کوئی قومی وقار بھی ہوتا ہے!
کالم:- آمنہ مفتی
پاک چین دوستی، یہ لفظ بچپن سے سنا۔ چین کو ہم نے دیونہ وار چاہا، چین نے بھی ہم سے محبت کی۔ اس محبت کو ہم متوسط طبقے کی گھٹی ہوئی مجبور اور ستوانسی محبتوں کی طرح دل میں دبائے نہیں پھرے، بلکہ دونوں ملکوں نے اپنی وفاؤں کا بارہا اور برملا اظہار کیا۔
اسی محبت کی ایک نشانی، سی پیک کی صورت میں ابھی میوں میوں چلنا شروع ہوئی تھی کہ کچھ اجڈ اور عاقبت نااندیش پاکستانی اور چند احمق چینی اس پہ اپنے گندے جوتوں سمیت دھم سے کود گئے۔
شناسائی، دوستی، محبت، وفا، عشق اور پھر جنوں، شاید انسانی تعلقات میں مانوسیت کے جذبے کو ان مدارج میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ شاید اس لیے کہا کہ انسانی تعلقات کے بارے میں کوئی بھی بات حتمی طور پہ نہیں کہی جا سکتی۔ انسان اپنے جذبوں کے بارے میں بہت عجیب واقع ہوا ہے۔
انسان اس پہ ایشیائی انسان اور اس سے بھی بڑھ کے جنوبی ایشیائی اور پاکستانی انسان تو اپنے تعلقات اور جذبات اور وفاداریوں کے بارے میں بہت ہی عجیب واقع ہوا ہے۔ اس خطے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، باہر سے آ نے والوں کے لیے دو طرح کے رویے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ ان نو واردوں سے سخت خوف کھاتے ہیں اور اسی خوف کے تحت ان سے نفرت کرتے ہیں اور موقع آنے پہ ان کے درپئے ہونے کو بھی ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ نئے آنے والوں کے لیے خیر سگالی کے جذبے سے اس قدر معمور ہوتے ہیں کہ اکثر یہ جذبہ ان کے ظرف کے پیمانوں اور ہوش و خرد کی حدوں سے باہر چھلک جاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں نقصان اس خطے کے باشندوں کا ہی ہوتا ہے۔ قاعدہ ہے کہ جو قوم، اپنے ملک اور علاقے سے نکل کر کسی دوسرے علاقے کا رخ کرتی ہے یقیناً اپنے رشتے کی پھو پھی سے ملنے تو نہیں آتی اور نہ ہی اس کے پیشِ نگاہ سیاحت کا جذبہ ہوتا ہے۔
ظاہر ہے، دوسرے خطوں میں موجود مادی فوائد ہی انھیں وہاں سے کھینچ کر لاتے ہیں۔ گھر بار کا سکھ چھوڑ کے آ نے والے، اپنے بن باس کی پوری قیمت وصول کرتے ہیں۔ برِصغیر نے بارہا یہ قیمت ادا کی۔ یہ دھرتی اتنی زرخیز ہے کہ جانے کتنی نسلوں کو خود میں جذب کر چکی ہے۔ اس لیے ہمیں کسی چینی اور ترکی سے تو بالکل بھی کسی قسم کا خوف نہیں۔ لیکن بہر حال، تعلقات کے قرینے ہوتے ہیں۔
پاکستانی پولیس اور چینی کارکنوں کے جھگڑے کی وجہ مبینہ طور پر چینی کمپنی کی طرف سے پولیس کیمپ کی بجلی پانی بند کرنا اور جواب میں پولیس والوں کا ان کی نقل وحرکت کو محدود کرنا، اس پہ چینیوں کا بھڑک کر لڑنا اور بعد ازاں پٹنا سمجھا جا رہا ہے۔
سبھی نے اس واقعے کی ویڈیو دیکھی اور بارہا دیکھی۔ سب سے تکلیف دہ اور غصہ دلانے والا لمحہ وہ ہے جب پولیس کی گاڑی پہ بنا پاکستانی پرچم چینی کارکن کے جوتے سے نیچا نظر آ رہا ہے۔ ٹھنڈے سے ٹھنڈے دل و دماغ کا انسان بھی اس منظر کو دیکھ کر جذباتی ہو سکتا ہے۔ میں تو یوں بھی پاکستانی جھنڈے اور ترانے کے سلسلے میں بےحد جذباتی مشہور ہوں۔ کہیں ترانہ بجا نہیں اور میرے آنسو بے قابو۔
جھنڈے کا یہ ہے کہ بنے بنائے جھنڈے کی بجائے ہمارے ہاں ہمیشہ گھر کا سلا ہوا پرچم لہرایا گیا۔ اس پرچم پہ چاند تارہ ٹانکنا اتنا آسان نہیں، وہ بھی ایسے کہ تارے کا کوئی کونا بے ڈھب نہ ہو، چاند کی گولائی کہیں بے ڈھنگی نہ ہو اور کہیں سے بھی کوئی پھونسڑا نہ نکلے۔ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ مغرب کے بعد کبھی پرچم لہراتا نہ رہ جائے اور یومِ آ زادی گزرنے کے بعد اسے بے حد احترام سے ململ کی تہوں میں لپیٹ کے اگلے سال کے لئے سینت لیا جاتا ہے۔
یہ جھنڈا میرے مرحوم ساس سسر نے عین سرکاری پیمائش پہ تیار کیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اس ملک کے لیے کی جانے والی جدو جہد میں حصہ لیا، 1945-46 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو ووٹ ڈالے اور پھر انسانی تاریخ کی خوفناک ترین اور سب سے بڑی ہجرت کی۔
آ ج وہ لوگ دنیا میں نہیں اور شاید اچھا ہی ہے کہ ایسے وقت سے پہلے نہ رہے۔
دنیا داری کے، بین الاقوامی تعلقات کے، انسانی اور قومی مصلحتوں کے بہت سے تقاضے ہوتے ہیں، لیکن ہر بار جب اس ملک کی خود مختاری کا مذاق اڑاتے ہوئے، کوئی ڈرون حملہ ہوتا ہے، کسی بھرے شہر میں کسی کو مارنے والا دندناتا ہوا نکل جاتا ہے، کسی ملک کی پراکسی لڑنے کے لیے ایک پوری نسل کو جنگ کا ایندھن بنا دیا جاتا ہے، کسی ملک کے امرا شکار کے بہانے مستاتے پھرتے ہیں، کوئی ‘آپریشن نیپچون سپیئر’ ہوتا ہے، کسی حلیف ملک کے جنگی جہاز بمباری کرتے ہیں اور کسی دوست ملک کا شہری پاکستانی پرچم سے اوپر پاؤں لیے پھنپھناتا ہے تو ساری مصلحتیں، ساری دنیا داری، سب سفارتی عیاریاں اور قومی مفاد کے لیے اختیار کیا گیا تمام تحمل رفو چکر ہو جاتے ہیں اور اس کی جگہ ایک خالصتاً پاکستانی جذباتیت اڑ کے کھڑی ہو جاتی ہے اور چلا چلا کے کہتی ہے، ‘کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، قومی مفاد ہی نہیں کوئی قومی وقار بھی ہوتا ہے۔‘