فیس بک نے انسانی تسخیر کے خواب کو حقیقت بنا دیا
کالم:- منور علی شاہد
اکیسویں صدی کو اگر مارک زکر برگ اور جین کی صدی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ان دو افراد نے کرہ زمین پر بسنے والے انسانوں کو بغیر ہتھیاروں کے جس طرح تسخیر کیا ہے اس کی مثال نہ ماضی میں ملتی ہے اور نہ مستقبل میں ملے گی۔دو ایسے نوجوانوں نے محض اپنی ذہانت اور جدوجہد سے وہ کام کر دکھایا جو ہزاروں برس سے ماضی و حال کے بادشاہ اور حکومتیں جنگ و جدل اور انسانی خون کے دریا بہا کر بھی نہ کر پائی تھیں اور وہ انسانوں کو تسخیرکرنے کا خواب تھا۔ہلاکو خان، سکندر اعظم ایسی ہی خواہشوں کی بدترین مثالیں ہیں۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینارکھڑے کردینے اور انسانی آبادیوں کو ویران کر دینے کے باوجود انسانی تسخیر کے ان کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔زمانہ ماضی قریب میں جنگ عظیم اول اور دوم بھی ایسی ہی شیطانی خواہشوں کا شاخشانہ تھا۔لیکن اکیسویں صدی کے آغاز میں ٹیکنالوجی کے جس دور کا آغاز ہوا تو اس کے چند سالوں کے اندر اندر ہی وہ پرانے خواب حقیقت کا روپ بدلنے لگے جو ماضی میں صرف خواب ہی رہے لیکن فرق صرف یہ تھا کہ پہلے ایسے خواب بادشاہوں اور حکومتوں نے دیکھے تھے لیکن اب وہی کام محض دو معمولی افراد نے کر دکھایا اور ان میں بھی ایک وہ تھا جس کی ابتدائی زندگی انتہائی غربت اور دوسروں کے روٹی کے ٹکروں پر بسر ہوتی تھی۔یہ دو افراد مارک زکر برگ اور جین ہیں، ایک فیس بک کا بانی ہے اور دوسرا واٹس اپ ایپ کا، دونوں ہی اب تک نصف سے زائد دنیا پر قبضہ کر چکے ہیں اور بغیر قتل و غارت کئے نہ صرف انسانی زندگی پر قابض ہو چکے ہیں بلکہ سب کو اپنی انگلیوں پر نچا بھی رہے ہیں۔ خاندانی اور معاشرتی طرز زندگی میں بھی انقلاب برپا کردیا ہے۔تمام مذاہب کے ماننے والے خواہ وہ کسی مقدس ملک میں رہتے ہوں یا بنکاک، فلوریڈا میں، وہ اس کی مکمل گرفت میں آچکے ہیں، کیا نوجوان اور کیا بوڑھا، کیا غریب اور کیا امیر سبھی ان دو افراد کی ذہنی تخلیق کی نئی دنیا کے باسی بن چکے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کی تسخیر کے ساتھ ساتھ دنیا کی دولت بھی ان ککے گھر کی لونڈی بن چکی ہے ور دنیا کے امیر ترین افراد کے اعزازات کے میڈل ان کے گلوں میں لٹک رہے ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم مارک زکربرگ نے یونیورسٹی کے دوست طالب علموں کے ساتھ روابط کے لئے جو اچھوتا خیال تخلیق کیا تھا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے لوگوں کو یرغمال بنا لیا۔اس کا بنیادی مقصد لوگوں کے درمیان جان پہچان پیدا کرنا اور روابط کو بڑہانا تھا لیکن اب یہ اپنے بنیادی مقصد کے پیچھے چھوڑتے ہوئے سماجی،معاشی،اقتصادی،اور کاروبار کی دنیا میں ایک ایسا تغیر پیدا کر چکی ہے جس کا اندازہ شاید پہلے خود اس کے بانی کو بھی نہ ہوگا۔خاندانی نظام توڑ پھوڑ کا شکار ہوگیا ہے۔خونی رشتے پامال ہونے لگے ہیں، ایک ہی چھت تلے رہنے کے باوجود لاتعلقی بڑھنے لگی ہیں زندگی فرد واحد تک محدود ہونے لگی ہے
2001 میں وکی پیڈیا ویب سائٹ کا آغاز ہوا، یہ اکیسویں صدی کا پہلا سال تھا۔2003میں انٹرنیٹ پر تفریح کے پروگراموں کا آغاز ہوا اور آئی ٹون ایپل کے ذریعے گانے لوڈ ہونے لگے،2004 میں جی میل ایسی جدید ترین اور آج کی مقبول ترین ڈیٹا سٹوریج کی ایپ لاؤنج ہوئی اور اس وقت ایک جی بی سٹوریج کی صلاحیت پر لوگ چھلانگے مار رہے تھے جبکہ اس کے بالمقابل یاہو اور ہوٹ میل صرف دو یا چار ایم بی کی سٹوریج مہیا کرتے تھے۔2006کا سال تسخیر انسانی کا سال تھا اور اسی سال فیس بک کی ابتداء ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے انسانی زندگی کے اندر ایسا انقلاب برپا کردیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔اس ایجاد نے دنیا کے تمام انسانوں کو بلا امتیاز مذہب،رنگ و نسل ملک و قوم کے تسخیر کیا ہے اور بغیر انسانی خون بہائے۔