پاکستان

واز مریم یہاں آکر تقریر کریں، بنیادی حقوق کم نہیں کرینگے، لاہور ہائیکورٹ کے حکم میں ایسا کچھ نہیں، چیف جسٹس

اسلام آباد(نیوز وی او سی )عدالت عظمیٰ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نوازکے تقاریر کرنے کے حق پر پابندی کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ملک بھر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر اس حوالے سے چلنے والی خبروں کو بے بنیاد ،جھوٹی اور عدالتی فیصلے کوتوڑ مروڑ کر پیش کرنے کا بدنیتی پر مبنی اقدام قرار دیتے ہوئے فریقین کو سخت الفاظ میں تنبیہ کے بعد فاضل ہائیکورٹ کے فیصلے کو بہترین اور میرٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے ازخود نوٹس نمٹا دیاہے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کو کہیں کہ وہ بھی کل عدالت میں آجائیں اور یہاں آکر جتنی لمبی تقریریں کرنا چا ہیں کرلیں، بنیادی حقوق کم نہیں کرینگے، لاہور ہائیکو ر ٹ کے حکم میں نواز شریف اورمریم نواز پر پابندی کا کہیں نہیں لکھا، ہر اخبار میں خبریں لگیں کہ لاہور ہائی کورٹ نے تقریر پر پابندی لگا دی، دکھائیں فیصلے میں پابندی
کہاں ہے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ کو بدنام کرنے کیلئے منظم سازش کے تحت ایسی خبر چلوائی گئی،یہ عدلیہ پرحملہ ہے، سپریم کورٹ کے دروازے پر آکر گالیاں دی گئیں، پتہ کرارہا ہوں خواتین کو کون لے کر آیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ریاست کی سکیورٹی کی ضرورت نہیں، قوم ہمارا تحفظ کریگی، نواز شریف کی تقریر نشر کرنے پر پابندی نہیں، لوگوں کو گمراہ کیا گیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون اس معاملے کی تحقیقات کریگا اور کس نے یہ خبر بنا کر میڈیا کو دی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ خود اس کی تحقیقات کرینگے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت عالیہ نے حکم کچھ جاری کیا، رپورٹنگ کچھ اور ہوتی رہی،کسی نے منظم طریقے سے سب کچھ کیا ہے، کیاپیمراکوکوئی آ کر بتائیگا کہ اپنا کام کریں،عدالت عالیہ نے حکم کچھ جاری کیا، رپورٹنگ کچھ اور ہوتی رہی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے منگل کے روز لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے حوالے سے چلنے والی خبروں کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو عدالت کے نوٹس پراٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی اور پیمرا کے قائم مقام چیئرمین اشفاق جمانی پیش ہوئے،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب مبارک ہو، آپ پہلے آدمی ہیں جو اس فیصلے کو پڑھ رہاہے ،ورنہ سب نے ہی اسے پڑھے بغیر خبر چلائی ہے۔چیف جسٹس نے ملک بھر کے تقریباً تمام قابل ذکر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کے نام لے کر بتایا کہ تمام میڈیا نے ہی فیصلے کے برعکس بے بنیاد اور جھوٹی خبر چلائی ہے کہ ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نوازکے تقاریر کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ انہوںنے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ آزادی تحریر و تقریر سے متعلق آئین کا آرٹیکل 19 اور 68 کو پڑھیں اور ہمیں بتائیں کہ اس فیصلے میں کون سی پابندی عائد کی گئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا پاکستان میں کوئی ایک شخص بھی ہے جو یہ کہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 پر عمل نہ کیا جائے؟ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے میں نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی بلکہ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 19 اور 68 کے تحت پیمرا کو کام کرنے کا حکم جاری کیا تھا،پیمرا آج تک کیا کررہا ہے ؟اور اب تک کیا کیا ہے؟اس معاملے کو کیوں لٹکایا جارہا ہے؟ا نہوں نے پیمرا کے قائم مقام چیئرمین اشفاق جمانی سے استفسار کیا کہ پیمرا نے عدلیہ کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی توہین آمیز تقاریر کے حوالے سے ایکشن کیوں نہیں لیا ؟ تو انہوںنے کہا کہ میں نے 27 مارچ کو عہدے کا چارج سنبھالا اور مختلف ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کیے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نوٹس نوٹس ہی کھیلنا ہے تو اس سے کام نہیں چلے گا ،ہم تو پیمرا کو دبائو سے آزاد ایک خود مختار ادارہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت نے انہیں کہا کہ آپ حکومت کی سرپرستی چھوڑ دیں ،کیا آپ کو کسی اور نے بتانا ہے کہ آپ کا کام کیا ہے؟ لاہور ہائیکورٹ نے ایک حکم جاری کیا ہے اور اور ملک بھر کے اخبارات اور چینلوں پر جھوٹی خبر نشر ہوئی، مجھے معلوم ہے کہ یہ خبر لاہور کے عدالتی رپورٹروں نے نہیں بنائی بلکہ کسی ایک ہی شخص نے بنا کر سارے میڈیا تک پھیلائی ہے،غلطی اور چالبازی میں فرق ہے، عدالت کا حکم کچھ اور جاری کیا گیا جبکہ پورے ملک میں ڈھنڈورا کسی اور چیز کا پیٹا گیا، کسی نے باقاعدہ جعلی خبر چلوائی اور عدلیہ پر حملہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ نے اتنا اچھا حکم جاری کیا اور یہ فیصلہ کسی کے بھی بنیادی حقوق سے متصادم نہیں۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ پر ایک حملہ پہلے ہوا تھا اور ایک حملہ اب کیا گیا ہے ،ہمیں سکیورٹی کی کوئی ضرورت نہیں، ہمیں روز گالیاں نکالنے کا کیا مقصد ہے؟انہوںنے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ملک میں نفرت انگیز تقاریر کی جائیں ؟ تو انہوںنے نفی میں سرہلایا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو کہیں کہ وہ بھی کل عدالت میں آجائیں اور یہاں آکر جتنی لمبی تقریریں کرنا چاہیں کرلیں، سپریم کورٹ کے دروازے پر کھڑے ہو کر عدلیہ مخالف نعرے بازی کی گئی،لیکن ججزنے صبرکادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا،ہمیں ریاست کی دی گئی سکیورٹی کی کوئی ضرورت نہیں، جو موجود ہے اسے بھی ہٹا لیں انشا اللہ یہ قوم اپنی عدلیہ کی خود حفاظت کریگی۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کو معطل کرنے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی۔ جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ پیمرا تو لگتا ہے کہ ایک یتیم خانہ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پیمرا بغیر دانتوں اور دماغ کا ادارہ ہے، عدالتی فیصلے کو توڑمروڑ کرپیش کیاگیا ، پیمرا کی حالت قابل رحم ہے۔ انہوںنے ریمارکس دیئے کہ غلط خبر شائع کرنے کی ذمہ داری کے تعین کے لئے کیس نیب کو بھیجیں یا ایف آئی اے کے حوالے کیا جائے ؟ جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ پیمرا کی جانب سے ہائیکورٹ میں کون سا وکیل پیش ہوا تھا ،تو سلیمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں پیش ہوا تھا ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو پاناما کیس میں بھی حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل تھے اور اب پیمرا کی وکالت بھی کررہے ہیں ،کیا یہ مفادات کے ٹکرائوکا معاملہ نہیں ہے ، کیوں نہ آپ کا لائسنس معطل کردیا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button