آزادی کے لیے ووٹ اور گولی، دونوں سے کام لینا ہوگا
تحریک حریت(گیلانی) کے نئے سربراہ محمد اشرف صحرائی کی بے لاگ گفتگو
یکم اپریل کو بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے اضلاع شوپیاں اور اننت ناگ میں فائرنگ سے 17کشمیری شہید کر دیئے۔ ان میں سے 13جہادی تنظیم، حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے مجاہد تھے اور بقیہ شہری۔ یوں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکمرانوں نے ظلم و ستم کا نیا باب تحریر کر ڈالا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب بھارتی فوج کشمیری مجاہدین سے مقابلہ کررہی تھی، تو ہر جگہ وہاں بڑی تعداد میں عام لوگ جمع ہوگئے۔ انہوں نے غاصب بھارتیوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور ان کو پتھر مارے۔ ظالم بھارتی سکیورٹی فورسز نے حسب معمول چھرے والی گولیوں سے انہیں نشانہ بنایا۔ کئی کشمیری پھر اپنی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔تب سے بھارتی حکمرانوں کے خلاف کشمیری عوام کا احتجاج جاری ہے جس میں مزید لوگ شہید ہو چکے ہیں۔
خاص بات یہ کہ بین الاقوامی میڈیا نے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو کم ہی نمایاں کیا۔بالفرض پاکستان میں مسلم گروہ کسی وجہ سے اقلیتی بستی پر حملہ کردے، تو بین الاقوامی میڈیا اس واقعے کو شہ سرخی بناکر پیش کرتا ہے۔ لیکن بھارت اور اسرائیل جب نہتے کشمیریوں اور فلسطینیوں پر خوفناک ظلم و ستم ڈھائیں، تو یہ دلدوز اور خوفناک واقعات عام سی خبر دے کر کھڈے لائن لگادیئے جاتے ہیں۔ یہ چلن عالمی میڈیا کے بدترین تعصب کا عکاس ہے۔
دو سال قبل برہان الدین وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بہت سے کشمیری نوجوان مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ مزید براں اب عوام کی اکثریت ان کی حمایت بھی کرنے لگی ہے۔ اس روش سے عیاں ہے کہ مستقبل میں بھارتی فوج کو کشمیری مجاہدین کی طرف سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔مقبوضہ کشمیر میں نئی سیاسی قیادت بھی سامنے آرہی ہے۔ ان میں 74 سالہ محمد اشرف صحرائی قابل ذکر ہیں۔ آپ 19مارچ کو تحریک حریت (گیلانی) کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔ یہ جماعت 2004ء میں مشہور کشمیری رہنماء سید علی شاہ گیلانی نے قائم کی تھی۔ اشرف صحرائی تب سے جماعت کے سیکرٹری جنرل چلے آرہے ہیں۔ یہ تنظیم وادی کشمیر کا پاکستان سے الحاقچاہتی ہے۔
سید علی گیلانی بڑھاپے کے باعث تنظیمی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا نہیں کرسکتے، اسی لیے قیادت اشرف صاحب کے سپرد کردی گئی۔ نئے قائد نے عہدہ سنبھال کر مختلف اخبارات و جرائد کو انٹرویو دیئے۔ اہم سوالات و جوابات قارئین ایکسپریس کی خدمت میں پیش ہیں۔
سوال: آپ اور سید علی گیلانی جماعت اسلامی (کشمیر) کا حصہ تھے۔ پھرکس قسم کے اختلافات کی بنا پر آپ حضرات نے نئی جماعت کی بنیاد رکھی؟
جواب: اختلاف جنم لینے کی وجہ صرف ایک تھی۔ تحریک آزادی کشمیر میں جماعت اسلامی نے سرگرم حصہ لیا ہے۔ اس کے سینکڑوں کارکنوں نے بھارتی فورسز سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ لیکن 1990ء کے عشرے میں جماعت اسلامی کا ایک گروہ یہ کہنے لگا کہ تحریک آزادی چلانے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ اس استدلال نے گیلانی صاحب اور مجھے بہت صدمہ پہنچایا۔ایک دن مجلس شوریٰ کا اجلاس جاری تھا۔ تب ایک رہنما کھڑے ہوکر کہنے لگے ’’گیلانی صوبان اور صحرائی صوبان لاگے آسے تواناس۔‘‘ (گیلانی صاحب اور صحرائی صاحب نے ہماری زندگی مشکل بنادی ہے۔) بس اس کے بعد ہم نے جماعت اسلامی کو خیرباد کہہ کر تحریک حریت کی بنیاد رکھ دی۔ مگر جماعت سے ہمارا قریبی تعلق برقرار ہے۔
سوال: 2016ء کے بعد بھارتی سکیورٹی فورسز نے تحریک حریت پر کریک ڈاؤن کیا اور اس کے سینکڑوں لیڈر اور کارکن جیل میں ڈال دیئے۔ کیا وجہ ہے کہ تحریک حریت (گیلانی) کو نشانہ بنایا گیا؟
جواب: وجہ صاف ظاہر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت نے آزادی کا شعلہ فروزاں رکھا ہے۔ ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے مگر ہم اپنی منزل پانے تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے اور تمام مشکلات کا پامردی سے مقابلہ کریں گے۔
