کالم,انٹرویو

تاریخ مسخ کر دینے والے

کالم:- نجم ولی خان
کہتے ہیں کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے لیکن تاریخ سے سبق سیکھنے سے پہلے اسے تسلیم کرنا کہیں زیادہ ضروری ہے۔ چند دنوں میں دو کام اکٹھے ہوئے کہ میں نے بھارت کی بنائی ہوئی متنازعہ فلم پدماوتی اور اس کے ساتھ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے کچھ ٹوئیٹس دیکھے ۔ یہ دونوں اپنے موضوعات میں بالکل مختلف ہیں مگر ان دونوں نے میرے سامنے تاریخ کے حوالے سے کئی سوال پیدا کر دئیے۔ مجھے یہ المیہ لگاکہ ہم سب اپنی اپنی تاریخ لکھتے ہیں اور جب ایک نسل کے ذہن میں تاریخ کے نا م پرجھوٹ ڈال دیتے ہیں تووہ اس سے اگلی نسل کے لئے ایک روایت اورناقابل تردید حقیقت بن جاتا ہے۔
مجھے پہلے پدماوت پر بات کرنی ہے،یہ سولہویں صدی عیسوی میں لکھا گیا اودھی زبان کا پہلا رزمیہ ہے جو ملک محمد جائسی نے لکھا، اس کی تاریخی حیثیت متنازعہ ہے مگر اسے راجپوتوں کے ہاں ایک خاص قسم کا تقدس حاصل ہے۔ یہ چودہویں صدی کے آغاز میں چتوڑ کے راجپوت راجا رتن سین اور رانی پدمنی کی محبت کا قصہ ہے ، یہ علاوالدین خلجی کے پدماوتی کے عشق میں مبتلا ہونے کی ایسی داستان ہے جس کی کوئی غیر جانبدارمحقق تصدیق نہیں کرتا۔ اس قصے کو ملک محمد جائسی کے بعد غلام علی عشرت، غلام علی دکھنی، دیپک پتنگ عشرتی اور ضیاء الدین عبرت وغیرہ نے بھی تحریر کیا، ہمیں اس کے ستارہویں صدی سے ہی اردو اور فارسی نسخے بھی ملنے شروع ہوجاتے ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں بہت سارے محققین چتوڑ کی فتح کو مقامی بغاوتوں کانتیجہ قرار دیتے ہیں وہاں وہ علاوالدین خلجی کے پدماوتی کے عشق کی باقاعدہ نفی کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر علاوالدین کی کسی جنگی مہم میں عشقیہ عنصر کارفرما ہوتا تو امیر خسرو اسے ضرور بیان کرتے دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علاوالدین خلجی کے دورمیں چتوڑ میں ششودھیا خاندان برسراقتدار تھا، بہرحال، یہ ایک کہانی ہے جس کی حمایت اور مخالفت میں ہمیں دلائل مل سکتے ہیں۔ بھارتی فلم پدماوتی کے ریلیز ہوتے ہی جب انتہا پسند ہندو احتجاج کررہے اور سینما گھر جلا رہے تو ا س وقت بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ اس فلم میں اصل زیادتی پدماوتی اور راجپوتوں کے ساتھ نہیں بلکہ علاوالدین خلجی اور مسلمانوں کے ساتھ کی گئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ برصغیر پاک و ہند کی نئی نسل انگریزی میڈیم ہو چکی، اس کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ تاریخی حوالے ڈھونڈتی پھرے، وہ تفریح کے لئے فلم دیکھتی اور اسی سے تاریخ کا گیان بھی حاصل کرتی ہے۔ یہ فلم گیان دیتی ہے کہ مسلمان کہلانے والا ہندوستان کا بادشاہ نہ صرف ایک جنسی جنونی تھابلکہ وہ ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں سے آزاد ،اپنے رب کے احکام کا مذاق اڑانے والا بھی تھا جبکہ اس کے مقابلے میں چتوڑ کے راجپوت اعلیٰ روایات کے حامل تھے۔
