت میں اصلاحات کیں اور عوامی فلاح و بہبود کے کام کیے۔ لیکن ملکہ کی وفات کی وجہ سے وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوگیا اور یہیں سے اس کے ظلم و ستم کے دور کا آغاز ہوا۔ اس نے امراء کی جائیدادوں پر قبضے کرنے شروع کردیئے اور اپنی ایک ایسی ذاتی پولیس فورس قائم کی جو اس کے حکم پر اس کے مخالفین کو کچل کر رکھ دیتی تھی۔ اس نے اپنے ان اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے ہی دربار کے کئی معززین کو ان کے منصبوں سے یہ الزام لگا کر ہٹا دیا کہ وہ ملکہ کی موت کے ذمے دار تھے۔ اس نے اپنی حاملہ بہو کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنے بیٹے کو بھی غیظ و غضب کی حالت میں قتل کر ڈالا۔ اس کی ذہنی رو اس حد تک بہک چکی تھی کہ جو بھی اس کے سامنے آتا اور اگر اس وقت بادشاہ نفسیاتی دورے اور جنوں میں مبتلا ہوتا تو اس بدنصیب شخص کی خیر نہ ہوتی اور اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ روس کے مشہور ’’سینٹ باسل کیتھڈرل‘‘ (St. Basil’s Cathedral) کے آرکٹیکٹ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور وہ بادشاہ کے ہاتھوں اپنی آنکھیں گنوا کر اندھا کر دیاگیا۔

-10 اٹیلا دی ہن (Attila The Hun)
’’ہن‘‘ (Hun) خانہ بدوش قبائل تھے جو چوتھی سے چھٹی صدی عیسوی کے درمیان مشرقی یورپ سے لے کر وسطی ایشیا کے درمیانی علاقے میں آباد تھے۔ 434ء تا 453ء تک ’’اٹیلا‘‘ (Attila) ان کا حکمران رہا۔ وہ ایک خوفناک جنگجو تھا۔ اس کا دور عظیم رومی سلطنت کے زوال کا زمانہ تھا۔ ’’اٹیلا‘‘ نے تمام علاقے میں خوف و دہشت کی فضا پیدا کررکھی تھی۔ لاکھوں لوگ اس کی بربریت اور لوٹ مار کا نشانہ بنے۔ اس نے اپنے ہی بھائی ’’بلیڈا‘‘ (Bleda) کو صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ وہ پورے علاقے کا بلا شرکت غیرے حکمران بن سکے۔ اس کی جرأت اتنی بڑھ چکی تھی کہ اس نے زوال پذیر رومن امپائر کے بیشتر علاقوں پر حملے کیے۔ ’’نیئسس (Naissus) نامی شہر کی تباہی تو اس قدر ہولناک تھی کہ مرنے والوں کی لاشوں نے ’’دریائے ڈنیوب‘‘ (River Danube) کو پاٹ کر رکھ دیا اور وہ کئی برس تک ان نعشوں سے بھرا رہا۔ جو لوگ جنگ سے راہ فرار اختیار کرکے بھگوڑے ہوجاتے انہیں پکڑ کر لایا جاتا اور ان کے جسموں میں لکڑی کی میخیں ٹھونک کر انہیں اذیت ناک موت سے ہم کنار کر دیا جاتا۔ ’’اٹیلا‘‘ اتنا ظالم تھا کہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی دو بیٹوں کو مار کر کھاگیا تھا۔ اس کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ بہت سے رومی اس کے شر سے بچنے اور اسے اپنے علاقوں سے دور رکھنے کی خاطر اس کو مال وزر بطور رشوت کے پیش کیا کرتے تھے۔
-11 لیوپولڈ دوئم (Leopold II)
لیوپولڈ دوئم نے 1865ء سے لے کر 1909ء یعنی اپنی وفات تک، بلجیم کے دوسرے بادشاہ کی حیثیت سے حکومت کی۔ وہ 9 اپریل 1835ء کو پیدا ہوا تھا۔ تاریخ میں اس کو ایک اور نام سے بھی شہرت ملی اور وہ تھا ’’کانگو کا قصاب‘‘۔ اسی سے اس کی ظالمانہ فطرت اور جابرانہ طبیعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ’کانگو‘ ربڑ کی دولت سے مالا مال تھا اور لیوپولڈ کی حریصانہ نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ پس اس نے اپنی اس کالونی اور پسماندہ ملک پر اپنی فوجیں چڑھا دیں اور کانگو کے دس ملین باشندوں کو موت کے گھاٹ اتروا دیا۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس نے بذات خود کبھی کانگو میں قدم تک بھی نہیں رکھا تھا لیکن صرف اس کے حکم پر ہی اتنے زیادہ بے گناہ انسان تہہ تیغ کردیئے گئے۔ اس کی سنگ دلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بار بار اپنی افواج کو یہ احکامات بھجوا رہا تھا کہ کانگو کا جو بھی مقامی باشندہ اس کے خلاف بغاوت کرے اس کا سر کاٹ کر بطور ثبوت کے بادشاہ کی خدمت میں بیلجئم بھیج دیا جائے۔ یہ سامراجی استحصال کی ایک بدترین مثال تھی۔ بالآخر اس پر ان مظالم کا بیرونی دنیا کی طرف سے اتنا دباؤ آیا کہ اس کو اپنے یہ احمقانہ احکامات واپس لینے پڑے۔ مگر کانگو پر اس کا یہ سامراجانہ قبضہ کئی دہائیوں تک برقرار رہا۔
-12 پول پاٹ (Pol Pot)
