دو نہیں ایک پاکستان
کالم :- ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
تحریک انصاف کے مینار پاکستان جلسہ کے بعد آج کل ہر خاص وعام کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے کہ دو نہیں ایک پاکستان، پی ٹی آئی کی جانب سے متعارف کیا گیا یہ سلوگن کچھ یوں مکمل ہوتا ہے کہ دو نہیں ایک پاکستان، ہم سب کا ایک نیا پاکستان۔ میری سیاسی جدوجہد میں تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد مجھے پہلی مرتبہ ایک عظیم الشان جلسے میں شرکت کا موقع ملا، وہاں میں نے خود اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کیا کہ کیسے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ قومی جوش و ولولے سے ایک ایسے پاکستان کو یقینی بنانے کیلئے اپنی مرضی سے شریک ہوئے جسکا خواب قائداعظم اور تحریک پاکستان کے اکابرین نے دیکھا تھا، ایک ایسا پاکستان جہاں امیر غریب، عورت مرد یا اکثریت اقلیت کی تفریق نہ ہو بلکہ تمام پاکستانیوں کو میرٹ کے مطابق ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ کسی بھی انسانی معاشرے کی ترقی کا راز امن و امان کے قیام میں پنہاں ہے اور امن کیلئے ضروری ہے کہ وہاں سماجی انصاف کا دور دورہ ہو، اسی طرح جو معاشرے طاقتور اور کمزور کیلئے دو مختلف پالیسیاں پروان چڑھاتے ہیں، وہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے ہوئے آخرکار اپنا وجود کھو ڈالتے ہیں۔ انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ یونائیٹڈ وی اسٹینڈ ڈیوائیڈڈ وی فال یعنی کہ اتفاق و اتحاد کی بدولت کامیابی
xADVERTISEMENT
Error loading media:
حاصل کی جاسکتی ہے جبکہ نفاق کا رستہ تنزلی اور ناکامی کی طرف جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے ایک کامیاب مثال قائداعظم کی زیرقیادت تحریک پاکستان کی ہے، قائداعظم نے اپنا سیاسی سفر انڈین کانگریس سے شروع کیا، انکا شمار انڈین کانگریس کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا تھا، بطور جمہوری لیڈر قائداعظم ایک ایسے پرامن معاشرے کے قیام میں یقین رکھتے تھے جہاں سب کو یکساں حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جاسکی، قائداعظم کی یہی جمہوری سوچ انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف لے آئی اور اپنی اصول پسندی، بلند کردار اور انتھک جدوجہد کی بدولت پاکستان کی صورت میں ایک معجزہ ممکن کر دکھایا، قائداعظم کے سفر میں انکے ہمراہی جوگندرناتھ منڈل جیسے غیرمسلم لیڈران بھی تھے۔ قائداعظم نے گیارہ اگست کی تقریر میں بالکل واضح کردیا کہ ریاست کی نظر میں پاکستان میں نہ کوئی اکثریت ہوگی اور نہ اقلیت، یعنی کہ سب کیلئے ایک پاکستان ہوگا۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور میری نظر میں دنیا کا پہلا متوازن پرامن معاشرہ مدینہ منورہ میں قائم کیا گیا تھا، میثاق مدینہ کے مطابق مسلم اور غیرمسلم تمام شہریوں کو برابر حقوق فراہم کئے گئے، آخری حج کے خطبے میں اعلان کردیا گیا کہ کسی عربی کو عجمی اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، اسلامی معاشرے کے مستحکم نظام عدل کی ایک مثال پیغمبراسلام ﷺکا فرمان ہے کہ اگر بیٹی بھی چوری کرے تو اسے سزا دینی چاہئے۔قائداعظم کے وژن کے مطابق قیام پاکستان کا مقصد اخوت، مساوات اور بھائی چارے کو یقینی بنانا ہے لیکن بدقسمتی سے آزادی کے فقط ایک سال بعد بانی پاکستان کی وفات نے ہمیں ان کے وژن سے بھی محروم کردیا۔ قائد کے مشن سے محرومی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج 69سال بعد صورتحال اتنی کشیدہ ہوچکی ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ کو بھی نشانہ بنا دیا گیا ہے، اس سے قبل ایک گورنر اور وزراء بھی عدم برداشت کی بدولت جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ہمارے سبز ہلالی پرچم میں سبز رنگ تمام پاکستانیوں بشمول مسلمانوں اور غیرمسلموں کی عکاسی کرتا ہے جبکہ سفید رنگ امن کی علامت ہے، افسوس ہم نے اپنے قومی پرچم کو بھی تقسیم کر ڈالا ہے۔ موجودہ سیاسی پشت پناہی میں لسانیت اور فرقہ واریت کیساتھ انتہا پسندی کی غلط روایات پاکستان کو دن بدن اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں، آج ظالم کے سامنے قانون بھی بے بس نظر آتا ہے اور بے گناہ مظلوم کو قانون کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں تحریک انصاف کی طرف سے لگایا گیا ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کا نعرہ مجھ سمیت ان تمام پاکستانیوں کی دل کی آواز ہے جو قائداعظم کا پرامن پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ مجھے نہایت خوشی محسوس ہوئی جب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے مینار پاکستان جلسے میں حالیہ تقریر میں گیارہ نکاتی انتخابی منشور پیش کرنے سے قبل میثاقِ مدینہ کا تذکرہ کیا اور قائداعظم کے وژن پر عمل پیرا ہونے کے عزم کا اعادہ کیا جسے آج انکی نام لیوا مسلم لیگ بھی بھلا بیٹھی ہے۔ گزشتہ قومی انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے، آج پاکستان میں غیرمسلموں کے لگ بھگ 35لاکھ ووٹ ہیں، الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ہندو کمیونٹی ملک کی سب سے بڑے اقلیتی ووٹ بینک کی حامل ہے، میں ان تمام ووٹرز سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ جہاں بھی رہتے ہیں لیکن ووٹ صرف تحریک انصاف ہی کو دیں، مجھے یقین ہے کہ غیرمسلموں کا ووٹ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ اسی طرح ہمیں پارلیمنٹ میں بھی ایک ہی طرح کا نظام وضع کرنا چاہئے، یہ سراسر ناانصافی ہے کہ جیتنے والی سیاسی جماعت کے لیڈران کی ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر غیرمسلم برادری کی نمائندگی کیلئے من پسند نمائندے پارلیمان میں بھیج دیئے جائیں، غیرمسلم پاکستانیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انکے حقیقی نمائندے ڈائریکٹ اور دہرے ووٹ کے ذریعے منتخب ہوں۔ ایک نیا پاکستان بنانے کیلئے ہمیں سفارش اور رشوت کا زور توڑتے ہوئے میرٹ کو فروغ دینا ہوگا، آج ہمارے قومی اداروں کی تباہی کی بڑی وجہ اقربا پروری اور سیاسی بھرتیاں ہیں۔
پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہر قسم کی طبقاتی تفریق کا خاتمہ کیا جائے، ریاست کی نظر میں سب شہری برابر کے پاکستانی ہونے چاہئے، اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اسے مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر صرف مجرم سمجھا جائے، اسی طرح کسی بھی قابل شخص کی ترقی کی راہ میں مذہب یا مخصوص طبقے سے تعلق رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کی منزل اتنی بھی آسان نہیں، گزشتہ ستر سالوں سے ہماری ملکی تقدیر کی مالک انگریز سامراج کی گماشتہ وہ قوتیں بن بیٹھی ہیں جو اپنی بقاء کا راز تقسیم کرو اور حکومت کرو میں سمجھتی ہیں، اسٹیٹس کو کی نمائندہ قوتوں کو شکست فاش دینے کیلئے ایسے ہی یقین محکم اور جوش و جذبے کی ضرورت ہے جسکا مظاہرہ تحریک پاکستان کے دوران ہمارے بڑوں نے کیا تھا۔ تاریخ پاکستان کا مطالعہ کرتے وقت میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ اگر ہمارے اکابرین بے سروسامانی کے عالم میں غلامی کی زنجیریں توڑ کر پاکستان بنانے میں کامیاب ہوسکتے تھے تو آج دور جدید میں ہم کیوں قائداعظم کے وژن کے مطابق ایک پاکستان نہیں بناسکتے؟ مجھے اس سوال کا جواب تحریک انصاف کے مینار پاکستان جلسے سے مل تو گیا لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ملک میں تبدیلی تبھی آتی ہے جب کراچی جاگ جاتا ہے، مجھے قوی امید ہے کہ پی ٹی آئی کے کراچی جلسہ محب وطن غیرمسلم پاکستانیوں کی کثیر تعداد ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ یقینی بنانے کیلئے فیصلہ کن ثابت ہوگی۔ آئیں، آج ہم ایک ایسا نیا پاکستان بنانے کی جدوجہد میں تیزی لائیں جہاں قانون کی حکمرانی امیر غریب، طاقتور کمزور، مسلم غیرمسلم سب کیلئے برابر ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
بشکریہ روزنامہ جنگ