سوال:آپ نے نہایت کڑے حالات میں اپنی جماعت کی قیادت سنبھالی ہے۔ لہٰذا آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
جواب: مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت دہلی میں بیٹھے اپنے سرپرستوں کے دباؤ پر تحریک حریت کو مٹا دینا چاہتی ہے۔ ظلم اتنا بڑھ چکا کہ اب ہم جیل میں قید اپنے ساتھیوں اور کارکنوں سے مل نہیں سکتے۔ ہمیں کوئی تقریب اور جلسہ منعقد کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ مگر یہ تمام رکاوٹیں کسی صورت ہمارے ارادے متزلزل نہیں کرسکتیں۔ہمارا استدلال یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور یہ کہ کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ بھارتی حکمران جب سنجیدہ ہوں گے تبھی ان سے بات چیت ہوگی۔ ابھی تو بھارتی حکومت کشمیریوں کا قتل عام کررہی ہے۔ ایسے حالات میں ان سے مذاکرات کیونکر ہوسکتے ہیں؟
سوال:آپ کے خیال میں مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے؟
جواب: اس کا ایک ہی حل ہے… یہ کہ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ وہی فیصلہ کریں کہ انہیں بھارت کے ساتھ رہنا ہے یا پاکستان سے الحاق کرنا ہے۔ یا پھر وہ ریاست کو آزاد مملکت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ آخر بھارتی حکمرانوں نے بھی یہی وعدہ کیا تھا کہ کشمیری عوام جو فیصلہ کریں گے، وہ انہیں قبول ہوگا۔
سوال: بھارت میں اس وقت شدت پسند بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس صورتحال میں آپ کا طریق عمل کیا ہے۔
جواب: کشمیریوں نے شدت پسندی کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا اور ہم دلیری سے اس کا مقابلہ کریں گے۔ ویسے بھی بھارت میں کوئی بھی پارٹی حکمرانی کرے، آزادی پسند کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مگر ہم اپنی تحریک آزادی کا علم تھامے رکھیں گے۔ بھارتی حکمرانوں کو جلد یا بدیر یہ بات سمجھنی ہوگی کہ قتل عام اور مذاکرات کو ایک ساتھ جاری نہیں رکھا جاسکتا۔
سوال: کشمیر میں آزادی کی حامی جماعتوں پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔ اس کے رہنما جلسے جلوس منعقد نہیں کرسکتے۔ حتیٰ کہ انہیں عوام سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ گویا ان لیڈروں کی سرگرمیاں صرف دفاتر تک محدود ہیں۔ اس صورتحال کا آپ کیسے مقابلہ کررہے ہیں؟
جواب: ہم نے کسی نہ کسی طرح عوام سے رابطہ رکھا ہوا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے‘ ہم آزادی کی شمع روشن رکھیں گے۔ بھارتی حکمران تمام تر طاقت استعمال کرکے بھی یہ شمع بجھا نہیں سکتے۔
سوال: جب حریت لیڈر ہڑتال کی کال دیں، تو بعض لوگ احتجاج کے اس طریقے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
جواب: دیکھیے، اگر آپ کو کچھ حاصل کرنا ہے، تو قربانیاں دینا پڑیں گی۔ چناں چہ کشمیریوں کو آزادی کی نعمت چاہیے، تو انہیں اپنا لہو بہانا ہوگا ۔پھر معاشی لحاظ سے بھی ان پر تنگی آئے گی۔ ہڑتال کے علاوہ اگر احتجاج کا کوئی اور مؤثر طریقہ ہے تو ہمیں اس کے متعلق بتایا جائے۔دراصل ہڑتال پُر امن احتجاج کا کارآمد ذریعہ ہے اور ساری دنیا میں اسے اپنایا جاتا ہے۔
سوال: لیکن بعض کشمیری احتجاج کے اس طریقے سے تنگ آچکے، کیا آپ کو نئی حکمت عملی اختیار نہیں کرنا چاہیے؟
جواب: نئی حکمت عملی سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ کہ ہم بھارتی حکمرانوں کے سامنے جھک جائیں؟ اگر ہڑتال کے علاوہ کوئی اور موثر احتجاجی طریقہ ہے، تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔
سوال: کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد کے متعلق آپ کا کیا نکتہ نظر ہے؟ بعض کشمیریوں کے نزدیک اس سے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر آزاد کرانے کے لیے ہمیں ووٹ اور گولی، دونوں سے کام لینا ہوگا۔ سیاسی جدوجہد اپنی جگہ اہم ہے جبکہ مسلح جدوجہد کی اپنی خوبیاں ہیں۔ ہمارے نوجوان آزادی کی خاطر ہی اپنا لہو بہارہے ہیں۔ انہوں نے ظالموں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں اور ہمارا دین اسلام ہمیں ظالم اور ظلم کے خلاف لڑنے کی اجازت دیتا ہے۔
