یاجوج ماجوج کی حقیقیت ذوالقرنین کون تھے ؟
تحریر:- حیان خان
ایک انوکھی تحریر جو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتی ہے۔
کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ” ینسلون “
بائبل کی کتاب پیدائش کے مطابق سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد انسانی نسل ان کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث سے چلی تھی۔ سام نے رہائش کے لئے دجلہ و فرات کی وادی کا انتخاب کیا جو “میسو پوٹیمیا” کہلاتی ہے۔ حام نے اپنی اولاد سمیت دریائے نیل کی وادی میں رہائش اختیار کی۔ یافث کو بحیرہ کیسپین اور بحیرہ اسود کے درمیان کا علاقہ پسند آیا، چنانچہ انہوں نے اپنی اولاد کو یہاں آباد کر دیا۔
یافث کی اولاد میں سے ماجوج (Magog) نام کے ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ان کی نسل میں “یاجوج “یا “جوج “(Gog) نام کا بادشاہ گزرا ہے۔ اس وجہ سے ماجوج کی پوری نسل یاجوج و ماجوج کہلائی۔ سام و حام کی نسلوں نے بڑی بڑی تہذیبیں قائم کیں مگر یاجوج ماجوج زیادہ تر خانہ بدوش رہے۔ ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کی وجہ سے یہ اپنے اصل وطن سے شمال، مشرق اور مغرب کی طر ف نکل کھڑے ہوئے۔ شمال میں انہوں نے روس کو اپنا مسکن بنایا۔ مشرق میں انہوں نے چین اور ہندوستان پر اپنا اقتدار قائم کیا اور مغرب میں یورپ کی سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد معلوم تاریخ میں امریکہ اور آسٹریلیا پر بھی ان ہی کی حکومت قائم ہوئی۔ سام اور یافث کی نسلوں میں کئی مرتبہ زمین کے حصول کے لئے جنگ ہوئی۔ ایسی ہی ایک جنگ کی تفصیل بائبل کی کتاب “حزقی ایل” میں ملتی ہے۔
دنیا کا اقتدار سب سے پہلے حام کی نسلوں کو سپرد ہوا اور مصر میں انہوں نے عظیم الشان تہذیب قائم کی۔ اس زمانے میں حام کی افریقی نسلیں سپر پاور کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اس کے بعد سام کی نسلوں کی باری آئی۔ سام کی نسل کے ایک بطل جلیل سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد کی دو شاخوں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کو باری باری زمین کا اقتدار نصیب ہوا۔
قرآن مجید اور بائبل میں قیامت کی یہ نشانی بیان ہوئی ہے کہ اس سے پہلے روئے زمین پر یاجوج و ماجوج کا اقتدار قائم ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ان کے پہلے گروہ نے منگولیا سے اٹھ کر تاتاریوں کی شکل میں عالم اسلام پر یلغار کی۔ کچھ عرصے بعد یہ گروہ تو مسلمان ہو گیا۔ اس کے بعد یاجوج و ماجوج کے دوسرے گروہ نے یورپی استعمار کی صورت میں ایشیا اور افریقہ پر پھر یلغار کی۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں بھی دنیا کی تمام بڑی طاقتیں یعنی امریکہ، روس اور چین کا بڑا حصہ یاجوج ماجوج ہی پر مشتمل ہیں۔ یافث کی ماجوج کے علاوہ اور اولاد بھی ہو گی مگر غالب اکثریت کے اصول پر یافث کی پوری نسل ہی کو یاجوج و ماجوج کے نام سے مذہبی صحیفوں میں بیان کیا گیا ہے۔
بعض صحیح احادیث میں ایک دیوار کا ذکر آیا ہےجس کے پیچھے یاجوج و ماجوج قید ہیں اور روزانہ اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور مستقبل میں ایک دن وہ اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔ان احادیث پر جدید دور میں یہ سوال کیا گیا ہے کہ آج کل تو روئے زمین کا چپہ چپہ سیٹلائٹ کی مدد سے چھانا جا چکا ہے۔ ایسی کوئی دیوار نہیں ملی جس کے پیچھے کوئی اتنی بڑی قوم آباد ہو۔
