عمران خان کا ادھورا ایجنڈا
کالم:- حسن نثار
پاکستان سے لیکر پاکستانیوں تک، عمران خان سے لیکر علیم خان تک، مزدور سے لیکر کسان تک ،سب کو مبارک ہو کہ مینار پاکستان کے وسیع و عریض میدان پر اک نئی داستان لکھ دی گئی۔ جس کا عنوان تھا نیا پاکستان لیکن عمران کا ایجنڈا ادھورا تھا۔ مجھے امید ہے۔ وہ عنقریب اس ادھورے ایجنڈے کی دوسری قسط بھی ضرور پیش کرے گا۔ عمران نے کچھ باتیں ذرا تفصیل سے پیش کیں، کچھ کو صرف چھو کر گزر گیا اور کچھ موضوعات کو چھوا اور چھیڑا تک نہیں۔ مثلاً پیر مورخہ 30اپریل ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں عائشہ بخش کا یہ سوال پاکستان کی موجودہ صورتحال کے حوالہ سے اہم ترین سوالوں میں سے ایک ہے۔ غور فرمائیے، عمران نہیں تو کون عائشہ بخش کے اس سوال کا جواب دے گا۔ عائشہ نے پوچھا—–’’پاکستان کی آبادی کا 64فیصد 29سال سے کم عمر ہے۔ ہر 100میں سے 6نوجوان بارہ جماعت پاس ہیں اور ہر 100میں سے 61نوجوان بے روزگار ہیں۔ نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے ان اعداد و شمار کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی نوجوان ملک کیلئے اثاثہ ہیں یا بوجھ؟‘‘ رپورٹ کارڈ کی ڈریم ٹیم نے خوب سے خوب تر جواب دیئے۔ سوال سن کر میرا بلڈ پریشر کچھ زیادہ ہی شوٹ کر گیا تھا۔ میں نے جو عرض کیا اس کا خلاصہ یہ تھا—-’’زندگی میں کوئی بھی شے نہ بوجھ ہوتی ہے نہ اثاثہ مثلاً پانی اور آگ انسان کیلئے
فیصلہ کن قوتیں ہیں۔ جو بہترین اثاثہ بھی ہیں اور بد ترین بوجھ بھی۔ بیک وقت زندگی بھی ہیں اور موت بھی۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پانی اور آگ سے بہتر غلام کوئی نہیں اور اگر ان قوتوں کو ٹھیک سے ہینڈل نہ کر پائیں تو ان سے بد تر بھیانک ظالم آقا کوئی نہیں۔ موجودہ حالات ہماری آبادی کا یہ 64فیصد حصہ، یہ نوجوان، یہ یوتھ اس ملک کیلئے سوائے بوجھ کے اور کچھ بھی نہیں‘‘ میں اور بہت کچھ کہہ سکتا تھا لیکن اختصار پسند آدمی ہوں۔ نہ لمبا لکھتا ہوں نہ بولتا ہوں لیکن عمران خان جو یوتھ کا ہیرو ہے۔ اسے اس سوال پر کھل کر بولنا چاہئے تھا کہ یہ ملکی آبادی کے 64فیصد کا مسئلہ نہیں، عذاب عظیم ہے اور یہاں یہ بھی یاد دلائوں کہ بے روزگاری اور بے کاری دو علیحدہ قسم کے عذاب اور اذیتیں ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے ہولناک اثرات ہوتے ہیں۔ بے روزگاری کچھ اور بیکاری کچھ اور قسم کا دکھ ہے۔عمران خان کو بے لگام بڑھتی ہوئی آبادی کے خاموش اور خطرناک ترین طوفان پر بھی زبان کھولنی چاہئے کیونکہ چپڑ قناتیئے بوجوہ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ہم مسلمان وہ لوگ ہیں۔ جن کی بنیادی تعلیمات اور ہدایات میں اعتدال اور میانہ روی بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ عبادات میں بھی اعتدال کا حکم ہے۔ تو بھوکے ننگے مقروض ترین ملک میں آبادی کے حوالہ سے اعتدال کیوں نہیں؟ بالخصوص اک ایسے دور میں جہاں تعداد نہیں استعداد فیصلہ کن ہے۔ یہ اکثریت نہیں اہلیت کا زمانہ ہے تو کیا یہ بات نواز قوم کو سمجھائے گا یا زرداری؟ یہ عمران کی ذمہ داری ہے کہ ہر بڑا لیڈر ٹیچر ہوتا ہے اور ہمارے باقی ’’لیڈر‘‘ تو ایسے انڈوں کی مانند ہیں جن کا آملیٹ تو بنایا جا سکتا ہے، ان کے اندر سے چوزہ کبھی برآمد نہیں ہو سکتا، یہ ایسی بانجھ اور بنجر زمینوں جیسے ہیں۔ جن میں زہریلے کانٹوں کی جھاڑیاں تو اُگ سکتی ہیں، فصل کبھی نہیں اُگ سکتی۔عمران مقبولیت اور قبولیت کے مرحلے سے تو گزر چکا۔ اب اس سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے کہ عوام کو موٹی ویٹ، موبلائز اور ایجوکیٹ کرے کہ یہی اصل کام ہے۔ ووٹ تو للو پنجو بھی لے لیتے ہیں۔ وزیراعظم تو نواز شریف اور عباسی بھی ہو جاتے ہیں۔کیا عمران نہیں جانتا کہ ہماری جیلیں جرائم کی مائیں ہیں۔ لاکھوں پاکستانی وہاں جیتے جی مر رہے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ جیل بنیادی طور پر سزا نہیں اصلاح کیلئے ہوتی ہے۔اس کی تفصیل ذرا کھل کر بیان کرو عمران خان ! کہ تمہاری اقتصادی پالیسیز ’’پرومافیاز‘‘ نہیں —— ’’پرو عوام‘‘ ہوں گی۔ تم عوامی مقامی حکومتوں کو چھیڑ کر گزر گئے۔ کھل کر عہد کرو کہ یہی حکومتیں طاقت کا سرچشمہ ہوں گی اور تھانہ کلچر میں حقیقی تبدیلی کیلئے جرائم کی تفتیش ’’چھتر‘‘ نہیں جدید سائینسی، تکنیکی، نفسیاتی طریقوں سے ہو گی تاکہ جبر، دھونس، دھاندلی، بدمعاشی کی بیخ کنی ہو سکے۔عدالتی اصلاحات کی تفصیلات سے افتادگان خاک کو آگاہ کرو۔ تباہ حال سول سروسز بارے لوگوں کو بتائو کہ پبلک سرونٹ کو کس طرح پرسنل سرونٹس میں تبدیل کیا گیا کہ آج کوئی قابل بچہ اس کے بارے میں سوچنا بھی پسند نہیں کرتا۔سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں کلینیکل آڈٹ کا نظام کیسے متعارف ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ وغیر ہ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں؟اپنا ادھورا ایجنڈا پورا کرو۔
بشکریہ روزنامہ جنگ