سرمایہ قطر سے برطانیہ پھر سعودی عرب کیسےگیا؟
احتساب عدالت میں دوران سماعت جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ گلف اسٹیل ملز کے قیام ، فروخت اور واجبات سے متعلق تفتیش کرنے کا کہا گیا تھا۔سرمایہ قطر سے کیسے برطانیہ اور پھر سعودی عرب گیا؟ کی بھی تفتیش کرنی تھی۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی۔
8مئی کو ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے واجد ضیاء کوآج طلب کیا تھا،پیشی کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف خصوصی طیارے سے اسلام آباد پہنچے۔
سماعت کے دوران واجد ضیاء نے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے بتایا کہ 20 اپریل کو وہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کے طور پر کام کر رہے تھے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ سنایا۔
واجد ضیاء نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے گلف اسٹیل ملز کے قیام، فروخت اور واجبات سے متعلق سوالات پوچھے ۔
واجد ضیاء کے مطابق یہ بھی پوچھا گیا کہ سرمایہ قطر سے کس طرح یوکے اور سعودی عرب گیا؟ جبکہ سپریم کورٹ نے یہ بھی پوچھا کہ قطری شہزادے حمد بن جاسم کا خط افسانہ تھا یا حقیقت؟
واجد ضیاء کے مطابق حسین نواز کے نواز شریف کو کروڑوں روپے کے تحائف سے متعلق بھی سوال کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ لندن فلیٹس اور برطانیہ میں قائم اُس کمپنی سے متعلق سوال بھی پوچھا گیا جو اس ریفرنس سے متعلق نہیں جبکہ انہیں یہ تفتیش بھی کرنی تھی کہ نواز شریف ان اثاثوں کے مالک ہیں یا کوئی بے نامی دار ہیں۔
واجد ضیاء کے مطابق یہ وہ سوال ہیں جن سے متعلق تفتیش کرنی تھی اور جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ کی طرف سے 60 دن میں حتمی رپورٹ دینے کا کہا گیا تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کی مدت میں مزید ایک ماہ کی توسیع کرتے ہوئے احتساب عدالت کو 9 جون تک کی مہلت دے دی تھی۔