سندھ پولیس میں سال 2012 سے 2015 کے دوران 19360 اہلکاروں کے بھرتی کیا گیا جن میں 14612 تقرریاں قواعد کے مطابق جبکہ 4748 تقرریاں خلاف ضابطہ کی گئیں۔
یہ انکشاف سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی اور ڈی آئی جی نعیم شیخ پر مشتمل کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ "جنگ” نے حاصل کرلی ہے جس میں غیرقانونی بھرتیوں کے اہم کردار 22 پولیس افسران کے ابھی بھی سندھ پولیس میں اہم عہدوں پر تعینات ہونے اور کام کرنے کا انکشاف کرتے ہوئے تک کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
اس نمائندے کو موصول دستاویزات کے مطابق سال 2012 سے 2015 تک کے دورانیہ میں سندھ پولیس میں سب سے زیادہ غیرقانونی تقرریاں 1818 سندھ ریزرو پولیس کے شعبہ میں ہوئیں، سب سے کم 134 اہلکاروں کو میرٹ پر بھرتی کیا گیا۔ سب سے زیادہ بھرتیاں 1186 ایس آر پی حیدرآباد کے لیے کی گئیں۔
غیرقانونی بھرتیوں کے حوالے سے بھی حیدرآباد کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ جہاں 1569 پولیس اہلکاروں کو خلاف ضابطہ بھرتی کیا گیا جبکہ یہاں ضابطے کے مطابق بھرتی کیے گئے اہلکاروں کی تعداد 1993 ہے۔
رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ رینج میں اس عرصے میں 3,426 اہلکاروں میں سے577 پولیس اہلکاروں کا خلاف ضابطہ تقرر ہوا۔
کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اس دورانیے میں کراچی رینج میں 4242 اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا جن میں 250 اہلکار خلاف ضابطہ بھرتی ہوئے۔
رپورٹ میں سندھ پولیس کی اسپیشل برانچ میں 78 جبکہ میرپورخاص رینج 74 اہلکاروں کی غیرقانونی طور پر بھرتی کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے ایک انتہائی اہم نقطہ کے مطابق سندھ پولیس میں اہلکاروں کی تربیت والے اہم شعبہ ٹریننگ میں 66 نااہل اہلکاروں کی بھرتی کا انکشاف سامنے آیا ہے ان میں سے بیشتر اہلکار اب بھی ڈیوٹی پر موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کی مقرر کردہ دو رکنی کمیٹی نے رپورٹ میں مزید اہم انکشافات کئے ہیں۔ رپورٹ میں خلاف ضابطہ بھرتیوں کا ذمے دار سابقہ آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی اور اس وقت ان کے ماتحت کام کرنے والے اہم افسران کو قرار دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں غلام حیدر جمالی کے خلاف تو بھرپور قانونی کارروائی کی جارہی ہے لیکن ان بھرتیوں کے اہم کردار 22 پولیس افسران کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی سامنے نہیں آرہی جو ابھی بھی سندھ پولیس کے اہم عہدوں پر تعینات اور اسی وقت سے کام کر رہے ہیں۔