رنگ برنگ

حضرت علامہ ابوالبیان پیر محمد سعیداحمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات وخدمات

تحریر: گل ریز خان (پی آر او ۔ سی پی او )
نیوز وائس آف کینیڈا پاکستان بیورو
www.newsvoc.com
کاروان عشق و مستی پر اک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو بڑے بڑے صاحبان فقر اور عظیم المرتبت ارباب ذوق زیب نظر ہونگے ۔ ان سراخیل کارواں میں ایک بڑی نمایاں145 قدآور اور ہمہ گیرعبقری شخصیت۔۔۔جو سراج العارفین145 شہباز طریقت145 شارح مکتوبات امام ربانی جیسے القاب گرامی سے ملقب ہے اور زمانہ ان کو خطیب العصر ابوالبیان علامہ محمد سعید احمد مجددی کے اسم گرامی سے جانتا اور پہچانتا ہے ۔ آپ کا دور ہمایوں زندگی کی تقریباً ساٹھ بہاروں پر محیط ہے ۔ وادئ کشمیر جنت نظیر میں ایک صاحب حضوری بزرگ اور عالم دین حضرت مولانا لال دین علیہ الرحمۃ کے ہاں اس گوہر نایاب نے جنم لیا۔آنکھ کھلی تو گھر کا ماحول بڑا ہی بابرکت پایا۔ سرپر شفقت پدری کے علاوہ مقدس ماں کی ممتا اس پر مستزاد۔ عالم شیرخوارگی میں اماں جی حضور کے مقدس لبوں سے نکلی ہوئی قرآن کی لوریاں اور عارفانہ کلام کی حلاوتیں گویا گٹھی میں دے دی گئیں ۔پھریہی ابتدائی خوراک یوں اثر انداز ہوئی کہ حضرت ابو البیان ؒ کی زندگی کے جملہ ایام طفولیت بڑے ہی بابرکت انداز میں گزرے ۔بچپن کا عالم عموماً کھیل کود میں گزرتا ہے مگرحضرت ابوالبیان علیہ الرحمۃکھیل کود سے عموماً متنفر رہے ۔عالم طفولیت میں بھی آپ ؒ لذت سحر گاہی سے آشناتھے ،ہوش سنبھالا تو مسجد و محراب کا ماحول دیکھنے میں آیا۔ دردوسوز ورثے میں پایا145 ذکر و فکر کی کیفیات کی لذت ملی اور علم وا خلاص کی فراوانی نصیب ہوئی ۔
طبیعت ابتداء ہی سے تصوف وطریقت کی طرف مائل تھی، جن دنوں آپ لاہور میں زیر تعلیم تھے، اکثر حضور داتا گنج بخش رحمۃاللہ علیہ کے مزاراقدس پر حاضری دیاکرتے تھے ۔یہیں پر آپ کی ملاقات زبدۃ الفقراء حضرت خواجہ صوفی محمد علی نقشبندی مجددی قدس سرہ (خلیفہ خاص آلومہا رشریف سیالکوٹ) سے ہوئی جو ایک مادر زاد ولی اوربلندپایہ صاحب حال صوفی تھے جن کی نگاہ ولایت نے پہلی ہی نظر میں جوہر قابل اور گوہر نایاب کو پہچان لیااور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت فرمالیا ۔ شیخ کامل کی روحانی تو جہات نے سونے پر سہاگہ کاکام کیاچنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کو منازل سلوک طے کرواکر خرقہ خلافت سے نوازاگیا، آپ کی اعلیٰ روحانی استعداد کو دیکھتے ہوئے اندرون وبیرون ملک جلیل القدر مشائخ عظام نے آپ کو مختلف سلاسل طریقت مثلاً قادریہ ، چشتیہ ، سہروردیہ ، شاذلیہ وغیرہاکے فیوض وبرکات اورخرقہ ہائے خلافت سے نوازا۔مزید برآں خطیب الاسلام ابوالکلام حضرت صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ تاجدار آلومہار شریف کی صحبت و رفاقت میں زندگی کی پچیس بہاریں جوگزاریں تو اندرون فطرت میں چھپی صلاحتیں کھل کر سامنے آئیں۔ آپ کی ہمہ جہت عبقری شخصیت کو نکھارنے اور سنوارنے میں قدرت نے کسی بخل سے کام نہ لیا ۔آپ نے عملی طور پر ہر میدان میں حصہ لیااور ہر مقام پر اپنی خدادادصلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔مسند درس و تدریس کی خدمت کرتے ہوئے بڑے بڑے جید علماء وصلحاء پیدا کئے اورہزاروں لوگوں کی تربیت فرمائی ۔
