ن لیگ اپنے قائد کا بھاری بیانیہ برداشت نہ کرسکے گی،تجزیہ کار
کراچی نجی تی وی کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئےسینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ن لیگ ہمیشہ سے اقتدار کی پارٹی رہی ہے وہ نواز شریف کے بیانیہ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکے گی، ن لیگ والے انتخابی سیاست کھیلنا چاہتے ہیں جبکہ نواز شریف انتخابی سیاست سے بالاتر ہو کر اختیار، ووٹ کی اہمیت کی بات کررہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کیخلاف مزاحمت میں سب سے آگے نکل گئے ہیں، جو بھی اس قسم کی مزاحمت کرتا ہے اس کا مقدر پھانسی یا جیل کی کوٹھری ہوتا ہے لیکن اسے سیاسی عظمت بھی نصیب ہوتی ہے، نواز شریف کرپشن میں سزا پاکر جیل جانے کے بجائے بہادری کا تمغہ سجا کر جیل جانا چاہتے ہیں، نواز شریف اب بھی بہادری سے بات کررہے ہیں لیکن جب یہ جب سب کچھ ہورہا تھا اس وقت بولتے تو زیادہ بہادری ہوتی، نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ بینک پر طبع آزمائی کررہے ہیں، یہ ووٹ بینک انہیں جتوا نہیں سکتا البتہ ان کی مزاحمت کا ساتھ دے سکتا ہے، نواز شریف نے وقتی مصلحت کے تحت اپنے انتہائی قریبی لوگوں کو نکالا جو نکالنے کے بعد بھی ا نتہائی قریبی رہے، اس کا مطلب ہے وہ لوگ وہی بات کررہے تھے جو نواز شریف چاہتے تھے، نواز شریف اب وہ ساری باتیں بتارہے ہیں جن کی وجہ سے ان کے خیال میں انہیں نکالا گیا۔سینئر صحافی سلیم صافی نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں انضمام فاٹا کے عوام کیلئے قیام پاکستان کے بعد دوسرا بڑا قدم ہے، قیام پاکستان کے موقع پر فاٹا کے لوگوں کو عملاً آزادی نہیں ملی تھی، ستر سالوں تک ان پر پاکستان کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا تھا، فاٹا کے عوام اپنے ساتھ ظلم پر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاسکتے تھے، فاٹا کے نام پر منتخب ہونے والے پورے ملک کیلئے قانون سازی کرسکتے تھے لیکن اپنے لئے نہیں کرسکتے تھے، اب وہ باقی پاکستانیوں کی طرح پاکستانی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرسکیں گے، انہیں اب پاکستان کے وسائل میں دیگر صوبوں کی طرح اپنا آئینی و قانونی حق ملے گا،آج خیبرپختونخوا میں فاٹا کا انضمام پاکستان کیلئے بھی تاریخی دن ہے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کا سب سے زیادہ کریڈٹ قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کو جاتا ہے، جب قبائلی نوجوانوں نے دیکھا کہ سیاسی قیادت انضمام میں سنجیدگی نہیں دکھارہی تو وہ فاٹا یوتھ جرگہ کے پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے، فاٹا یوتھ جرگہ میں تمام سیاسی جماعتوں کے نوجوان اپنے اختلافات بھلا کر یکجا ہوئے ، وفاقی حکومت کو بھی فاٹا کے انضمام کا کریڈٹ جاتا ہے،خیبرپختونخوا میں فاٹا کے انضمام میں سب سے کلیدی کردار آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی ٹیم نے ادا کیا، جب قبائلی نوجوان ان کے پاس گئے اور انہوں نے ان کی بات سمجھ لی تو ماضی کی فوجی قیادت کی طرح رکاوٹ نہیں بنے، پاکستان کی فوجی قیادت خود اس مسئلہ کے حل کیلئے متحرک ہوئی، آج بھی دو جماعتوں کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن نے اس پر اتفاق کا اظہار کیا، فاٹا اصلاحات بل کی منظوری میں تاخیر بہت ہوگئی جس میں سب کی غلطیا ںتھیں، ہر سیاسی جماعت یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن کو بھی فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کا فائدہ ہوگا۔