آپ تاریخ دیکھ لیجیے، دنیا کے جس خطے میں تحریک آزادی نے جنم لیا، مسلح جدوجہد اس کا ناگزیر حصہ رہی۔ مثال کے طور پر جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کررکھا تھا، تو ہندو اور مسلمانوں، دونوں نے غاصبوں کے خلاف مسلح تحریکیں بھی چلائیں۔ بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر مسلح جدوجہد کے قائدین رہے۔ لہٰذا ہر تحریک آزادی میں سیاسی جدوجہد اور مسلح مزاحمتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
کشمیر میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں ہماری مسلح جدوجہد کے خلاف پروپیگنڈا کر کے اور مختلف طریقوں سے اسے بدنام کرتی ہیں۔ بھارتی ایجنسیاں کشمیری عوام کو کنفیوز کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ مسلح جدوجہد کی حمایت ترک کردیں۔ کشمیریوں کو دشمن ایجنسیوں کے ہتھکنڈے سمجھنا ہوں گے۔
سوال: حال ہی میں بعض مجاہدین کے جنازوں میں داعش کے سیاہ جھنڈے بھی لہرائے گئے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ تشویشناک امر ہے؟
جواب: ہماری تحریک آزادی کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں۔ ہم بس بھارتی قبضے سے کشمیر کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ ہمارا داعش اور القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ دراصل بھارتی خفیہ ایجنسیاں ان انتہا پسند تنظیموں سے ہمارا ناتا جوڑ کر ہمیں بدنام کرنا چاہتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام میں داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں مسلم دشمن خفیہ ایجنسیوں کی پیداوار ہیں۔ اسی طرح وہ اسلامی دنیا کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہیں تاکہ مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہیں اور کمزور ہوجائیں۔ لیبیا، شام اور عراق میں مسلمان فرقوں میں تقسیم ہوکر آپس میں دست و گریباں ہیں۔ چناں چہ اسلام دشمن قوتیں وہاں اپنے قدم جما رہی ہیں۔
داعش چند امریکی تھنک ٹینکس کی تخلیق ہے۔ بدقسمتی سے کچھ مسلم نوجوان قائدین داعش کے انتہا پسندانہ نظریات سے متاثر ہوگئے۔ میری ان سے اپیل ہے کہ وہ قرآن و سنت کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ قرآن و حدیث میں کس قسم کے جنگی اصول متعین کیے گئے ہیں۔ وہ پھر جان سکتے ہیں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔
میں داعش کے سیاہ جھنڈے لہرانے والے کشمیری نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس طرح بھارتی سکیورٹی فورسز کو کشمیر میں قدم جمانے کا موقع ملے گا۔ بے سوچے سمجھے دنگا فساد کرنے سے دشمن کو فائدہ ہوتا ہے۔ اسے پھر یہ موقع ملتا ہے کہ وہ دنیا والوں کو دکھا سکے کہ کشمیری انتہا پسند ہیں لہٰذا انہیں مار دینا چاہیے۔کشمیر میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں کشمیری عوام اور نوجوانوں کو گمراہ کررہی ہیں۔ تحریک آزادی کو کامیاب بنانے کی خاطر ہمیں دشمن کی سازشیں ناکام بنانا ہوں گی۔
سوال: آپ کے فرزند، جنید بھی حزب المجاہدین میں شامل ہوکر مجاہد بن چکے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب: آج مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی نوجوان بھارت کا غلام بننے کو تیار نہیں۔ وہ غلامی کی ذلت مزید برداشت نہیں کرنا چاہتا۔ جنید کئی برس سے مجھے، گیلانی اور دیگر قائدین کو سیاسی جدوجہد کرتے دیکھ رہا ہے۔ مگر بھارتی حکمران ہمیں حق خود ارادیت دینے کو تیار نہیں۔ شاید جنید نے یہ سوچ کر ہتھیار اٹھالیے کہ مسلح جدوجہد نتیجہ خیز ثابت ہو۔ ویسے بھی کشمیری نوجوان اب غلامی کی ذلت پر باعزت موت کو ترجیح دیتے ہیں۔
سوال: کشمیر میں تحریک آزادی کا کیا مستقبل ہے؟
جواب: اگر کوئی سیب کے باغ میں سرمایہ کاری کرے اور وہاں تیس برس تک کوئی درخت پھل نہ دے، تو اس کی تشویش و پریشانی جائز ہوگی۔ لیکن آزادی کی تحریکیں اصولوں، اخلاقیات اور حقوق پر مبنی ہوتی ہیں اور کسی کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کب ختم ہوں گی۔ ہندوستان کو بھی آزاد ہوتے ہوتے ڈیڑھ سو برس لگے۔
ہماری راہ میں ان گنت کانٹے بکھرے ہیں اور خطرناک گڑھے بھی ہیں، اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ ایک دن مسلمانان کشمیر ظالم بھارتی حکمرانوں کے چنگل سے آزادی پالیں گے۔ ڈھائی سو سال پہلے امریکی تحریک آزادی کے مشہور رہنما تھامس جنیفرسن نے کہا تھا ’’میں پُر امن غلامی پر خطرناک آزادی کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ہم اسی پُرخطر راہ کے مسافر ہیں۔