ایڈیٹرکاانتخاب

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف پٹشنر، حنیف راہی ایک عادی درخواست گزار

کراچی ( رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نے تجز یہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف درخواست گزار حنیف راہی ایک عادی درخواست گزار ہے، ہر معاملہ میں درخواستیں دائر کرنا اور عدالتوں کا وقت ضائع کرنا اس کا معمول ہے، وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ سے انکار نہیں کرسکتا۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس وقت حکومت کے سامنے دو اہم معاملات ہیں جو بظاہر سادہ لگتے ہیں مگر اتنے سادہ بھی نہیں ہیں، پہلا معاملہ فیض آباد ھرنا کیس میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی اور پیر افضل قادری کی گرفتاری کا ہے جنہیں انسداد دہشتگردی عدالت اشتہاری بھی قرار دے چکی ہے لیکن وہ سرعام لاہور میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں،پنجاب حکومت کے مطابق انہیں خادم رضوی کی گرفتاری میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اگر عدالت نے حکم دیا ہے توا نہیں ضرور گرفتار ہونا چاہئے ، دوسرا
اہم معاملہ سینیٹ کے الیکشن میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کا ہے، پہلے سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے مبینہ طور پر پیسہ چلانے کا الزام لگایا، پھر جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اکثریت میں ہونے کے باوجود حکمراں اتحاد کو شکست ہوئی اور اپوزیشن کے حمایت یافتہ میر صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تو اس انتخاب پر بھی سوالات اٹھائے گئے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کے لئے ووٹوں کی خرید و فروخت کا الزام لگایا جس پر عمران خان نے الیکشن کمیشن میں وزیراعظم کیخلاف درخواست دائر کردی ہے ، عمران خان نے الیکشن کمیشن سے استدعا کی ہے کہ وزیراعظم کو طلب کر کے اس حوالے سے تمام معلومات اور ثبوت پیش کرنے کا حکم دیا جائے، سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات خود عمران خان کی جانب سے بھی لگائے گئے اور انہوں نے خود اپنے اراکین کے فروخت ہونے کا اعتراف بھی کیا تھا ، لیکن ایک پارٹی لیڈر اور وزیراعظم کے بیانات میں فرق ہے، عمران خان نے اگر الزام لگایا اور تحقیقات کرنے کیلئے کہا تھا تو ان کا فرض ہے کہ سارا معاملہ سامنے رکھیں، لیکن ملک کے چیف ایگزیکٹو ہونے کی حیثیت سے وزیراعظم کی کہی گئی بات اور بیان اہمیت کا حامل ہوتا ہے، وزیراعظم کو اس حوالے سے کچھ معلومات ہیں توا نہیں وہ سامنے لانی چاہئیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ بدھ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کیخلاف درخواست کی سماعت نہ کرسکاکیونکہ درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے، درخواست گزار نے تحریری درخواست میں عدالت کو بتایا کہ انہیں اچانک کال آئی ہے ان کے والد بیمار ہیں جس کی وجہ سے وہ اسلام آباد میں نہیں ہوں گے اس لئے گزارش کی جاتی ہے کہ اس کیس کی سماعت کو کسی دوسرے اچھے دن تک ملتوی کردیئے جائے، حنیف راہی کی اس درخواست نے تنازع کھڑا کیا ہوا ہے، اس درخواست پر اعتراضات اور سنجیدہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں، یہ درخواست دو سال سے زائد پرانی درخواست ہے جو جنوری 2016ء میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی، رجسٹرار آفس نے اس درخواست کو اعتراض لگا کر واپس کردیا تھا مگر تیرہ مارچ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے درخواست کو سماعت کیلئے منظور کرلیا، اعتراض اٹھایا جارہا ہے کہ دو سال پرانی درخواست اچانک سماعت کیلئے کیسے منظور کرلی گئی خاص طور پر اس کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اہم مقدمات میں اہم ریمارکس دیئے، اہم فیصلے دیئے جس کے بعد اچانک یہ درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی گئی، وکلاء بھی واضح کرچکے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف درخواست کی سماعت ختم نہ کی تو وہ سڑکوں پر ہوں گے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف درخواست گزار حنیف راہی ایک عادی درخواست گزار ہے، ہر معاملہ میں درخواستیں دائر کرنا اور عدالتوں کا وقت ضائع کرنا اس کا معمول ہے، عدالتیں اس درخواست گزار کے خلاف جرمانے بھی عائد کرچکی ہیں، ہماری تحقیقات کے مطابق 2014ء میں ریاض حنیف راہی پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو بار جرمانہ عائد کیا، پہلے جنوری میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریاض حنیف راہی کی درخواست کو غیرسنجیدہ قرار دے کر درخواست گزار پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا، ستمبر 2014ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ریاض حنیف راہی کی غیرسنجیدہ درخواست پر دس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا، مارچ 2010ء میں اسی درخواست گزار نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس غلام ربانی اور جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کی بحالی اور تعیناتی کو چیلنج کیا جس پر عدالت نے ریاض حنیف راہی کے سپریم کورٹ کی حدود میں داخلے پر ہی پابندی لگادی تھی، لاہور ہائیکورٹ کے بہاولپور بنچ نے ریاض حنیف راہی کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع کی کیونکہ درخواست گزار نے جج سے بدتمیزی کی، جارحانہ رویہ اختیار کیا، کمرہ عدالت میں غیرضروری، نفرت انگیز اور توہین آمیز الفاظ ادا کیے، دسمبر 2013ء میں اس درخواست گزار نے سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیلئے قائم کی گئی خصوصی عدالت کے قیام کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا جسے عدالت نے مسترد کردیا، اسی طرح ریاض حنیف راہی نے پندرہ اپریل 2009ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس شیخ حاکم علی کی سپریم کورٹ میں تعیناتی بھی چیلنج کی، اگست 2017ء میں اسی شخص نے وزیراعظم کے عائشہ گلالئی کے الزامات پر کمیٹی کے تشکیل کے حکم کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، مارچ 2018ء میں ریاض حنیف راہی نے ساقب چیف جسٹس افتخار چوہدری اور نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی، 13اگست 2015ء کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریاض راہی پر دس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جس کے بعد ہی ممکنہ طور پر ریاض حنیف راہی نے جنوری 2016ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بلوچستان ہائیکورٹ میں تعیناتی اور سپریم کورٹ میں ترقی کو چیلنج کیا، اسی طرح مارچ 2010ء میں سپریم کورٹ نے ریاض راہی کیخلاف ضابطہ کی کارروائی کیلئے معاملہ پنجاب بار کونسل کو بھیجا، 2005ء میں ایک دلچسپ صورتحال بنی جب لاہور ہائیکورٹ نے ریاض حنیف راہی کو بلایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کو غیرمشروط معافی مانگنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر معافی نہیں مانگی، درخواست گزار نے لاہور ہائیکورٹ کو بھی یقین دلایا کہ وہ غیرمشروط معافی مانگیں گے مگر پھر بھی معافی نہیں مانگی جس پر لاہور ہائیکورٹ نے ریاض حنیف راہی کوا یک ماہ قید اور تیس ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی، 2005ء میں ہی ریاض حنیف راہی کے خلاف لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بنچ میں کیس کی سماعت کے دوران خاتون سے بدتمیزی کی شکایت بھی سامنے آئی، یہ ایک طویل فہرست ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والے درخواست گزار ریاض حنیف راہی کا یہ معمول ہے، وہ ہر معاملہ میں درخواست دائر کردیتے ہیں جس پر عدالتیں ان پر جرمانے لگاچکی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button