یہ سوال دراصل ایک غلط فہمی کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہےجو کہ اس دیوار کو حقیقی معنی میں لینے سے پیدا ہوئی۔ اصل میں یہاں دیوار کو تمثیل کے اسلوب میں بیان کیا گیا تھا اور اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ اللہ تعالی نے انہیں گویا پہاڑوں کے اندر قید کر کے سام اور حام کی نسلوں کو ان سے محفوظ کر رکھا ہے۔ قرب قیامت میں یہ لوگ آزاد ہو کر روئے زمین پر قابض ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حافظ ابن کثیر نے بھی سورۃ کہف کی تفسیر میں اس روایت پر تنقید کرتے ہوئے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ یہ روایت دراصل اسرائیلی روایت ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کعب الاحبار علیہ الرحمۃ سے سنی ہو گی لیکن کسی راوی نے غلطی سے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا۔
اب یاجوج و ماجوج کو کسی دیوار کے پیچھے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکیوں، روسیوں، یورپیوں اور چینیوں کی صورت میں یہ اس وقت زمین کے اطراف میں موجود ہیں۔ قرآن مجید اور بائبل کی یہ پیش گوئی پوری ہو چکی ہے۔ اب ہمیں قیامت کا انتظار کرنا چاہیے اور اپنے قول و فعل کے اعتبار سے اس کی تیاری کرنی چاہیے۔
ذوالقرنین
قرآن مجید میں جناب ذوالقرنین کا ذکر آیا ہے۔ یہ ایک صاحب ایمان بادشاہ تھے جنہوں نے اپنی سلطنت کو عدل و انصاف سے بھر دیا تھا۔ ان کا ایک سفر بھی بحیرہ کیسپین اور بلیک سی کے درمیان ہوا تھا جس کے اشارات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ سورہ کہف میں ہے:
پھر (ذوالقرنین نے ایک اور مہم کا) سامان تیار کیا۔ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے تو انہیں ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل سے ہی کوئی بات سمجھتی تھی۔ ان لوگوں نے کہا: “اے ذو القرنین! یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا ہم آپ کو کوئی ٹیکس اس مد میں ادا کریں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار تعمیر کر دیں۔ “
انہوں نے کہا: “جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے ، وہ کافی ہے۔ تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان دیوار تعمیر کر دیتا ہوں۔ مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو۔” جب انہوں نے پہاڑوں کے درمیانی درے کو بند کر دیا تو لوگوں سے کہا: “تم آگ دہکاؤ۔ جب یہ (آہنی دیوار) آگ کی طرح سرخ ہو گئی تو انہوں نے کہا: “لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا۔”
یہ دیوار ایسی تھی کہ یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر نہ آ سکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لئے اور بھی مشکل تھا۔ (ذو القرنین نے) کہا: “یہ میرے رب کی رحمت ہے۔ مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ (کہف 18:91-98 )
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ذو القرنین کی سلطنت کے شمالی علاقے میں آباد اقوام پر اس دور میں بھی یاجوج و ماجوج حملے کیا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے آپ کی بنائی ہوئی دیوار کو اوپر بیان کردہ حدیث میں مذکور دیوار قرار دیا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جناب ذو القرنین کی بنائی ہوئی دیوار ساتویں صدی عیسوی تک قفقاز کے شہروں دربند اور دریال کے بیچ میں واقع تھی۔ دربند اب بھی داغستان کا ایک شہر ہے جو بحیرہ کیسپین واقع ہے جبکہ دریال پہاڑی سلسلہ ہے جو جارجیا اور روس کی سرحد پر واقع ہے۔ اسی سلسلے میں کہیں وہ دیوار رہی ہو گی۔ یاقوت حموی نے اس کا ذکر اپنی کتاب “معجم البلدان” میں کیا ہے۔بہرحال اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔
ذوالقرنین کون؟
ذوالقرنین کون تھا؟ یہ سوال ابھی تشنہ تھا کسی محقق نے سکندر اعظم کو ذوالقرنین کے خطاب سے نوازا بعض نے اس نام کو سائرس کے نام سے منسوب کیا لیکن انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا، دائرہ معارف اسلامیہ اور دیگر تحقیقی کتب بھی ذوالقرنین کے بارے میں قاری کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ لیکن قرآن حکیم اس سلسلہ میں سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک کی مختلف آیات (باتیں) اور بائبل میں واضح اشارے موجود ہیں کہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ یہ نہ تو سائرس کا نام تھا اور نہ ہی کبھی سکندر اعظم کا خطاب ذوالقرنین رہا ہے۔ میں اپنے اس فکر و خیال کو زبردستی ٹھونسنے کی بجائے دلائل کے ذریعے واضح کرنا چاہوں گاکہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہی خطاب تھا۔ ذوالقرنین سے متعلق قرآن حکیم میں جو بھی آیات ہیں اُن کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
