کالم,انٹرویو

کیا ہم بنجر ہونے جا رہے ہیں؟

بھارت نے تو ہمارے ساتھ جو کرنا تھا کر چکا ، کیا ہمیں احساس ہے کہ اب افغانستان ہمارے ساتھ کیا کرنے جا رہا ہے ؟ کیا ہم نے طے کر لیا ہے کہ اپنے کھیت کھلیان اور باغات تباہ کروانے کے بعد ہم سب نے پیاس سے مر جانا ہے ۔ کیا ہم اجتماعی خود کشی کا آخری فیصلہ کر چکے ہیں؟
پہلی بار یہ خبر 2010 کے موسم گرما میں سامنے آئی کہ افغانستان دریائے کابل پر ایک یا دو نہیں ، پورے بارہ ڈیم بنانے جا رہا ہے اور اسے اس کام میں بھارت کی معاونت حاصل ہے ۔ معاونت ہی نہیں اصل میں بھارت ہی نے افغانستان کو قائل کیا کہ دریائے کابل پر درجنوں ڈیم بنا کر پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا حصہ بن جائے ۔ بھارت صرف تکنیکی معاونت تک محدود نہیں رہا ، وہ سرمایہ کاری تک کرنے پر تیار ہے ۔ بھارت افغانستان کو ان ڈیموں کی فزیبیلٹی رپورٹ بھی تیار کر کے دے چکا ہے ۔ یاد رہے کہ اس منصوبے کے اعلان سے قبل ہی افغانستان دریائے کابل پرامریکی معاونت سے چند ڈیم بنا چکا تھا ۔ اب تو ورلڈ بنک بھی تیار ہو چکا کہ افغانستان کو ان ڈیموں کے لیے آٹھ ارب ڈالر کی رقم فراہم کرے۔
پاکستان کے لیے دریائے کابل کتنا اہم ہے ذرا یہ بھی سمجھ لیجیے ۔ دریائے کابل کے پی کے میں تین اضلاع کو سیراب کر رہا ہے ۔ اور اس کا پانی فروری سے اکتوبر تک یعنی نو ماہ دستیاب ہوتا ہے ۔ یہ دریا کے پی کے کی زراعت کے لیے کتنااہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ پشاور کی کل قابل کاشت زرعی اراضی کا 80 فیصد اسی دریائے کابل سے سیراب ہوتا ہے ۔ نوشہرہ کی 60 فیصد زرعی زمین کو یہ دریا سیراب کر رہا ہے اور چار سدہ کی زنتہائی ذرخیز زرعی زمین کا85 فیصد انحصار اسی دریا پر ہے ۔ اسی دریا کے اوپر پاکستان نے وارسک ڈیم بنا رکھا ہے ۔ اب اگر اس دریا پر افغانستان بارہ ڈیم بنا لیتا ہے اور ان میں بھاری مقدار میں پانی ذخیرہ کر لیتا ہے تو ذرا سوچیے پاکستان کا کیا حشر ہو جائے گا؟
یہ آج کی خبر نہیں ہے۔ برسوں سے اس پر تیاری ہو رہی ہے۔لیکن ان سالوں میں یہ معاملہ کبھی ہماری مقدس پارلیمان میں زیر بحث نہیں آیا ۔ آپ کسی روز سیکرٹریٹ چلے جائیے ۔ وہاں بیوروکریسی کے لشکروں کے لشکر اترے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے مراعات کے سمندر اس غریب قوم نے اپنے خون سے بہا رکھے ہیں ۔ لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے ۔ جاتے جاتے سپیکر قومی اسمبلی مچل جاتے ہیں کہ میری مراعات میں مزید اضافہ کر کے ووٹ کو عزت دو اور کابینہ کے آخری اجلاس میں سمری پیش کر دی جاتی ہے کہ تمام سابق سپیکرز قومی اسمبلی کو تاحیات گریڈ سترہ کا ایک پی ایس، ایک پرسنل اٹینڈنٹ، ایک ڈرائیور، ویٹر، ایک نائب قاصد، دو گن مین ، ایک خانساماں عطا فرمائے جائیں اور ساری زندگی سابق سپیکر جب بھی اسلام آباد تشریف لائیں تو پندرہ دن کے لیے انہیں گاڑی اور ڈرائیور بھی دیا جائے۔
قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ اس سمری میں یہ یاد دہانی بھی کراتا ہے کہ چیئر مین سینیٹ کے لیے ایسی ہی مراعات کی بات سینیٹ کی فنانس کمیٹی پہلے ہی کر چکی ہے ۔ ان کی توندیں بحرلکاہل بن چکیں اور ان کی ہوس ختم ہونے میں نہیں آ رہی لیکن کیا انہوں نے کبھی ڈھنگ سے کوئی بات کی کہ پانی کا بحران کتنا شدید ہونے جا رہا ہے؟کیا کبھی کسی وزارت نے اس پر کوئی رپورٹ تیار کی؟ کیا کبھی اس پر پارلیمان ، معاف کیجیے گا ، مقدس پارلیمان کا کوئی خصوصی سیشن ہوا ؟پاکستان بنجر ہونے جا رہا ہے اور یہاں ہمارے گدھ ہمیں ہی نوچ کے کھا رہے ہیں ۔ کھا کھا کر جب انہیں بد ہضمی ہوتی ہے تو ڈکار لے کر حکم سناتے ہیں ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘۔
دریائے کابل اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہیں آ کر کالام سے آنے والا دریائے سوات بھی دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اٹک سے کالاباغ تک دریا پہنچتے ہیں تو یہاں اللہ نے پاکستان کو قدرتی ڈیم عطا کر رکھا ہے ۔ یہ کالا باغ ڈیم ہے۔اس ڈیم کی بات ہو جائے تو بعض رہنما اچھل کود شروع کر دیتے ہیں کہ یہ ڈیم ہماری لاش پر بنے گا ۔ افغانستان ڈیم بنا لے ، انہیں کوئی تکلیف نہیں ۔کے پی کے میں تین اضلاع بنجر ہو جائیں انہیں کوئی پرواہ نہیں، بھارت بگلہار بنا لے یا کشن گنا ان کی بلا سے۔لیکن پاکستان جب ایک قدرتی ڈیم کو بنانے کی بات کرتا ہے تو یہ چیخنا شروع کر دیتے ہیں ۔کیس کبھی کسی نے سوچا یہ کس کے اشارے پر ناچ رہے ہیں؟