آپ ؒ نے 1980میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کی بنیاد رکھی جس کے تحت نوجوانوں کی علمی وفکری اور نظریاتی تربیت مقصودتھی۔ادارہ کے مقاصد خمسہ میں رضائے ا لہٰی،عشق رسالت مآب ا ،تعلیمات مجددیہ کافروغ،روحانی وفکری تربیت اورفروغ علم شامل ہیں ۔
مارچ 1989ء میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیراہتمام ماہنامہ دعوت تنظیم الاسلام کا اجراء کیاگیاجو بہترین ڈیزائن، طباعت ،اوراق اور خوبصورت تعلیمی و تبلیغی تحریر کی بناء پر اہلسنت کا محبوب ترجمان اوراپنی طرز کا منفرد مجلہ ہے۔مکتوبات کی شرح یقیناًایک مشکل ترین کام تھا کیونکہ مکتوبات امام ربانی کوسمجھنے کیلئے صرف عربی اور فارسی زبان پرعبور اور اصلاحات تصوف کا جان لینا ہی کافی نہیں بلکہ حضرت مجدد الف ثانی کے لامحدود مکشوفات ، حقائق ومعارف کو سمجھنے کے لئے اعلیٰ روحانی استعداد کے ساتھ ساتھ بلندی ء فکرونظر اور علم کسبی کے ساتھ ساتھ علم وہبی کی بھی ضرورت ہے۔آپ نے اس مشکل کام کو بھی سرانجام دے کر علماء کے علاوہ اخص الخواص کوبھی ورطہء حیرت میں مبتلا کردیا ۔البینات شرح مکتوبات کی پہلی چار جلدیں شائع ہوکر مشائخ ،علماء ،دانشوروں اور اہل تصوف وطریقت سے داد تحسین حاصل کرچکی ہیں جبکہ پانچویں جلد پر کام جاری و ساری ہے۔
حسن سیرت کے دریچے سے اگر جھانک کردیکھیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوگی کہ آپ کی ذات جامع الصفات اورمنبع الکمالات تھی۔ حضرت ابو البیان ؒ کی زندگی میں علم و عمل اور اخلاص کا وہ کمال جمع تھا کہ آپ کی حیات طیبہ کو جس زاویہء نگاہ سے بھی دیکھا جائے ، اوصاف حمیدہ کے ستارے چمکتے اور دمکتے ہوئے نظر آئیں گے ۔بلاشبہ آپ حسن تکلم کے بے تاج بادشاہ تھے۔دلائل اس حقیقت پرگواہ ہیں کہ آپ کی خطابت روایتی نہیں بلکہ الہامی تھی جس کو دیکھ کر بڑے بڑے علماء و فضلاء انگشت بدنداں رہ جاتے اور مشائخ سے خوب داد و تحسین نصیب ہوتی ۔ یوں لگتا کہ طلوع شمس کے جلوے ہیں تو کبھی بدرمنیر کی رعنائیاں۔اس دل کشی کی لازمی وجہ یہ ہے کہ محبت رسول145 ان کی فطرت کا اک گراں مایہ عنصر تھی، جہاں دنیا بھر کی محبتیں ایک ہی محبت میں ضم ہوجاتی ہیں اور جہاں جگر کے زخم بھی کیف دینے لگتے ہیں ۔