(الکہف آیات83 -98 )
لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے پوچھتے ہیں۔ آپ انھیں کہئے کہ ابھی میں اس کا کچھ حال تمہیں سناؤں گا۔ بلاشبہ ہم نے اسے زمین میں اقتدار بخشا تھا اور ہر طرح کا سازوسامان بھی دے رکھا تھا۔ چنانچہ وہ ایک راہ (مہم) پر چل کھڑا ہوا۔ حتیٰ کہ وہ سورج غروب ہونے کی حد تک پہنچ گیا اسے یوں معلوم ہوا جیسے سورج سیاہ کیچڑ والے چشمہ میں ڈوب رہا ہے وہاں اس نے ایک قوم دیکھی۔ ہم نے کہا: ”اے ذوالقرنین! تجھے اختیار ہے خواہ ان کو تو سزا دے ٧٢۔ الف یا ان سے نیک رویہ اختیار کرے۔ ذوالقرنین نے کہا: جو شخص ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی سزا دیں گے پھر جب وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اور بھی سخت عذاب دے گا۔ البتہ جو ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے اسے اچھا بدلہ ملے گا اور اسے ہم اپنے آسان سے کام کرنے کو کہیں گے۔ پھر وہ ایک اور راہ (دوسری مہم) پر چل پڑا۔ حتیٰ کہ وہ طلوع آفتاب کی حد تک جاپہنچا۔ اسے ایسا معلوم ہوا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے کہ سورج اور اس قوم کے درمیان ٧ہم نے کوئی آڑ نہیں بنائی۔ واقعہ ایسا ہی تھا اور ذوالقرنین کو جو حالات پیش آئے اسے ہم خوب جانتے ہیں۔ پھر وہ ایک اور راہ (تیسری مہم) پر نکلا۔ تاآنکہ وہ دو بلند گھاٹیوں کے درمیان پہنچا وہاں ان کے پاس اس نے ایسی قوم دیکھی جو بات بھی نہ سمجھ سکتی تھی۔ وہ کہنے لگے : ”اے ذوالقرنین! یاجوج اور ما جوج نے اس سرزمین میں فساد مچا رکھا ہے۔ اگر ہم آپ کو کچھ چندہ اکٹھا کر دیں تو کیا آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار چن دیں گے؟”
ذوالقرنین نے جواب دیا: ”میرے پروردگار نے جو مجھے (مالی) قوت دے رکھی ہے۔ وہ بہت ہے تم بس بدنی قوت (محنت) سے میری مدد کرو تو میں ان کے اور تمہارے درمیان بند بنا دوں گا۔ مجھے لوہے کی چادریں لا دو۔ ذوالقرنین نے جب ان چادروں کو ان دونوں گھاٹیوں کے درمیان برابر کرکے خلا کو پاٹ دیا تو ان سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ تاآنکہ جب وہ لوہے کی چادریں آگ (کی طرح سرخ) ہوگئیں تو اس نے کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ کہ میں ان چادروں کے درمیان بہا کر پیوست کردوں”۔ (اس طرح یہ بند ایسا بن گیا کہ) یاجوج ماجوج نہ تو اس کے اوپر چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اس میں کوئی سوراخ کرسکتے تھے۔ ذوالقرنین کہنے لگا: یہ میرے پروردگار کی رحمت سے بن گیا ہے مگر میرے پروردگار کے وعدہ کا وقت آجائے گا تو وہ اس بند کو پیوند خاک کردے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ اس دن ہم لوگوں کو کھلا چھوڑ دیں گے کہ وہ ایک دوسرے سےگتھم گتھا ہوجائیں اور صور پھونکا جائے گا پھر ہم سب لوگوں کو اکٹھا کر دیں گے
دلیل اول
یہ کہ سورہ الکہف کی آیات 83تا98 میں ذکر ہے کہ ذوالقرنین نے سورج ڈوبنے کی جگہ یعنی زمین کی مغربین اور سورج نکلنے کی جگہ زمین کی مشرقین تک کا سفر کیا۔ زمین کی مشرقوں اور زمین کی مغربوں تک کا سفر کرنا عام آدمی کے لیے ممکن نہ تھا ۔تاہم اس قسم کا سفرحضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ممکن اور آسان تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہو اپر بھی حکمرانی عطا فرمائی تھی کہ وہ ہوا کو حکم دے کر جہاں چاہتے جا سکتے تھے ثبوت