دسمبر2017تک دنیا کی کل آبادی کے دو اشاریہ تیرہ بلین فیصد لوگ روزانہ فیس بک کا استعمال کر رہے ہیں اور یہ کل آبادی کا چودہ فیصد حصہ ہے اور اس میں ماہانہ کی بنیاد پر مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اشاریہ پندرہ فیصد بلین موبائل روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہو رہا ہے اسی وجہ سے موبائلز کی کمپنیوں اور کاروبار میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے یورپ میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد307ملین ہے جس میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور ہر ایک سیکنڈ میں پانچ نئے پروفائلز کھلتے ہیں۔
فیس بک استعمال کرنے والوں میں خواتین کی تعداد 76% اور مردوں کی66% ہے۔ فیس بک استعمال کرنے والوں میں بچیس سے چونتیس سال تک کی عمر کے لوگ ہیں جو کل دنیا کی آبادی کا 29.7فیصد ہیں اور سب سے زیادہ فیس بک رات کے پچھلے پہر ایک سے تین بجے کے درمیان استعمال کیا جاتا ہے ہر جمعرات اور جمعہ کے دنوں میں فیس بک کے ستعمال میں % 18 اضافہ ہوتا ہے۔ اور روزانہ 300 سو ملین تصاویر اپ لوڈ ہوتی ہیں اور کم از کم بیس منٹ روزانہ ہراستعمال کنندہ فیس بک پر صرف کرتا ہے۔ ہر ساٹھ سیکنڈ میں 510,000 فیس بک پر لوگ کمنٹس پوسٹ کرتے ہیں جبکہ293,000 سٹیٹس اپ لوڈ کئے جاتے ہیں،136,000فوٹوز ایک منٹ میں اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔اس سماجی سائٹ نے انسانی زندگی اور خصوصا نوجوانوں کی طرز زندگی پر کس قدر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اس کا اندازہ ان اعدادو شمار سے لگایا جا سکتا ہے 18سے24سال کی عمر کے نوجوانوں کی نصف سے زائد تعداد صبح جاگتے ہی سب سے پہلے فیس بک پر حاضر ہوتے ہیں جس سے یہ اندازی لگانا مشکل نہیں کہ فیس بک ان کے لئے کتنی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔فیس بک نے جہاں انسانی زندگی پر غیر معمولی اثرات مرتب کئے ہیں وہاں معاشی اور کاروبار کی دنیا میں بھی انقلاب برپا کیا ہے آئی ٹی کی صنعت میں بھونچال سی کیفیت برپا ہے ایک رپورٹ کے مطابق42 فیصد مارکیٹ کے تاجروں نے بتایا ہے کہ فیس بک ان کے کاروبار کے لئے ناگزیر ہے اور اس کی وجہ سے ان کے کاروبار میں وسعت پیدا ہو رہی ہے اور معاشی استحکام پیدا ہو رہا ہے اور سولہ ملین لوگوں نے فیس بک پر اپنے کاروباری صفحات کھول کر اپنے کاروبار کو وسعت دے رہے ہیں اور کم سے کم وقت میں ناقابل یقین تعداد لوگوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں یہ اعدادو شمار ایک ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے وابستہ ادارے کی رپورٹ کے ہیں جو سماجی ویب سائٹس پر تحقیق کرتا ہے۔راتوں رات امیر بننے کی کہاوت کو
حقیقت کا روپ دینے والے مارک زکر برگ کا گزشتہ سال2017 کا خالص منافع سولہ ارب ڈالر تھا باوجود گزشتہ برس اضافی ٹیکسوں اور نئے ملازمین کی بھرتی کے، 2016 کی نسبت56فیصد زیادہ منافع ہوا تھا۔ کیلی فورنیا امریکہ جہاں فیس بک کا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں سے ہر سہہ ماہی ایک رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس میں مالی اور صارفین سے متعلق تازہ ترین اعدادو شمار دیگر معلومات بتائی جاتی ہیں۔بہت
سے ممالک میں اس سماجی سائٹ نے حکومتوں اور خصوصا اسلامی دانشوروں کو مشکل میں ڈال دیا ہوا ہے پاکستان میں جسٹس شوکت صدیقی کے لئے یہ سائٹ ڈراونے خواب کی مانند ہے اور طرح طرح کی پابندیاں لگانے کے باوجود ان کو سکون کی نیند نہیں آتی۔چین اب تک تیرہ ہزار سے زائد ویب سائٹس کو بند یا منسوخ کر چکا ہے لیکن پھر بھی اس کے کلچر کو شدید خطرات لاحق ہیں اسی لئے نظریاتی ممالک میں پابندیوں کے ذریعے فرد واحد کی تخلیقی جن کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے متعدد اسلامی ممالک میں واٹس اپ سمیت دیگر سائٹس پر مکمل پابندی ہے چین ایسے ملک میں بھی سماجی ویب سائٹس کو پابندیوں کا سامنا ہے لیکن اس کی مقبولیت سب سرحدیں توڑ رہی ہے