آپ کی خطابت میں یہ جادو مجمع پر ایسا چلتا کہ رات بیت رہی ہوتی اور آنکھیں بھیگ رہی ہوتیں اور کسی کو وقت کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔آپ محبت رسول سے لبریز جب طویل خطاب بھی کرتے تو سامعین ہمیشہ وقت کی تنگی کے شاکی رہتے ۔یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے حسن خطابت سے خوش ہوکر حضور شیخ الاسلام145 قمر الملت والدین145 حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ تاجدار سیال شریف جیسی عظیم المرتبت شخصیت نے آپ کو ابوالبیان کا شاندار لقب عطا فرمایا جواک ولی کامل کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ہے۔گوجرانوالہ میں مرکزی جامع مسجد نقشبندیہ ماڈل ٹاؤن میں پیر طریقت145 آفتاب چشتیت حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی علیہ الرحمۃ (آستانہ عالیہ سیال شریف)کی صدارت میں شیخ الاسلام کانفرنس منعقد ہوئی ۔قبلہ عالم ابوالبیان علیہ الرحمۃ نے جب اپنا بے مثال مرکزی خطاب فرمایا تو حضرت خواجہ جھوم جھوم گئے145 بار بار کہتے رہے ۔ واہ مجددی صاحب ۔ واہ مجددی صاحب۔۔۔آپ تو واقعی ابوالبیان ہیں بس پھر کیا تھا کہاللہ کے اس ولی کامل کی زبان حق ترجمان سے نکلے ہوئے لفظ آپ کی پہچان بن گئے اور ابوالبیان کا لقب آپ کے نام کے ساتھ جزو لازم بن کر رہ گیا ۔
جملہ سلاسل طریقت کی نسبتوں کے حامل یہ مرد وحیداپنے مشائخ کرام کے تفویض کردہ روحانی وتبلیغی مشن کی تکمیل وتشہیر کے بعد یہ تبلیغی و روحانی نظام اپنے جانشین شیخ طریقت حضرت علامہ صاحبزادہ پیر محمد رفیق احمدمجددی مدظلہٗ کے سپرد فرما کر آخرکار 10،11اگست 2002ء بروز ہفتہ اور اتوارکی درمیانی رات بمطابق یکم جمادی الثانی ۱۴۲۳ھ کو واصل باللہ ہوگئے ۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون
آپ کے وصال باکمال کے بعد آپ کا لگایاہوا چمن اپنی بہاریں روز افزوں بکھیر رہاہے، اس گلستان علم وحکمت کی آبیاری نبیرۂ ابوالبیان پروردۂ آغوش ولایت حضرت علامہ صاحبزادہ پیر محمد رفیق احمد مجددی مدظلہٗ فرمارہے ہیں۔ جانشین ابوالبیان مدظلہٗ ایک بلند پایہ علمی ، فکر ی اورروحانی شخصیت ہیں۔ قدرت نے آپ کو یقین محکم ، عمل پیہم ، بلند ہمتی ، عالی حوصلگی اوروسعت قلب ونظر جیسی گوناگوں صفات سے متصف فرمایاہے۔ آپ کی زیر قیادت عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کا قافلۂ شوق اندرون وبیرون ملک علمی، ادبی ، فکری، تحقیقی ، تصنیفی ، تبلیغی اورروحانی خدمات سرانجام دے رہاہے اور بیسیوں مساجد و مدارس کی تعمیر وتأسیس کا مبارک سلسلہ جاری ہے ۔ یہ مدارس علوم اسلامیہ وعصریہ کا حسین سنگم ہیں جہاں ہزاروں طلباء و طالبات زیور تعلیم وتربیت سے آراستہ ہورہے ہیں ۔ اس طرح آپ کی انتھک کاوشوں سے عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کا دائرۂ عمل وسیع سے وسیع ترہورہاہے۔ الغرض !یہ اللہ رب العزت کا بہت بڑافیضان ہے کہ اس نے اس آستانے کو ایسارفیق عطا کیاہے جنہوں نے صحیح معنوں میں اپنے آپ کو رفیق ابوالبیان ثابت کر دیا ہے۔ دعاہے کہ اللہ رب العزت آپ کو عمر خضر نصیب فرمائے ۔۔۔اس آستاں کو تاقیام قیامت شاد وآباد رکھے اورخلق خداکو اس کی شادابیوں سے بہرہ مند فرمائے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button