میں نے کہا کہ تاریخ کو برے طریقے سے مسخ کیا جاتا ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے موجودہ دور کے ایک تاریخ دان بھی محض توجہ حاصل کرنے کے لئے جس قسم کی نامبارک اور شرمناک تاریخ ہمارے سامنے رکھ رہے ہیں وہ ایک الگ المیہ ہے۔ ہماری تاریخ بہت سارے سرداروں اور نوابوں کے حوالے سے شاندار نہیں ہے تو دوسری طرف ہمارا دامن آزادی کی خواہش اور ا س کے لئے دیوانہ وار قربانیاں دینے والوں سے بھی بھرا ہوا ہے۔ ہماری تاریخ کو پہلے انگریز نے اپنے حکومتی اور معاشرتی مفاد میں مسخ کیا اور اب انگریز تاریخ دانوں کے ترجموں سے کچھ ہمارے اپنے بھی گناہ جاریہ میں مصروف ہیں۔ میں برصغیر کی تقسیم کے عمل سے تاریخ کو پڑھائے جانے کو دیکھتا ہوں تو میرا دل دُکھ اور درد سے پھٹنے لگتا ہے۔ ہندوستان میں تاریخ کو پڑھائے جانے کا انداز اور مقصد پاکستان میں پڑھائے جانے کے انداز اور مقصد سے بالکل جدا ہے۔ مجھے یہ المیہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش میں بھی شدت کے ساتھ رونما ہوتا ہوا دکھا ئی دیاہے۔ کئی برس پہلے مطالعاتی دورے پر آئے ہوئے کچھ بنگالی طالب علموں سے ملاقات ہوئی، ان کے پاس تاریخ ایک ایسی صورت میں تھی جس میں ہمارا منہ بہت زیادہ کالا تھا۔علاوالدین خلجی کے بارے کہہ دوں اگر وہ کوئی مثالی حکمران نہیں تھا تو برا بھی ہرگز نہیں تھا۔ تاریخ دان اس سے بہت سارے اچھے اقدامات منسوب کرتے ہیں۔ بہت سارے محققین مانتے ہیں کہ پدماوتی کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا اور دوسرے یہ کہ انسان سلطنتیں سنبھالتا ہے یا پھر وہ عشق کرتا ہے۔ عشق کے لئے برسوں محاصرے کرنے والے کبھی حکومتیں نہیں چلا سکتے، ان کی سرحدیں نہیں بڑھا سکتے۔
انہوں نے لکھا، ’ میں ا پنی سیاسی جدوجہد کے صبر آزما بائیس برسوں کے دوران تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سیاسی جہد مسلسل کے ان بائیس برسوں کے دوران تحریک انصاف حزب مخالف کے ان کٹھن ترین مراحل سے گزری جس کا ہماری سیاسی تاریخ میں کسی جماعت کو سامنا نہیں رہا‘ انہوں نے کہا، ’ ہماری جدوجہد کامیاب ہوچکی ہے کیونکہ تحریک انصاف نے سٹیٹس کو کی جماعتوں کاحصار ہی نہیں توڑا بلکہ یہ قوم کو عدل و انصاف،انسداد بدعنوانی اور تعمیر انسانیت کے ایجنڈے پر متحرک کرنے میں بھی کامیاب رہی۔۔‘۔ مجھے کہنا ہے کہ عمران خان صاحب کو اپنے ساتھ کھڑے رہنے والوں کو مبارک باد دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کا پورا حق ہے مگرانہیں ایوب خان کے بعدذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں حزب اختلاف کی عظیم الشان جدوجہد کرنے والوں کی قربانیوں کا رنگ پھیکا کرنے کا کوئی اختیار نہیں، ا س پراصولی اور نظریاتی بنیادوں پر باقاعدہ احتجاج ہونا چاہئے۔ عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو ادراک نہیں ہو سکتاکہ سیاسی جدوجہد میں جیلیں، کوڑے، تشدد، جلاوطنیاں اور پھانسیاں برداشت کرنے والے کس عزم اور حوصلے کے مالک تھے۔ نوے کی دہائی کے وسط کے بعد جب انہوں نے سیاست شروع کی تو وہ ایک جمہوری دور تھا اور انہیں اپنی بات کہنے کی مکمل آزادی تھی، افسوس، جب مارشل لاء لگا تو وہ کسی اعلیٰ جمہوری اور سیاسی کردار کا مظاہرہ کرنے کی بجائے آمر کو اس کے جعلی ریفرنڈم میں کامیاب کروا رہے تھے۔
میں سیاسی جدوجہد کے درمیان تحریک انصاف کے قائد کی ذاتی زندگی کو ڈسکس نہیں کرنا چاہتا مگر اعتراض کرنے والے اپنی بات میں وزن رکھتے ہیں کہ انہوں نے جو اپوزیشن کی، جس قسم کے دھرنے دئیے گئے اور جس قسم کی فوٹیجز ٹی وی چینلوں پر چلائی اور دکھائی جاتی رہیں، اس اپوزیشن کو سنگین تو نہیں البتہ رنگین ضرور کہا جا سکتا ہے۔میرے نقطہ نظر کے مطابق عمران خان صاحب نے اپنی تعریف کی آڑ میں ہماری سیاسی اور جمہوری تاریخ کے کرداروں اور قربانیوں کی توہین کی ہے۔آہ، میری خواہش اپنی جگہ مگر تاریخ کی تنسیخ اور توہین پر کیا احتجاج ہوکہ ہمارے مفاد پرستوں نے ہمارے حال اور مستقبل کو متنازعہ بنا رکھا ہے جو اول الذکر سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button