قبروں کی بے حرمتی کا کیا جواز ہے؟
کالم:- منور علی شاہدجرمنی
پچیس مارچ کو سرگودھا میں احمدیوں کے قبرستان واقع گھوگھیاٹ میانی میں قبروں کے کتبوں پر لکھے کلمہ طیبہ کو کالی سیاہی سے مٹایا گیا تھا یہ واقعہ یوم پاکستان منانے کے ایک دن بعد رونماہوا۔ایک اسلامی ملک میں کلمہ پاک کے مٹانے اور قبروں کی بے حرمتی کرنے کی کوئی ایک وجہ بھی حلق سے اترنے کو تیار نہیں بظاہر یہ کلمہ دشمنی کے مترادف ہے کیونکہ یہ انسانی شعور، اخلاقی و ملکی و عالمی قوانین اور اسلامی تعلیمات ہی کے منافی ہے ۔گوگل پر مزید سرچ کرنے کے نتیجہ میں جو کچھ سامنے آیا وہ ناقابل یقین ہے پاکستانی اور عالمی میڈیا کی رپورٹس سے پتہ چلا کہ احمدیوں کے قبرستانوں کی بے حرمتی اور بے توقیری کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ ماضی میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق دسمبر2011میں لودھراں کے نواحی علاقے دنیاپور میں 1976 سے موجوداحمدیہ قبرستان میں قبروں کی بے حرمتی کی گئی اور سات قبروں کے کتبے توڑ کر ان کو ویرانوں میں پھینک دیا گیا تھا۔ ڈان نیوز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اگلے سا ل دسمبر2012 میں پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں واقعہ احمدیہ قبرستان پر دس سے پندرہ نقاب پوش حملہ آوروں نے حملہ کرکے ایک صد سے زائد قبروں کے کتبے توڑ دیئے اور آدھ گھنٹہ تک شہر خموشاں کے آسودہ خاک مکینوں پر قہر ڈھاتے رہے۔ اس سے پہلے ہانڈوگجر میں بھی احمدیہ قبرستان کی چار دیواری منہدم کرکے قبروں کی بے حرمتی کی گئی تھی اور کتبوں کو توڑ دیا گیا تھا۔ یہ سب واقعات جرم کے دائرے میں آتے ہیں اور ملکی اداروں اور قانون سے تقاضا کرتے ہیں کہ جنہوں نے یہ بار بار کیا ان کو پکڑا جاتا اور قانون کی تحت ان کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ کیوں؟ شاید اس لئے کہ ایسی قبیج حرکتوں کو عین آئین و اسلامی تعلیمات کے تصور کیا جاتا ہے؟۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ انسانی میت یا قبر کی توہین و تذلیل سے وفات پانے والے کا کچھ نہیں بگڑتا لیکن کرنے والوں اور اس پر خاموش رہنے والوں کی اصل حقیقت اور چہرے سامنے آجاتے ہیں۔ اسلام کا حکم تو یہ ہے کہ تم مرنے والے کو برا بھلا مت کہو وہ اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہو چکا ہے۔ایک دفعہ حضرت محمدﷺ تشریف فرماں تھے ایک جنازہ گزرا۔آپﷺ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔کسی نے کہا یہ توایک یہودی کا جنازہ ہے۔آپﷺ نے فرمایا کیا ہوا ، انسان تو ہے۔ جنگ بدر اور جنگ احد آپﷺ نے کفار کی نعشوں کی تدفین کروائی اور ایک ہی میدان میں مسلمانوں اور کافروں کی تدفین ہوئی۔جنگ احزاب میں ایک کافر سردار خندق میں گر کر ہلاک ہوگیا،کافروں نے نعش لینے کی غرض سے دس ہزار درہم کی پیش کش کی لیکن آپﷺ نے فرمایا ہم مردہ فروش نہیں اور بلا معاوضہ نعش ان کو دیدی۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں ایک یہودیہ کی وفات ہوئی تو حضرت عمرؓ کی اجازت سے اس کی تدفین مسلمانوں کے قبرستان میں ہوئی۔یہ اسلامی تعلیمات کے چند واقعات ہیں جن کی بدولت اسلام دنیا کے کناروں تک اس رفتار سے پھیلا جس کی مثال نہیں ملتی ۔اسلام کے اندر انسان کو جو چھ بنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہیں ان میں جان کا تحفظ، عزت و آبرو کا تحفظ، مال کا تحفظ، اولاد کا تحفظ، روزگار کا تحفظ اور عقیدہ و مذہب کا تحفظ شامل ہیں ریاست کا اور ہرحکومت کایہ اولین فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے ان حقوق کی حفاظت کرے۔۔پاکستان ایک سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا تھا لیکن تحریک پاکستان کے دوران ہی اس کے قیام کی مخالفت کی کوششیں شروع ہوچکی تھی جو اس وقت تو قائد اعظم نے ناکام بنا دیں لیکن ان کی وفات کے ساتھ ہی وہ سب کھوٹے سکے نت نئی سازشوں میں مصروف ہوگئے جو اب تک جاری ہیں اور بہت کامیابی سمیٹ بھی چکے ہیں بقول شاعر کہ۔
