رنگ برنگ

یہ شخص روز میرے گھر آتا اور ملازمہ کو دکان سے چیز لینے کیلئے بھیج دیتا اور……

نئی دلی(نیوز ڈیسک)بدقسمتی کی بات ہے کہ جنسی درندگی کے واقعات اب معاشرے میں بہت عام ہو چکے ہیں۔ اس بھیانک جرم کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ کمسن بچوں کو بڑے پیمانے پر ہوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ المیہ دیکھئے کہ یہ بچے ظلم بھی سہتے ہیں اور خاموش رہنے پر بھی مجبور ہیں، مگر کیوں؟ کیونکہ ہم نے بطور معاشرہ ان بچوں کو خاموش رہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اس لڑکی کی دردناک کہانی سنئے، جسے کمسنی میں ایک ایسے شخص نے بارہا زیادتی کا نشانہ بنایا جسے وہ اپنا انکل سمجھتی تھی، اور فیصلہ کیجئے کہ کیا بچوں پر ہونے والے ظلم کے لئے ہم بطور معاشرہ ذمہ دار نہیں ہیں؟
اخبار ٹائمز آف انڈیا کے خصوصی مضمون میں یہ لڑکی اپنی زندگی کی المناک کہانی بتاتے ہوئے لکھتی ہے کہ’’ تین دہائیاں گزرگئیں جب میں نے اسے آخری بار دیکھا، لیکن آج بھی مجھے اس کا چہرہ یاد ہے اور جو کچھ اس نے میرے ساتھ کیا وہ بھی یاد ہے۔ میں ان تلخ یادوں کو بھلانے کی جتنی کوشش کرتی ہوں اتنی ہی زیادہ شدت سے وہ میرے دماغ میں گونجتی ہیں۔ کبھی میں خود کو موردالزام ٹھہراتی ہوں تو کبھی سوچتی ہوں کہ 6 سال کی بچی کے بس میں تھا ہی کیا۔
وہ ایک فیملی فرینڈ تھا لہذا اسے ہمارے گھر آنے کیلئے کسی کی اجازت ضرورت نہیں تھی۔ وہ ایسے اوقات کا انتخاب کرتا جب میرے والدین دفتر میں ہوتے تھے۔ ملازمہ کو قریبی دکان سے کوئی چیز لینے بھیج دیتا اور پھر کارٹون دکھانے کے بہانے مجھے گود میں لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتا۔ وہ ٹی وی کی آواز بلند کر دیتا تھا اور پھر میرے ساتھ جو کچھ کرتا تھا میں کبھی کسی کو بتا نہیں پائی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اسے کیسے روک سکتی ہوں۔
دو سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس دوران کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا کہ وہ کیا کررہاتھا۔ میں نے کبھی کسی کچھ نہیں بتایا تھا۔ مجھے کسی نے گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں نہیں بتایا تھا اور نہ ہی کبھی کسی نے یہ سکھایا کہ اگر کوئی آپ کو غلط انداز میں چھوئے تو آپ نے آواز بلند کرنی ہے اور اپنے والدین کو بتانا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اکثر اس کے آنے سے قبل ہی میرے ذہن پر اس کی دہشت مسلط ہو جاتی تھی۔ میں اس کے ظلم کو سہتی تھی لیکن خاموش رہنے پر مجبور تھی کیونکہ میں فیصلہ نہیں کرپاتی تھی کہ اگر میں نے کسی کو بتایا تو میری بات پر یقین کیا جائے گا یا اس کی بات پر۔
کاش میرے والدین نے کبھی مجھ سے کھل کر بات کی ہوتی، کبھی مجھے اعتماد دیا ہوتا کہ میں اپنی ہر بات ان سے کہہ سکتی ہوں۔ کاش کبھی انہوں نے مجھے یقین دلایا ہوتا کہ وہ صرف میری بات پر ہی یقین کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button