عاصمہ جہانگیر کی وفات سے دنیا ایک انسان دوست شخصیت سے محروم ہو گئی ہے
منور علی شاہد بیورو چیف جرمنی۔
برلن کی معروف ادبی تنظیم ’بزم ادب ‘کے زیر اہتمام عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ محفل مذاکرہ میں شرکاء نے ان کی وفات پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا اور اس کو انسانی حقوق کی تحریک کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ ادب ، سیاست ، مذہب، صحافت ، بزنس ، اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے برلن میں مقیم پاکستانیوں نے عاصمہ جہانگیر کی ملکی اور عالمی خدمات کو سراہا اور ان کی غیر معمولی جدوجہد اور کردار کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اوران کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔ بزم ادب کے صدر سید علی حیدر نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد کہا کہ عاصمہ جہانگیر نے پاکستان میں انسانی حقوق کی جدوجہد میں بہت تکالیف اٹھائیں، دھمکیوں کا سامنا کیس جیل تک گئیں ان کو پاکستان سے بھگانے کی بھی کوششیں کی گئیں لیکن وہ مرتے د تک پاکستان میں رہیں جو ان کی وطن سے وفا کا ثبوت ہے،پاکستان میں لوگوں کے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔تقریب کے مہمان خصوصی اور خصوصی طور پر فرینکفرٹ سے آنے والے انسانی حقوق کے کارکن و جرمنی میں روزنامہ مشرق کے نمائندہ منور علی شاہد نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ ان پر لکھنے اور بولنے والے کے لئے بہت دشوار ہو جا تا ہے کہ وہ ان کی پوری شخصیت کا احاطہ کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ عاصمہ جہانگیر اپنی جدوجہد کے باعث اسی طرح زندہ رہیں گی جس طرح مارٹن لوتھر جو نیئر اور نیلسن میڈیلا زندہ ہیں جنہوں نے نسلی تفریق اور امتیاز کے خلاف کامیاب جدوجہد کی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کی وفات کے بعد ہمیں ان کی جدوجہد کو جاری رکھنا ہے۔اسی راہ پر چلنا ہے جو وہ ہمیں دکھا گئیں تاکہ تمام مظلوم طبقوں کو داد رسی ملتی رہے ان کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ سب دھمکیوں اور فتووں کو پاوں تلے روندتی رہیں۔ مزاکرے میں اظہار خیال کرتے ہوئے معروف افسانی نگار انوار ظہیر نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی اصول پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جب جنرل مشرف نے ان سے وکالت کے لئے کہا تو انہوں نے معذرت کرلی تھی کہ وہ اصولوں پر سودے بازی نہیں کرسکتیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سہیل انور خان نے کہا عاصمہ کے کام ان کو یاد رکھیں گے ۔ صحافی ظہور احمد نے کہا کہ پاکستان ایک عظیم خاتون سے محروم ہوگیا ہے ان کی انسانی حقوق کے لئے جدوجہد غیر معمولی تھی۔ طارق وڑائچ نے کہا کہ پاکستان کے اندر کے سیاسی ماحول کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ ہو، اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو جن مسائل کا سامنا تھا اور ہے،ان کو ختم کرنے کی ضرورت ہے-
تقریب کے میزبان اور معروف شاعر سرور ظہیر غزالی نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی تاریخ جدوجہد اور ظلم و جبر سے اختلاف سے رقم ہے۔وہ ایک ایسی قانون دان تھیں جنہوں نے ہمیشہ قانون کی پاسداری کو اپنا شعائر بنائے رکھا وہ بغیر کسی مصلحت کسی لیت و لعل کے بے لاگ بے ٹوک سچ کو سامنے لانے کی کوشش کرتی رہیں۔دیگر احباب نے بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ اگر عاصمہ جہانگیر کے لڑے گئے مقدمات کی بات کی جائے تو ان پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں عاصمہ نے ان مقدمات کو بھی لڑا جن کو سیگر مد وکیل ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے پاکستان کے اندر جنونی میڈیا اور انتہا پسندی کی موجودگی میں ان کی طبعی موت ایک غیر معمولی بات ہے تقریب میں اظہار کرنے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق صدر مبین اختر، نصیر احمد ملہی،،ریاض شیخ،،افتخار احمد ، فروخ احمد ، دیسی ریڈیو برلن کے نومان توصیف اور نوجوان صحافی مطیع اللہ نے بھی اظہار خیال کیا