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
عقلمندوں ، دانشوروں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تاریخ انسانی نے یہ سبق دیا اور پڑھایا ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی ریاستوں اور حکومتوں میں انسانی معاملات ہی دیکھے اور نبٹائے جاتے ہیں اور وہ الہیٰ معاملات میں مداخلت نہیں کرتیں۔ بانی پاکستان نے بھی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں مستقبل کی تمام حکومتوں کو متنبہ کیا تھا کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہبی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہوتا ہے
ریاستوں میں رہنے والوں کے مذہبی معاملات خالصتا انفرادی نوعیت کے ہوتے ہیں ہر ملک میں ہر قسم کے عقیدوں کے پیروکار رہتے ہیں لیکن اگر حکومت یا کوئی ریاست کسی ایک عقیدہ کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کی راہ اپنا لے تو پھراس کا نتیجہ فرقہ پرستی اور مذہب کے نام پر خون خرابہ کی شکل میں نکلتا ہے اس قسم کے سبھی مداخلتیں سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں اور ان کا اول و آخر مقصدمحض سیاسی فوائد حاصل کرنا ہوتا ہے آج ہمارے ہاں جس اسلام کا ڈھول پیٹا جاتا ہے اس کا دور سے بھی اس دین اسلام سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا جو مدینہ و خانہ کعبہ کے اندرگلیوں میں دکھایا گیا تھا
آج کا جدید یورپ بھی صدیوں پہلے گرجا گھروں کے تسلط میں تھا اور یورپ میں ریاست اور کلیساکے گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں خون آلودہ تاریخ سے کون واقف نہیں جب مذہبی پیشوائیت نے جبر اور انسانی استحصال کی لرزہ خیز داستانیں رقم کی تھیں اور اس کے نتیجہ میں پروٹسٹنٹ تحریک نے جنم لیا۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بڑھتا گیا کہ ریاست اور مذہب دونوں کا اک دوسرے سے الگ رہنے ہی میں انسانی ترقی اور ریاست کی فلاح ممکن ہے اور آج کا جدید یورپ مذہب اور ریاستی معاملات سے الگ ہونے کی بہترین روشن مثال ہے تھیوکریسی اور مذہبی تسلط میں جکڑی ریاستوں کی انسانی ترقی کا اگر سیکولر ریاستوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو حقیقت سمجھنے میں کوئی مشکل نہ آئے گی کہ مذہب کے نام پر ریشہ دوانیوں میں لپٹی کوئی بھی ریاست دور حاضر کے تقاضوں کو نہ صرف پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے بلکہ عوامی مسائل کے حل اور اندرونی استحکام کے حصول میں بھی بھی ناکام رہتی ہے۔
مغرب میں حکومتی معاملات میں مذہبی راہنماوں کی مداخلت کے خلاف آواز اٹلی میں ایک قانون دان البیروکو گینٹلی نے اٹھائی تھی اور ریاست اور گرجا گھروں کی علیحدگی کا تصور پیش کیا تھا۔انیسویں صدی میں ایک برطانوی مصنف جارج یعقوب نے مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ تھلگ کرتے ہوئے سیکولر ازم کی بھرپور وکالت کی تھی آج برطانیہ اور یورپ دونوں ہی کے اندر تمام مذاہب کے ماننے والے زندگی کی رعنائیوں سے اس لئے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ وہ اسی بات پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہو چکے ہیں جس پر ہمارے بانی پاکستان نے ہمیں تلقین کی تھی لیکن ہم اس کو پس پشت ڈال کر اس کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں