اگر مریم باہر اور نواز شریف جیل کے اندر ہوئے تو یہ بڑا خطرناک کمبی نیشن ہوگا-تجزیہ نگار
کراچی (ٹی وی رپورٹ) سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ نواز شریف احتساب عدالت سے سزا کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں، مریم نواز کے جیل جانے کے خدشات بھی موجود ہیں کیونکہ اگر مریم باہر اور نواز شریف جیل کے اندر ہوئے تو یہ بڑا خطرناک کمبی نیشن ہوگا، نواز شریف جیل جاتے ہیں تو ان کی سیاست کو طاقت ملے گی، آئین توڑ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے آمر کبھی عدالت یا جیل نہیں گئے، نواز شریف کو جے آئی ٹی پر تحفظات تھے تو اسی وقت بائیکاٹ کردینا چاہئے تھا، واجد ضیاء کو اپنے بھائی کی فرم سے معاہدہ نہیں کرنا چاہئے تھا،اسمبلیوں کو مدت مکمل کرنی چاہئے اور انتخابات مقررہ مدت میں ہونے چاہئیں،چیف جسٹس کا ریٹائرمنٹ سے پہلے عدلیہ میں جامع اصلاحات لانا ضروری ہے، چیف جسٹس اگر روڈمیپ بنا کر کام شروع کردیں تو آنے والے چیف جسٹسز اسے آگے بڑھاسکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار مظہر عباس، بابر ستار، امتیاز عالم، حسن نثار، حفیظ اللہ نیازی اور ارشاد بھٹی نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال اڈیالہ جیل میں صفائی کی خبریں، جیل میں تیاری پہلے سے شروع کردی گئی ہے، نواز شریف، کیا سابق وزیراعظم کو یقین ہے کہ ان کو اور مریم نواز کو سزا ہونے جارہی ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے امتیاز عالم نے کہا کہ نواز شریف کا شبہ درست ہے کہ انہیں سزا ہونے جارہی ہے، پاکستان کی تاریخ منتخب وزرائے اعظم کے جیل جانے سے بھری ہوئی ہے، آئین توڑ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے آمر کبھی عدالت یا جیل نہیں گئے، نواز شریف کا جیل جانا وقتی عمل ہوگا، اگر انہیں سزا ہوئی تو وہ اپیل میں جائیں گے جہاں ضمانت بھی ہوسکتی ہے۔بابر ستار نے کہا کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کی سخت آبزرویشنز کے بعد احتساب عدالت کے جج کا مختلف فیصلہ دینا مشکل لگتا ہے، ایک بااثر قیدی کیلئے اڈیالہ جیل کی صفائی ہونا بڑی زیادتی ہے کم از کم جیل میں تو سب سے برابری کا سلوک ہونا چاہئے۔حسن نثار کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو اپنے کرتوتوں اور ثبوتوں کا پتا ہے انہیں جیل جانے کا یقین کیوں نہیں ہوگا، جو لوگ سیون اسٹار قیدی کیلئے صفائیاں کررہے وہ خاک احتساب کریں گے، اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ احتساب نہیں ہوسکتاہے۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ نواز شریف جیل جاتے ہیں تو ان کی سیاست کو قوت ملے گی، نواز شریف نے واضح کردیا ہے جیل میں ڈالو یا پھانسی دو اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، نواز شریف جیل میں ہوں یا جیل سے باہر دونوں صورتوں میں جیت انہی کی ہے۔ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ نواز شریف اپنے اوپر لگے الزامات غلط ثابت کر کے سرخرو ہوسکتے ہیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف ذہنی طور پر تیار ہیں کہ انہیں احتساب عدالت سے سزا ہوجائے گی، مریم نواز کے جیل جانے کے خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں کیونکہ اگر مریم باہر اور نواز شریف جیل کے اندر ہوئے تو یہ بڑا خطرناک کمبی نیشن ہوگا، شہباز شریف نے پہلی دفعہ ن لیگ کے ورکرز کنونشنز سے خطاب کرنا بھی شروع کردیا ہے، سیاسی رہنماؤں کیلئے جیل جانا عجیب بات نہیں لیکن نواز شریف کا مقدمہ مختلف انداز کا ہے۔دوسرے سوال جے آئی ٹی کے تین ہیرے ہمارے بدترین سیاسی مخالف ہیں، ان کے رشتہ دار تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز ہیں، نواز شریف کا الزام، کیا جے آئی ٹی اراکین کو تنقید کا نشانہ بنانا درست ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ جے آئی ٹی پر نواز شریف کے اعتراضات بالکل درست ہیں،یہ بات مستند ہے کہ تین ارکان نے لابنگ کر کے اپنے آپ کو رکھوایا۔بابر ستار نے کہا کہ جے آئی ٹی ارکان کی تقرری اگر واٹس ایپ کے ذریعہ ہوئی تو بڑی انہونی بات ہے اس کا جواب ملنا چاہئے، جے آئی ٹی کی کارکردگی پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ان کی وفاداری پر تنقید نہیں ہونی چاہئے، اگر کسی جے آئی ٹی رکن کا بھائی پی ٹی آئی کا حمایتی ہے تو اس پر الزام لگانا درست نہیں ہے۔حسن نثار کا کہنا تھا کہ نواز شریف اپنی سیاست انجوائے کررہے ہیں تو ان کا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے۔مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف کو جے آئی ٹی پر تحفظات تھے تو اسی وقت بائیکاٹ کردینا چاہئے تھا، اس وقت جے آئی ٹی ارکان کے بھائیوں کی وفاداریاں پی ٹی آئی سے ہونے کا اعتراض کیا جاتا تو درست ہوتا، واجد ضیاء کو مفادات کے تصادم سے بچنے کیلئے اپنے بھائی کی فرم سے معاہدہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ احتساب کا عمل اپنی قدر کھورہا ہے، پاناما کیس نواز شریف، عدلیہ، تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹی سب کا ٹرائل ہے۔تیسرے سوال خورشید شاہ کی وزیراعظم کو ایک دن پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز، وزیراعظم کا انکار، موجودہ صورتحال میں بہتر آپشن کیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے بابر ستار نے کہا کہ مدت پوری ہونے سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی، نگراں حکومت کی مدت ساٹھ کے بجائے نوے روز ہونے سے ریاستی کام متاثر ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ شاید نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات طے کرنے کیلئے وقت کم ہونے کی وجہ سے اسمبلیاں وقت سے پہلے تحلیل کرنے کی تجویز دی ہے لیکن میرے خیال میں نگراں حکومت کو آئین کے تحت جتنا وقت دیا گیا اسی میں انتخابات ہوجانے چاہئیں۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ اسمبلیوں کو مدت مکمل کرنی چاہئے اور انتخابات مقررہ مدت میں ہونے چاہئیں۔مظہر عباس نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے اسمبلیاں وقت سے پہلے تحلیل کرنے کی تجویز نہیں آنی چاہئے تھی، بہتر ہوگا کہ انتخابات ساٹھ دن کے اندر ہوجائیں، خورشید شاہ نوے روز کی بات اس لئے کررہے تاکہ نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ حل ہوجائے ورنہ نظریہ ضرورت زندہ ہوسکتا ہے۔ چوتھے سوال کیا چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے عدلیہ میں جامع اصلاحات لاسکیں گے؟ کا جواب دیتے ہوئے بابر ستار نے کہا کہ چیف جسٹس کا اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے عدلیہ میں جامع اصلاحات لانا بہت ضروری ہے، چیف جسٹس اگر روڈمیپ بنا کر کام شروع کردیں تو بے شک یہ عمل ان کی ریٹائرمنٹ تک مکمل نہ ہو لیکن آنے والے چیف جسٹسز اسے آگے بڑھاسکتے ہیں۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے بالکل درست باتیں کی ہیں، کراچی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے تمام کرمنل اپیلیں نمٹادی ہیں، اسی فاسٹ ٹریک پر اگر ہائیکورٹس کی کرمنل اپیلیں بھی نمٹادی جائیں اور ڈسٹرکٹ و سیشن عدالتوں کی سطح پر ٹائم فریم دیدیا جائے توعدالتی نظام ٹھیک ہوسکتا ہے، عدالتوں کو اسٹے کے معاملہ میں بہت زیادہ سختی برتنا چاہئے کیونکہ اسے کیسوں کو التوا میں ڈالنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔امتیاز عالم نے کہا کہ چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے پہلے عدلیہ میں جامع اصلاحات نہیں لاسکیں گے یہ صرف اشک شوئی ہے۔ارشاد بھٹی نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں عدالتی اصلاحات لانا اور عام آدمی کو ریلیف پہنچانا کسی عبادت سے کم نہیں ہے، اگر چیف جسٹس تہیہ کرلیں تو عدلیہ میں جامع اصلاحات لائی جاسکتی ہیں۔