انتخابات 2018 میں مسلم لیگ ( ن ) ہی اکثریت حاصل کرے گی :سربراہ گیلپ
اسلام آباد (نیوز وی او سی آن لائن)پاکستان گیلپ آف پاکستان کے چیئر مین ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے کہا ہے کہ الیکشن 2018میں مسلم لیگ (ن) ہی مرکز اورپنجاب میں اکثریت حاصل کرے گی کیونکہ اس کی مقبولیت تحریک انصاف سے زیادہ ہے ,وو ٹر ز حق رائے دہی کیلئے سات چیزوں کودیکھتا ہے جن میں نظریہ ، ذاتی مفاد ، علاقے کامفاد ، امیدوار کی اہلیت ، امیدوار کی پارٹی اور امیدوار کی دیانت داری شامل ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’’ جرگہ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک میں ہونیوالے 8انتخابات میں ہزاروں ووٹر ز سے سوال پوچھا ہوا ہے کہ آپ نے فلاں پارٹی یا امیدوار کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس میں نظریات کادخل نہیں ہوتا ، چار انتخابات میں ملک میں چار ٹرینڈز بن چکے ہیں جن میں ایک پیپلز پارٹی ، ایک مسلم لیگ ،علاقائی سیاسی پارٹیاں، مذہبی پارٹیاں اور پانچویں آزاد امیدوار شامل ہیں، اس کو آپ نظریات بھی کہہ سکتے ہیں جن میں ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن تک کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن آہستہ آہستہ ان میں ارتقاءپیدا ہو جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کا ووٹرز نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے بلکہ آپ یہ کہہ لیں کہ آسمان سے زمین تک نیچے چلا گیا ہے ، 1970کے انتخابات میں جو 20فیصد سے زائد تھالیکن 2013کے الیکشن میں مذہبی جماعتوں کا ووٹر 5فیصد تک چلا گیا ،اس وقت مذہبی ووٹر اس امیدوار کوووٹ دیتا ہے جس کے بارے میں اسے پتہ ہو کہ یہ امیدوار جیت جائے گا ، اب تحریک لبیک کے الیکشن میں حصہ لینے سے مسلم لیگ ن کو نقصان ہوا ہے کیونکہ مذہبی جماعتوں کا ووٹر مسلم لیگ میں چلا گیا تھا ۔اعجاز شفیع گیلانی نے کہا کہ پاکستان میں زبانوں کا بھی انتخابات میں بڑااثر ہے ، سندھ میں سندھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، ایم کیوایم کو اردو بولنے والے ووٹ دیتے ہیں لیکن پنجاب میں زبان کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیئے جاتے اور اب سندھ اور کراچی میں یہ صورتحال ختم ہورہی ہے اور الیکشن میں لسانی عنصر کا خوف نظر نہیں آتا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والے دس انتخابات میں صرف تین انتخابات کے علاوہ کسی انتخابات میں نتائج کے اعتبار سے کوئی زیادہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جو صورتحال ہے اس کے مطابق پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے ، 2013میں اس کا ووٹ 17فیصد تھا جو اب 25فیصد ہوگیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوا ہے جو پہلے 33فیصد تھا اب 38فیصد ہوگیا ہے ،پیپلز پارٹی کے 2013کے الیکشن میں 15فیصد ووٹ تھے لیکن ان میں بھی کوئی کمی یا اضافہ نہیں ہوا ۔صوبائی حکومتو ں کی کارکردگی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے بتایا کہ کاکردگی کے حوالے سے بلوچستان کے علاوہ باقی تین صوبوں کے شہری اپنی حکومتوں پر عدم اعتماد نہیں کرتے ہو سکتا ہے کہ اس میں ووٹ کا تعصب ہو کہ وہ ان پر عدم اعتماد کا اظہار نہ کرنا چاہتے ہوں کہ انہوں نے ان کو ووٹ دیاہے لیکن بلوچستان میں عوام اپنی حکومت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، گزشتہ دس سال کی نسبت اس وقت بھی 70فیصد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک درست سمت میں جارہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ایک مقبول لیڈر کی پارٹی ہی جیتے لیکن یہ کبھی کبھار ہوتا ہے ۔ووٹ پارٹی کی مقبولیت پر پڑتا ہے اور لیڈر کی بنیاد پر بھی ، اس وقت کے سروے کے مطابق نواز شریف کی مقبولیت عمران خان سے زیادہ ہے، سروے کے مطابق نواز شریف کی مقبولیت بطور شخصیت 50فیصد کے قریب ہے جبکہ عمران خان کی مقبولیت 45فیصد ہے، اب بھی نوازشریف مقبولیت میں عمران خان سے آگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس قدر نواز شریف کو نقصان ہوگا عین ممکن ہے کہ اس کا فائدہ عمران خان سے زیادہ شہباز شریف کو ہوگا ،ان تین لیڈروں کے علاوہ اور کوئی لیڈر بھی ملک میں نہیں کہ اس کو قومی سطح پر احترام حاصل ہو،عوام کا ایک متضاد رویہ ہے کہ ان کی رائے میں بہت سی چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، آرمی چیف اور چیف جسٹس کے عہدے کی مقبولیت پاکستان میں 55سے لیکر 70تک ہوتی ہے جبکہ سیاسی لیڈر بہت کم اس سطح پر پہنچ پاتے ہیں ، سیاستدانوں اور قومی اداروں کے سربراہوں کی مقبولیت کے معیارات الگ الگ ہوتے ہیں، ہمارے سیاسی لیڈرز کو چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ کے لیڈر کی حیثیت سے پوری قوم کے لیڈر ہوں جس طر ح فوج اور عدلیہ کے سربراہان پوری قوم کے لیڈر ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب تک کے اعداد شمار کے مطابق مرکزکی سطح پر اکثریتی پارٹی مسلم لیگ (ن)ہی ہوگی اگر انتخابات سے پہلے کو ئی انتخابی اتحاد پنجاب میں نہ بنا ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کاووٹر آزادانہ طور پر ووٹ دیتا ہے وہ بادشا ہ کے سامنے جھک کرووٹ نہیں دیتا ۔ صرف 2002کا الیکشن ایسا تھا جس میں ہو سکتاہے کہ ووٹر نے سرتسلیم خم کیا ہو لیکن وہ بھی دھڑے کے اندر ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ الیکشن میں پنجاب میں مسلم لیگ ن ہی کامیاب ہوگی کیونکہ سروے کے مطابق مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں مقبولیت کے لحاظ سے 20فیصد کا فرق ہے ۔ انہوں کہا کہ اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے لیکن کراچی میں سروے صبح کچھ بتاتے ہیں اور شام کوکچھ بتاتے ہیں اس کی وجہ کراچی کے ووٹر کااپنے ذہن میں منقسم ہوناہے ، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے ووٹر ز میںاضافہ ہوا ہے کارکردگی کے لحاظ سے رائے کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ انتخابات میں آزاد امیدواروں کے بڑی تعدا د میںمنتخب ہونے کا بہت ہی کم امکان ہے ، پچھلے انتخابات میںہمارے سروے بہت حد تک درست ثابت ہوئے اور یہ میر ی توقع سے بھی زیاد ہ درست ثابت ہو ئے تھے ۔