”پس مسخر کیا ہم نے واسطے اس کے باد کو چلتی تھی ساتھ حکم اسکے کے ملائم جہاں پہنچنا چاہتا “ (سورة ص / 36:38)
اب آئیے سورہ سبا کی آیت نمبر 12کی طر ف
”اور واسطے سلیما ن کے مسخر کیا باد کو کہ صبح کی سیر اسکی ایک مہینہ کی راہ اور شام کی سیر اُسکی ایک مہینہ کی راہ ۔۔۔“ (سورة سبا / 12:34)
توجہ: حضرت سلیمان علیہ السلام کی صبح کی سیر اور شام کی سیر ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی کہ جب ٹرانسپورٹ کی ایجاد نہ ہوئی تھی اگر عام قافلہ سفر پر نکلے تو ایک دن میں تیس میل آرام سے طے کر لے اس طرح ایک ماہ کی مسافت کم و بیش نو سو میل بنتی ہے۔ جب ایک انسان یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام صبح کی سیر اور شام کی سیر میں نو سو یا ہزار میل کا سفر طے کر سکتے ہیں اگر وہ سفر پر نکلیں تو ضرور زمین کی مشرقوں اور زمین کی مغربوں تک کا سفر آسانی سے کر سکتے تھے اور سفر کیا۔ لہٰذا ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب ہے۔
دلیل دوئم
سورہ الکہف کی ان آیات میں فرمایا گیا
”کہا ہم نے اسے ذوالقرنین یا یہ کہ عذاب کرے تو اُن کو اور یا یہ کہ پکڑے تو بیچ ان کے بھلائی “ (سورة الکہف / 86:18)
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ ذوالقرنین کا مسلسل اللہ تعالیٰ سے رابطہ تھا اور ان پر وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پیغام اترتے تھے۔ جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ذوالقرنین محض ایک بادشاہ ہی نہیں بلکہ خدا کے ایک بر گزیدہ نبی بھی تھے اس طرح یہ بات بھی حضرت سلیمان علیہ السلام پر صادق آتی ہے کہ وہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ جبکہ سکندر اعظم اور سائرس کے بارے میں کوئی ایسی شہادت نہیں پائی جاتی جو اس بات کو ثابت کرے کہ یہ جرنیل یا بادشاہ نبی تھے۔ یہ بات بھی قرآن پاک سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین قیامت یعنی یوم حساب سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ قیامت کے بارے میں معلومات ہونا بھی ذوالقرنین کے نبی ہونے کی دلالت کرتا ہے کہ آیت 98 میں ذوالقرنین نے کہا
”پس جب آوے گا وعدہ پروردگار میرے کا کر دے گا اس کو ریزہ ریزہ “ ( سورة الکہف / 98:18)
دلیل سوئم
سورہ الکہف کی آیت نمبر 92تا98میں ذکر ہے کہ یا جوج ماجوج کی قوم دو پہاڑوں کے بیچ کھلے راستے (درہ)سے دوسری قوم کے علاقے میں داخل ہو کر لوٹ مار کرتے اور واپس چلے جاتے ۔ذوالقرنین کے غیر معمولی اسباب وسائل قوت و حشمت کو دیکھ کر انہیں خیال ہوا کہ ہماری تکالیف و مصائب کا سد باب ان سے ہو سکے گا ۔ انہوں نے اس بارے میں ذوالقرنین سے بات کی اور اس منصوبے پر خرچ آنے والے مصارف کی ادائیگی محصول کی صورت میں ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ذوالقرنین نے جواب میں کہا کہ جو کچھ مقدور دیا ہے مجھ کو رب میرے نے وہ بہترہے سو مدد کرو میری محنت (قوت) میں،بنا دوں تمہارے اور انکے بیچ ایک دیوار موٹی اور لا دو مجھ کو ٹکڑے لوہے کے یہاں تک کہ جب اس لوہے کی بلندی دونوں پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچ گئی تولوگوں کو حکم دیا کہ خوب آگ دھنکو اور جب تانبا تپنے کے بعد پگھلنے لگا تو اس وقت پگھلا ہوا تانبا پہاڑوں کے درمیا ن ڈال دیا۔ جو لوہے کے ٹکڑوںکے درمیان اور پہاڑوں کے درمیان جم گیا اور ایک بہت موٹی تانبے کی دیوار بن گئی اور اس کے بعد یاجوج ماجوج کبھی اس طرف کے علاقے میں داخل نہ ہوسکے ۔
توجہ: ذوالقرنین نے بے شمار وزن کا تانبا پہاڑوں کے درمیان ڈال دیا۔اتنی مقدار میں تانبا وہی شخص ڈال سکتا ہے کہ جس کے پاس بے شمار وزن تانبے کا خزانہ موجود ہو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذوالقرنین کے پاس بے شمار وزن تانبے کا خزانہ تھا جو اس نے استعمال کیا ۔قرآن پاک کی سورة سبا کی آیت نمبر 12میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت( ملک، حکومت یا قبضہ) میں ایک چشمہ ایسا عطا فرمایا تھا کہ جس سے پگھلتا ہوا تانبا بہتا آتا تھا
”اور بہا یا ہم نے واسطے اسکے چشمہ گلے ہوئے تانبے کا“ (سورة سبا / 12:34)
جس شخص کی ملکیت میں پگھلتے تانبے کا چشمہ بہتا ہو اس کے لیے پہاڑوں کی مقدار میں تانبا اکھٹا کر لینا کوئی مشکل کام نہیں لہٰذاحضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہاڑوں کے درہ میں ڈالنے کے لیے بے شمار وزن تانبا تھالو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب تھا کہ تانبے کا بے شمار خزانہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ہی موجود تھاجو دیوار میں استعمال کیا گیالیکن ایک اور سوال پیدا ہوا کہ پگھلتے بہتے تانبے کا چشمہ کسی اور جگہ ہوگا اور دیوار کسی اور جگہ بہت دور بنائی گی۔ اتنی دور کے مقام سے اتنی یعنی پہاڑ کی مقدار میں تانبا پہنچانا بھی ایک مسئلہ تھا کہ اس زمانے میں نہ سڑکیں ہوتی تھیں اور نہ ٹرانسپورٹ لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے یہ مسئلہ بھی کچھ مسئلہ نہ تھا کہ اِن کے دربار میں ایسے عفریت اور انسان تھے جو ناممکن کام ممکن کر دیکھلاتے تھے ۔جب دربار میں تخت بلقیس لانے کی بات ہوئی تھی تو
”کہا ایک دیو نے جنوں میں سے میں لے آؤں گا تمہارے پاس اس کو پہلے اس سے کہ اٹھو تم جگہ اپنی سے اورتحقیق میں اوپر اسکے البتہ زور آور ہوں با امانت(یعنی دربار برخواست ہونے سے پہلے یا محفل اٹھنے سے پہلے)٭کہا اس شخص نے کہ نزدیک اسکے تھا علم کتاب سے میں لے آؤ نگا تمہارے پاس اس کو پہلے اس سے کہ پھر آوے طرف تمہاری نظر تمہاری “ (سورة النمل / 40,39:27)
اور تخت بلقیس کو لا کر دیکھلایا۔ جو درباری پلک چھپکنے میں بہت دور سے تخت بلقیس اپنے قریب لا سکتا تھا وہی درباری تانبے کو چشمے کے قریب سے پہاڑوں کے درے کے قریب بھی آسانی سے پہنچا سکتے تھے ۔لو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور سوال پیدا ہو ا کہ تانبے کو پکھلانے کے لیے بڑی بڑی دیگیں اور کڑاہے چاہیے تھے وہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ملتے ہیں
” بناتے تھے واسطے اس کے جو کچھ چاہتا تھا قلعوں سے اور ہتھیاروں سے اور تصویر یں اور لگن (کڑاہے )مانند تا لابوں کی اور دیگیں ایک جگہ دھری رہنے والیں “ (سورة سبا / 13:34)
لو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ اس کے علاوہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس کام کرنے والوں میں انسانوں کے علاوہ جنات بھی تھے کہ وہ جن سے بڑے بڑے کرالیتے تھے ۔
” اور جنوں میں سے ایک لوگ تھے کہ خدمت کرتے تھے آگے اسکے ساتھ حکم رب اسکے کے “ (سورة سبا / 12:34)
” اور مسخر کیے شیطان ہر ایک عمارت بنانے والا اور دریا میں غوطہ مارنے والا “ (سورة ص / 37:38)
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارندوں نے عمارات بھی بنائیں اور تانبے کی دیوار ۔ دیوار کا بنانا بھی عمارت کا بنانا کہلاتا ہے لو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب ہے۔
دلیل چہارم
قرآن پاک میں اللہ تعالی کا یہ انداز بیاں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اکثر آیتیں (باتیں ) مختلف انداز سے دوبار یا دو سے بھی زیادہ بار کی گئیں ہیں ۔ پہاڑوں کے در ے سے ورلی قوم نے جب ذوالقرنین کودیوار بنانے کا کہا تو ساتھ یوں بھی کہا کہ
”کر دیویں ہم واسطے تیرے کچھ مال “ (سورة الکہف / 94:18)
تو جواب میں ذوالقرنین کے الفاظ یوں تھے کہ
” کہا جو کچھ قدرت دی ہے مجھ کو بیچ اس کے رب میرے نے بہتر ہے “ (سورة الکہف / 95:18)
عام مفہوم میں یوں کہا کہ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے مجھے تمہارے مال حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہیں ۔اس طرح جب ملکہ سبا نے بہت سے تحفے دے کر جب اپنے آدمی حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجے تو جواب میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے جواب میں کہا