پاکستان پانی کے خوفناک بحران سے دوچار ہونے جا رہا ہے۔ بلکہ ہونے کیا جا رہا ہے ، ہو چکا ہے۔ لیکن ہماری قیادت کے لچھن دیکھیے اور ان کی بے معنی اور بے مغز تقریریں سنیے ، انہیں اس کا احساس تک نہیں۔ افغانستان ہمارے ساتھ جو کرنے جا رہا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ بھارت کے ساتھ تو ہمارا سندھ طاس کا معاہدہ ہے لیکن افغانستان کے ساتھ تو ہمارا پانی کا کوئی معاہدہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔9 دریا ہمارے بیچ سانجھے ہیں مگر ایک معاہدہ موجود نہیں ۔ہم طالبان کی محبت میں جھلس گئے۔ مگر نا اہلی دیکھیے ہم ان کے دور میں افغانستان سے پانی پر کوئی معاہد ہ نہ کر سکے ۔ ہم نے نیلم جہلم پراجیکٹ میں تاخیر کی اور بھارت کا کشن گنگا کا کیس مضبوط ہو گیا ایسے ہی ہم منڈا ڈیم نہ بنا سکے اور اب افغانستان کے بارہ مجوزہ ڈیموں کا کیس طاقتور ہونے کا ڈر ہے۔کیا یہ محض نا اہلی ہے؟
ایسا نہیں کہ ہم پانی کے لیے مکمل طور پر بھارت اور افغانستان کے محتاج ہیں اور اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ۔ پاکستان اللہ کا انعام ہے ۔ ہمارے پاس برف پوش وادیاں بھی ہیں جو پگھلتی ہیں تو پانی کا ذریعہ بنتی ہیں ۔ ہمارے ہاں مون سون کی بارشیں بھی ہوتی ہیں اور ہماری ساری کوتاہیوں کے باوجود ، جنگل کاٹ کاٹ کر پھیکنے کے باوجود مون سون یہاں ایسے برستا ہے کہ ا س کے برسنے سے پہلے ہی سیلاب کی وارننگ جاری کرنا پڑ جاتی ہے ۔ سردیوں میں بھی یہاں بارشیں ہوتی ہیں۔ پاکستان اپنے حصے کا 90 فیصد پانی سمندر میں ضائع کر رہا ہے کیونکہ اس کے پاس اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم نہیں ہیں ۔اس ضائع ہونے والے پانی کی قیمت 21 بلین ڈالر سالانہ ہے ۔سب سے پہلے تو ہمیں کالا باغ ڈیم بنانا ہے۔ کسی کی ضد ہے کہ یہ ڈیم اس کی لاش پر بنے گا تو بے شک یہ ضد بھی پوری کر دی جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ شجرکاری پرتوجہ دینا ہو گی اور جنگلات کاٹنے والے مافیا سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنا ہو گا۔یہاں پر حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے جناب عارف عباسی نے پنجاب اسمبلی میں سوال کیا کہ راولپنڈی رینج کے کتنے ایکڑ جنگلات کے رقبے پر ناجائز قبضہ ہو چکا ہے تو جواب ملا ایک ہزار آٹھ سو ستاون ایکڑ ۔ادھر چار ہزار یکڑ رقبے پر مشتمل چھانگا نانگا جنگل سے تین ہزار ایکڑ سے درخت کاٹ لیے گئے ہیں اور پچھتر فیصد جنگل کاٹ کر 10ارب روپے کی لکڑی فروخت کی جا چکی ہے۔
پانی کا بحران صرف زرعی استعمال تک محدود نہیں۔ پینے کے پانی کا بحران بھی ہمیں لپیٹ میں لے چکا ہے۔ واٹر سپلائی کے نظام کا صرف 12 فیصد پانی صاف ہے اور اس سے منسلک 88 فیصد لوگ گندا اور مضر صحت پانی پی رہے ہیں ۔منسٹری آف پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پینے کے پانی میں آرسنیک ، فلورائڈ اور نائٹریٹ پایا جا رہا ہے۔پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 200000( دو لاکھ) بچے مضر صحت پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔انڈی پنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تیس لاکھ لوگ مضر صحت پانی کی وجہ سے انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام سیاسی جماعتوں سے دریافت کریں کہ انہوں نے اپنے منشور میں کتنے ڈیم اور پانی کے ذخائر رکھے ہیں اور ان پر کس حد تک عمل پیرا ہوں گے؟ بحثیت پاکستانی ہمیں صرف اسی جماعت کو ووٹ دینا چاہیے جو پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی گارنٹی دے نہ کہ صرف کوشش کرے۔ اللہ ہمارے پیارے ملک کو ترقی و خوشحالی عطا فرمائے۔ آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button