نمائندہ جیونیوز اسلام آباد وقار ستی نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے انتخاب کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی چار پانچ ملاقاتیں بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں، خورشید شاہ کے مطابق وزیراعظم او ر نواز شریف نے ہمارے ناموں کو ماننے کا عندیہ دیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا، حالات یہی بتاتے ہیں کہ نگران وزیراعظم کا معاملہ اب پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا۔پی ایس پی کی رہنما فوزیہ قصوری نے کہا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے،2013ء سے عمران خان سے کہہ رہی ہوں کہ ہم اپنے حقیقی مقصد اور پیغام سے ہٹ رہے ہیں، تحریک انصاف کے ذریعہ مڈل کلاس قیادت کو ابھرتے دیکھنا چاہتے تھے، عمران خان نے ہمیں جو خواب دکھائے ہم اس سے الگ ہوتے جارہے تھے، 2013ء میں پارٹی سے ایک مہینے علیحدگی اختیار کی تو عمران خان نے واپس بلا کر میری باتوں سے اتفاق کیا تھا، عمران خان کی یقین دہانیوں پر اب تک وقت گزارا۔ فوزیہ قصوری کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والے پارلیمنٹ سے تنخواہیں ضرور لیتے ہیں مگر اس کا حصہ نہیں بنتے، پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونا میرے لئے بہت مشکل فیصلہ تھا، ہم جیسے معمولی کارکنوں نے بائیس سال تحریک انصاف کی جنگ لڑی، میں نے اپنی زندگی کا بڑا قیمتی حصہ اس پارٹی اور فلاسفی کو دیا، میرا حق تھا کہ میں پوچھوں ہم اس سمت میں کیوں جارہے ہیں، جن فصلی بٹیروں کا پی ٹی آئی کو احتساب کرنا تھا انہیں اپنی چھتری تلے دوبارہ اسمبلیو ں میں پہنچانے جارہی ہے۔ فوزیہ قصوری نے کہا کہ تمام پارٹیوں سے لوگ ٹوٹ کر پی ٹی آئی میں آکر بیٹھ گئے ہیں، ان حالات میں پی ٹی آئی شاید حکومت بنالے گی، عمران خان حکومت میں آتے ہیں تو اپنے وعدے ضرو ر پورے کریں، جب پی ٹی آئی میں شامل ہوئی تو یہ ایک ہاری ہوئی جماعت سمجھی جاتی تھی، ہمارے پاس کچھ اچھا کرنے کے فلسفے، جوش اور جذبہ کے علاوہ کچھ نہیں تھا، جب وقت آیا کہ ہم واقعی پاکستان میں تبدیلی لاسکتے ہیں تو ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کے فصلی بٹیروں کو اکٹھا کرلیا، ان فصلی بٹیروں کا مقصد صرف اقتدار میں رہنا ہے۔فوزیہ قصوری کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے لئے اس پلیٹ فارم کا انتخاب کیا ہے جہاں میں کھل کر اپنی بات کرسکتی ہوں، پی ایس پی میں اقتدار کیلئے نہیں سیاسی کارکن کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے آئی ہوں، میں کسی بڑی سیاسی جماعت میں بھی شامل ہوسکتی تھی، لیکن اس وقت پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایک جیسی نظر آرہی ہیں، میں نہ پی ایم ایل این اور نہ ہی پیپلز پارٹی میں جاسکتی ہوں نہ انہیں مجھ جیسے کارکن کی ضرورت ہے، میں پہلے دن سے انصاف، میرٹ اور شفافیت کی بات کررہی ہوں۔ فوزیہ قصوری نے کہا کہ میں نے عمران خان سے ریزرو سیٹ نہیں مانگی تھی، انہوں نے مجھے ریزرو سیٹ آفر کی تو میں نے انہیں کہا کہ میں ڈائریکٹ الیکشن لڑوں گی ، یہ ریزرو سیٹ ایسی خاتون کارکن کو دیں جس کی الیکشن لڑنے کی اہلیت یا حیثیت نہ ہو مگر اس نے پارٹی کیلئے کام کیا ہو، ریزرو سیٹ کیلئے نمبر دو پر جو خاتون آئیں وہ کینیڈا میں رہتی تھیں ، میں نے اس وقت میرٹ کا سوال اٹھایا تھا، انصاف کیلئے لڑنا گناہ نہیں ہے، عائلہ ملک کی پارٹی کیلئے کیا خدمات ہیں۔ن لیگ کے رہنما مصدق ملک نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے پاس تین دن اور الیکشن کمیشن کے پاس دو دن ہوں گے، خورشید شاہ کا خیال تھا کہ پیر کو کمیٹی کی طرف جائے لیکن اپوزیشن لیڈر کی طرف سے ملاقات سے انکار کے بعد وزیراعظم کی خواہش ہے کہ فوری طور پر پارلیمانی کمیٹی بنادی جائے تاکہ اکتیس مئی کی رات کو کلین سلیٹ کے ساتھ آگے بڑھاجاسکے، آرٹیکل 242کے تحت وزیراعظم کو حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد کچھ دن رہنا پڑے تب بھی الیکشن وقت پر ہوں گے، پارلیمانی کمیٹی میں چار لوگ اپوزیشن اور چار لوگ حکومت کی طرف سے ہوں گے۔