’’پول پاٹ‘‘ ایک کمبوڈین انقلابی سیاست دان تھا جو 1976ء سے 1979ء تک جمہوریہ کمپوچیا کا وزیراعظم رہا۔ وہ ایک کمیونسٹ رہنما تھا۔ اس نے اساتذہ، سائنس دانوں، ماہرین تعلیم، عام شہریوں کی بڑی تعداد، مذہبی راہنماؤں یہاں تک کہ جو شخص ذرا سا بھی پڑھا لکھا تھا انہیں حراست میں لے کر کیمپوں میں قید کردیا جہاں بعدازاں انہیں بڑے پیمانے پر پھانسیوں پر چڑھا دیا گیا۔ اندازہ ہے کہ اس کے دور میں بیس لاکھ لوگ بھوک، پھانسیوں اور ناقص صحت کی وجہ سے ہونے والے امراض کے باعث موت کا شکار ہوگئے۔
-13 ایمپرر ہیروہیٹو (Emperor Hirohito)
’’ہیروہیٹو‘‘ جاپان کا ایک سو چوبیسواں بادشاہ تھا۔ وہ 29 اپریل 1901ء کو پیدا اور 7 جنوری 1989ء کو فوت ہوا۔ وہ 25 دسمبر 1926ء کو تخت پر بیٹھا اور اپنے انتقال تک بادشاہت کرتا رہا۔ اس کے دور کو انسانی تاریخ کے بدترین جنگی جرائم اور مظالم کے زمانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ’’نینکنگ‘‘ شہر کے قتل عام، جس میں ہزاروں ہلاکتیں اور عصمت دری کے واقعات ہوئے، سے لے کر یونٹ 731 تک، جہاں جاپانیوں نے لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے ہولناک تجربات کیے، جس کے نتیجے میں تین لاکھ لوگ لقمۂ اجل بن گئے، اسے بے شمار الزامات ہیں جو ’’ہیروہیٹو‘‘ پر لگائے جاتے ہیں کیونکہ بحیثیت بادشاہ اس کے پاس یہ اختیار تھا کہ اگر وہ چاہتا تو یہ سب روک سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔
-14 جوزف اسٹالن (Joseph Stalin)
جوزف اسٹالن (18 دسمبر 1878ء تا 5 مارچ 1953ء) سابقہ سویت یونین کا ایک انقلابی سیاست دان تھا۔ اس کا تعلق جارجیا سے تھا۔ وہ 1920ء کی دہائی کے وسط سے لے کر1953ء میں اپنی موت تک سوویت یونین (روس) کا حکمران رہا۔ کمیونسٹ نظریے کو ماننے والے حکمران کے طور پر اس نے اپنی حکومت کے دوران ملک کے بڑے رقبے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ لاکھوں کسانوں نے اپنی زمین حکومت کو دینے سے انکار کیا تو اسی وجہ سے انہیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس تمام عرصے میں اسی کشمکش کے باعث روس قحط کا شکار ہوگیا جس کے نتیجے میں کئی لاکھ اور لوگ بھی موت کی وادیوں میں اترگئے۔ اپنے مطلق العنان دور حکومت میں اسٹالن نے اپنی خفیہ پولیس کو بے انتہا اختیارات دیتے ہوئے ایک وسیع ادارے میں بتدیل کردیا۔ وہ شہریوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی جاسوسی کریں اور حکومت کو رپورٹ کریں۔ ان جاسوسی اطلاعات کی وجہ سے بھی لاکھوں لوگوں کو یا تو ’’گلاگ‘‘ (دلائی کیمپوں) میں بھیج دیا گیا اور یا پھر انہیں قتل کردیا گیا کیونکہ ان کی وفاداریاں مشکوک قرار پائی گئیں تھیں۔ اندازہ ہے کہ اس کے ظالمانہ اور آمرانہ دور حکومت میں تقریباً بیس ملین لوگ مارے گئے۔
-15 ایڈولف ہٹلر (Adolf Hitler)
’’ہٹلر‘‘ کا نام تو یقینا سب نے ہی سن رکھا ہے۔ 20 اپریل 1889ء کو پیدا ہونے والے جرمنی کے اس حکمران نے 30 اپریل 1945ء کو جنگ عظیم دوئم کے خاتمے کے وقت خودکشی کرلی تھی۔ وہ 2 اگست 1934ء کو مشہور زمانہ نازی پارٹی کی طرف سے جرمنی کا چانسلر منتخب ہوا اور پھر پورے یورپ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ’’ہٹلر‘‘ کو انسانی تاریخ کا ایک بدنام ترین، تخریبی ذہن کا مالک اور برائی کا محور حکمران تصور کیا جاتا ہے۔
اس نے اپنی جارحانہ اور نفرت انگیز تقریروں کے ذریعے جرمنی کے عوام کے دلوں میں قومیت کی وہ آگ بھڑکائی کہ جس نے سارے خطے کو جلا کر خاکستر کردیا۔ اس کے جرائم میں ’’کرسٹل ناخت‘‘ کا حکم دینا (کرسٹل ناخت کا مطلب ہے کہ 9 نومبر 1938ء کی رات کو یہودیوں کی 200 عبادت گاہیں، سینا گاگز مسمار کردیئے گئے، آٹھ ہزار سے زائد یہودی دکانداروں کی دکانیں لوٹ لی گئیں اور لاکھوں یہودیوں کو حراستی کیمپوں میں منتقل کردیا گیا)، اس کے یورپ اور افریقہ پر حملے اور یہودیوں کے خلاف ہولوکاسٹ سمیت دیگر بے شمار جنگی جرائم شامل ہیں۔ ہٹلر پر الزام ہے کہ اس نے نفرت اور برائی کو اس طرح مجسم شکل میں پیش کیا کہ اس سے قبل تاریخ میں شاید کسی اور نے نہ کیا ہوگا۔ تاریخ دان اس کو گیارہ ملین افراد کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button