کالم,انٹرویو

سیاست اور عدالت

کالم :- افتخار احمد
جمہوریت عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کر نے کا نام ہے، لیکن کیا عوام کا یہ حق کسی بھی قدغن سے آزاد ہے؟ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو آئین کا آرٹیکل باسٹھ عوامی نمائندگی کے لئے بنیادی اہلیت کوبیان کرتا ہے۔ کوئی بھی شخص اس پر پورا اترے بغیر کسی بھی ایوان کا نمائندہ بننے کا اہل نہیں ہوتا۔ پچھلے چند سالوں میں اس آرٹیکل کی بنیادپر عدالتوں نے مختلف سیاسی شخصیات کو اسمبلی کی رکنیت سے محروم کر دیا۔ اب تک حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف ، پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین اور ن لیگ کے خواجہ آصف اس شق کی زد میں آئے ہیں ۔ لیکن یہ سلسلہ یہاں رکتانظر نہیں آرہا،سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانامہ کیس میں فیصلے سے ایک ایسی قانونی مثال قائم کر دی گئی ہے جس کو بہرحال آنے والے وقتوں میں بھی استعمال کیا جائے گا۔
بہت سے افراد کے نزدیک عدالتوں کی جانب سے کسی بھی مقبول سیاسی رہنما کی نا اہلی ، جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس مکتب فکر کے لوگوں کے نزدیک جمہوری نظام میں پارلیمنٹ میں جانے اور اس سے نکالے جانے کا راستہ صرف اور صرف عوام سے ہو کر گزرتا ہے۔ان کے نزدیک عوامی رہنمائوں کی اہلیت کا فیصلہ پولنگ اسٹیشن کے بیلٹ بکسوں سے نکلنے والی پرچیاں کرتی ہیں، عدالتی فیصلےنہیں۔عوام کا انہیں منتخب یا مسترد کرنا ہی ان کی جوابدہی ہے اور اس میں کسی دوسرے کے عمل دخل کی گنجائش نہیں ہے۔
یہ بات کرتے ہوئے میرے دوست شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری عمل انیس سو تہترکے آئین کے تحت چلتا ہے۔ اسی آئین کے آرٹیکل باسٹھ میں پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لئے صادق اور امین ہونے کی ایک شرط رکھی گئی ہے۔ یہ شرط کسی عدالتی فیصلے کے ذریعے آئین کا حصہ نہیں بنائی گئی۔ اسے قانون کا حصہ بنانے والے بھی عوامی نمائندے ہی تھے۔ کیا اس وقت قانون بنانے والے ممبران اسمبلی عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کر رہے تھے؟ چلیں، میں مان لیتا ہوں کہ باسٹھ اور تریسٹھ میں بہت سی ترامیم ایک ایسے دور میں کی گئیں جس میں ملک پر ایک باوردی صدر کی حکمرانی تھی۔ میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ اسی باوردی صدر کے دبائو میں آکر اراکین اسمبلی نے یہ ترامیم پاس کردیں۔ لیکن اس باوردی صدر کو گئے ہوئے بھی تیس سال ہونے کو ہیں، اس تمام عرصے میں کسی سیاستدان نے ان آرٹیکلز میں ترمیم کا کیوں نہیں سوچا؟ جب پیپلز پارٹی کے دور حکومت میںاٹھارویں ترمیم کے ذریعے مارشل لادور کی بہت سے ترامیم کو آئین سے نکالا گیا تو یہ دونوں آرٹیکلز اپنی پرانی شکل میں بحال کیوں نہ ہو سکے؟
جب پیپلز پارٹی سمیت ملک کی دیگر جماعتیں آئین کے آرٹیکلز باسٹھ اور تریسٹھ کو اصل شکل میں بحال کرنا چاہتی تھیں، تو وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مسلم لیگ ن کو اس سلسلے میں رضامند نہ ہونے پر مجبور کیا؟ کیا اس کے پیچھے بھی کوئی خفیہ ہاتھ تھے یا پھر مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے اس امید پر ان آرٹیکلز کو چھیڑنے سے انکار کر دیا کہ مستقبل میں یہ آرٹیکل ان کے سیاسی مخالفین کا راستہ روکنے کے کام آئیں گے؟ بقول میرے دوست امتیاز عالم کے، سیاستدان کچے پہلوان میدان میں اتار کر خود جمہوریت سے دشمنی کرتے ہیں۔ یعنی جب ان کے پاس موقع ہوتا ہے تو وقتی سیاسی فائدے کی خاطر ایسے فیصلے کرتے ہیں جن پر بعد میں جی بھر کے پشیمان ہوتے ہیں۔ جب تک انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تب تک پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔
پانامہ کیس کوئی پہلا واقعہ نہیں جب سیاستدان اپنے جھگڑوں کو عدالت کے در پر لے کر گئے۔ اس سے قبل بھی سیاستدان اپنے مخالفین کو عدالتی فیصلوں کی مدد سے زیر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، لیکن پانامہ کیس کے فیصلے نے جو مثال قائم کی ہے اس کے بعد مستقبل کی سیاست عدالتوں کے ذریعے ہی ہوتی نظر آرہی ہے۔ جب تک باسٹھ اور تریسٹھ موجودہ شکل میں آئین کا حصہ رہیں گی سیاستدان اپنے مخالفین کو نااہل کروانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ان آرٹیکلز کی جو تشریح سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کی ہے (جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں فالو کیا) اس سے آنے والے دنوں میں ایک نیا پینڈورا باکس کھل جائے گا۔ پہلے ہی انتخابی عذرداریوں کے فیصلے کئی کئی سال تک نہیں ہو پاتے، اب تو ہر ہارنے والا امیدوار جیتنے والے امیدوار کے کاغذات لے کر بیٹھ جائے گا۔ویسے بھی پاکستان میں سیاستدان جس قسم کے گوشوارے الیکشن کمیشن کو جمع کرواتے ہیں ان میں بد نیتی اورمس ڈکلیئریشن ڈھونڈنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں ہوگی ۔عین ممکن ہے کہ ایک حلقے میں ایک اسمبلی کی مدت میں ہی چار پانچ بار انتخاب کروانا پڑجائے۔
میں اس بات کا حامی ہوں کہ سیاست میںموجود کرپٹ افراد کی نہ صرف نشاندہی ہونی چاہئے بلکہ ان کے خلاف کرپشن اور ناجائز اثاثے بنانے کے الزامات کی تفتیش کر نے کے بعد ان کو خاطر خواہ سزا بھی ملنی چاہئے۔ جو افراد سیاست کاسہارالے کر اپنے اثاثوں میں اضافہ کرتے ہیں ان کو الزام ثابت ہونے پر عمر بھر کے لئے نا اہل قرار دیا جانا چاہئے۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ابھی تک جن تین سیاسی رہنمائوں کو آرٹیکل باسٹھ کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے ان کے خلاف کسی بھی کرپشن کو تاحال عدالتو ں میں ثابت نہیں کیا جا سکا، جبکہ بہت سے جانے پہچانے کرپٹ افراد ابھی بھی اسمبلیوں کے رکن ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button