”۔۔۔ کیا تم مدد دیتے ہو مجھ کو ساتھ مال کے پس جو کچھ دیا ہے مجھ کواللہ نے بہتر ہے اس چیز سے کہ دیا ہے تم کو بلکہ تم ہی ساتھ تحفہ اپنے کے خوش ہوتے ہو“ (سورة النمل / 36:27)
مطلب یہ کہ میرے پاس اللہ کادیا سب کچھ ہے اور تمہارے تحفوں سے زیا دہ بہتر ہے مجھے تمہارے مال ودولت حاصل کرنے کی نہ خواہش ہے نہ لالچ ۔ان دونوں آیتوں کا انداز بیان ثابت کرتا ہے کہ یہ ایک ہی شخص کے الفاظ ہیںلہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان
” اے ذالقرنین یا یہ کہ عذاب کرے تو ان کو اور یا یہ کہ پکڑے تو بیچ ان کے بھلائی“ (سورة الکہف / 96:18)
” یہ ہے بخشش ہماری پس بخش دے یا بند کر بغیر حساب کے “ (سورة ص / 39:38)
یہ دو آیات بھی جڑواں آیات لگتی ہیں کہ ایک ہی شخص سے کہا گیا ہے لیکن دو جگہ مختلف انداز سے بات کی گئی ہے۔
بائبل سے واضح پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے لیکن قرآن پاک میں کہیں واضح نہیں لکھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے۔ لیکن جب قرآن پاک میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے ۔قرآن پاک شاہد ہے کہ نبی کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور نبی کو ایک سے زیادہ ناموں سے یاد کیا گیا ہے ۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی ذوالقرنین کے نا م سے دیکھلایا گیا ۔ غور فکر کیجیے ۔
دلیل پنجم
آسمانی کتاب زبور کے باب 72میں سلیمان کا مزمور میں کہا گیا کہ
”زبور:باب 72 سُلیمان کا مزمُور۔1۔شا ہزادہ کو اپنی صداقت عطا فرما۔3۔ان لوگوں کے لیے پہاڑوں سے سلامتی کے اور پہاڑیوں سے صداقت کے پھل پیدا ہونگے۔8۔ اُسکی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریائے فرات سے زمین کی انتہا تک ہوگی ۔9۔بیاباں کے رہنے والے اُسکے آگے جھکیں گے اور اُسکے دُشمن خاک چاٹیں گے۔10۔ ترسیس کے اور جزیروں کے بادشاہ نذریں گذرانیں گے۔ سبا اور سیباکے بادشاہ ہدئیے لائیں گے۔ 11۔بلکہ سب بادشاہ اُس کے سامنے سرنگوں ہونگے ۔ کُل قومیں اُسکی مطیع ہونگی “
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلا م کے بارے میں دنیا کو اپنی کتاب زبور کے ذریعے آگاہ کر دیا تھا کہ یہ ایسا نبی بادشاہ ہو گا کہ جس کی بادشاہی سمندر سے سمندر تک یعنی زمین کی مشرقوں سے زمین کی مغربوں تک ہو گی اور پہاڑوں سے سلامتی الفاظ سے اشارہ ملتا ہے کہ پہاڑوں کا درہ بند کرکے وہاں کا فساد ختم کرکے سلامتی پیدا کرے گا ۔ ذوالقرنین کے حوالے سے قرآن پاک میں جو تذکرہ ہے وہ بالکل زبور میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بیان کردہ حالات و واقعات اور خواص پر بالکل منطبق ہے ۔ یہ دلیل ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب ہے ۔
ذوالقرنین کے معنی دو سینگوں والا ہے ۔ تاج میں سینگ لگا نا اس وقت عظمت حشمت دبدبے کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلا م جب سیر یا سفر کو نکلتے اور ہوا میں اڑتے سفر کرتے تو دور دراز کے جو لوگ آپ کا نام نہ جانتے تھے وہ آپ کے ا و پر دو سینگوں والا تاج دیکھ کر آپ کو ذوالقرنین کہتے جیسا کہ درہ کے قریب کے لوگ کہ جن کے لیے دیوار بنائی وہ آپ کی زبان بھی نہ جانتے تھے انہوں نے آپ کو ذوالقرنین کہا
” کہا انہوں نے اے ذوالقرنین“ ( سورة الکہف / 94:18)
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں سروں پر سینگوں کا تاج یا ٹوپا لگا یا جاتا تھا ۔ جواب اس کا زبور باب 75 میں مل جاتا ہے کہ واقعی اس دور میں سردار قسم کے لوگ سروں پر سینگوں والا تاج یا ٹوپا پہنتے تھے کہ فرمایا گیا ۔
”زبور: باب 75:4۔اور شریروں سے کہ سینگ اونچا نہ کرو ۔5۔اپنا سینگ اونچا نہ کرو۔
10۔ اور میں شریروں کے سب سینگ کاٹ ڈالوں گا۔ لیکن صادقوں کے سینگ اُونچے کیے جائینگے۔“
قرآن پاک میں ایک سوال آیا
” اور سوال کرے ہیں تجھ کو ذوالقرنین سے “ (سورة الکہف / 83:18)
قرآن پاک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب فرہم کرتا ہے اور کوئی ایسا سوال نہیں کہ جس کے بارے میں قرآن پاک میں خاموشی ہو یا کوئی ابہام پیدا ہو لیکن تلاش کرنے والوں کے لیے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے قرآن پاک میں کھلی نشانیاں ہیں ۔
یہ کہ سکندر اعظم نے مشرق میں برصغیر تک سفر کیا اور بیمار ہو گیا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا اور راستے میں فوت ہوا لہٰذاثابت ہے کہ سکندراعظم زمین کی مشرق سورج نکلنے کی جگہ نہ پہنچ سکا اور سائرس نے مہمات روانہ کیں خود کم سفر کیا لہٰذا یہ ذوالقرنین نہ ہوئے۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ مجھے سب سے بڑی بادشاہی عطا فرما بمطابق قرآن پاک
”کہا اے پروردگار میرے بخش مجھ کو اور دے مجھ کو ملک کہ نہیں لائق ہو واسطے کسی کے پیچھے میرے تحقیق تو ہی ہے بخشنے والا“ (سورة ص / 38:35)
اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس دعا کے نتیجے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو سب سے بڑی بادشاہی عطا کی جو ذوالقرنین کے خطاب سے لکھی کہ آپ کی حکومت مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تھی۔
اب آئیے قرآن پاک کے ان ترجموں کی طرف
”اور مسخر کیے شیطان ہر ایک عمارت بنانے والا اور دریا میں غوطہ مارنے والا “ (سورة ص / 38:37)
”اور شیطانوں میں سے مسخر کئے وہ جو غوطہ مارتے تھے“ (سورة الانبیاء / 21:82)
سوال: مندرجہ بالا آیات میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارندے جو بڑی بڑی عمارات بناتے تھے اور غوطہ لگاتے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کیوں کہا؟ ٓآخر انہوں نے ایسا کیا کام کِیا تھا کہ قرآن پاک میں ان کے لیے شیطان کے الفاظ آئے؟
جواب: جواب کے لیے ہمیں سارے پس منظر میں جانا پڑے گا۔ یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین کی صبح او ر شام کی سیر ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔ بائبل سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین کا دارالخلافہ دریائے فرات کے قریب تھا کیونکہ فرمایا گیا۔
”زبور:باب 72 سُلیمان کا مزمُور۔8۔ اُسکی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریائے فرات سے زمین کی انتہا تک ہوگی“
اور سورة سبا میں فرمایا گیا
”اور واسطے سلیما ن کے مسخر کیا باد(ہوا) کو کہ صبح کی سیر اسکی ایک مہینہ کی راہ اور شام کی سیر اُسکی ایک مہینہ کی راہ“ (سورة سبا / 34:12)
یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا گیا تھا کہ ان کی صبح کی سیر اور شام کی سیر ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے شیطان سے کون سی عمارتیں بنوائیں۔ پہاڑ کی چوٹی کا کٹاہوا حصہ اورا حرام مصر کا نقشہ ایک جیسا بنتا ہے کہ جیسے کسی پہاڑ نے بہت بڑے پتھر کاٹ کر لا کر احرام مصر بنائے گئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بنائی ہوئی عمارات لازمی بات ہے عجوبے ہونگے اور اس علاقے میں عمارات میں عجوبے احرام مصر نظر آتے ہیں جو کہ ظاہر ہے حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین نے ہی بنائے ہونگے اور یہ کام شیطان جنات سے کرایا کہ یہ احرام مصر کا بنانا اس وقت انسانی کام نظر ہی نہیں آتا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے وہ شیطان کارندے کہ جن کواللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بس میں کر دیا تھا وہ مجبور تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد انہوں نے شیطانی کام یہ کیا کہ احرام مصر کے ساتھ ابوالہول بت کا مجسمہ بھی بنا دیا تا کہ بعد کے آنے والے لوگوں کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا فر اور بت پرست تھے”نعوذ باللہ “اور یوں ہوا بھی کہ بعد میں یہود کے کچھ لوگوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جادوگر وغیرہ کہا ور اللہ کا نبی نہ مانا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارندوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں شیطان اس لیے کہا کہ انہوں نے حضرت سیلمان علیہ السلام کی وفات کے بعد شیطانی کام کیے اور بت ابو الہول بنایا۔
دوستوں یہ وہ معلومات تھی جو بہت ساری کتابوں سے حاصل ہوئی تھی مجھے
میرا اپنا نطریہ اس پر یہ ہے اللہ نے قران میں انسانوں اور جنات دونوں میں جو شر پسند لوگ ہیں انہیں شیاطین کا نام دیا ہے یاجوج سخت آگ سے بنی مخلوق ہے یہ جنات میں وہ شریر جن ہیں جو ابلیس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔ ماجوج وہ ہیں جنکے قبضے میں آگ ہو یا پھر جو گ کے رکھوالے ہوں یہ انسانوں میں ایک بڑا گروھ ہے جو شیطان کے آلا کار ہیں انہیں دنیا ملحد ۔۔کمیونسٹ ۔۔۔فریسمسن ۔۔سیکرٹ سوسائٹی ۔۔۔مین ان بلیک ۔۔۔عالمی برادری ۔۔۔ یورپی یونین کے نام سے جانتی ہے ۔۔۔۔ حضرت سلیمان علہ السلام کے زمانے میں بھی ابلیس کے نمائندہ دجال کی سربراہی میں یہ گروھ سرگرم تھا جو دنیا میں فساد مچایا کرتا تھا
۔حضرت سلیمان علہ السلام جنکو قران زولقرنین کے لقب سے بھی پکارتا ہے جب انہیں اس گروھ کی سازشوں اور فساد کا علم ہوتا ہے تو وہ مغرب کی طرف جہاں سب سے آخر میں سورج غروب ہوتا ہے امریکا کی ریاست فلوریڈا سے اگے برمودہ ٹرائینگل کے جزیروں پر پہنچ کر وہاں کے شریر جنوں کو برمودہ ٹرائینگل کے اندر قید کردیتے ہیں لیکن دجال وہاں سے بھاگ جاتا ہے پھر حضرت سلیمان علہ السلام اسکے پیچھے مشرق کی اس جگہ پر پہنچتے ہیں جہاں سورج ایسی قوم پر طلوع ہوتا ہے جہاں سورج اور اس قوم کے درمیان کو آڑ نہیں تھی یہ مشرق جاپان کا ڈیول سی کا علاقہ ہے جو 12 جزیروں پر مشتمل ہے ۔۔۔ ڈیول سی کا مطلب ہے شیطانی سمندر حضرت سلیمان علیہ السلام پھر دجال کو اس جگہ پر قید کرتے ہیں اسکے بعد پھر وہ اپنی تیسری مہم کی طرف روانہ ہوتے ہیں جسکا زکر سورہ کہف میں ہو رہا ہے ۔۔ آذربائیجان (Azerbaijan) جس کو سرکاری طور پر جمہوریہ آذربائیجان کہا جاتا ہے، یوریشیا کے جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان واقع اس ملک کے مشرق میں بحیرہ قزوین، شمال میں روس، مغرب میں آرمینیا اور ترکی، شمال مغرب میں جارجیا، اور جنوب میں ایران واقع ہیں۔ آذربائیجان کے جنوب مغرب میں واقع نگورنو کاراباخ اور سات مزید اضلاع نگورنو کاراباغ کی 1994ء کی جنگ کے بعد سے آرمینیا کے قبضے میں ہیں۔۔۔ یہاں پر دو پہاڑوں کے بیچ میں ایک نہر ہے ان پہاڑوں پر تانبہ پگھلا کر پہاڑوں کی راستوں کو بند کرکے ماجوج کو قید کیا تھا حضرت سلیمان علہ السلام نے لیکن نبی ﷺ کے دور میں یہ کمیونسٹ دہریہ وحشی انسان آزاد ہوگئے تھے جسکا زکر بخاری کی اس حدیث میں ہے ۔۔۔۔۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 604 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 7
یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ بن زبیر زینب بنت ابوسلمہ حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن سے روایت کرتی ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن ان کے پاس گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ لا الہ الا اللہ عرب کی خرابی ہو اس شر سے جو قریب آگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کا حلقہ بنا کر اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج اس کے برابر یاجوج ماجوج نے دیوار میں سوراخ کر لیا ہے حضرت زینب نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اس وقت جبکہ فسق وفجور کی زیادتی ہو جائے گی۔۔۔
یاجوج ماجوج نبی ﷺ کی اس پیشنگوئی کے مطابق مسلمان ان سے جب تک محفوظ رہینگے جب تک فسق اور فجور کی زیادتی نہ ہونے لگے ترکوں کی خلاف جب تک قائم تھی مسلمان انکے عزاب سے محفوظ تھے خلافت عثمانیہ کے بعد پھر دنیا میں انکا غلبہ ہوگیا
علامہ اقبال نے بھی اپنے ایک شعر کے زرہیے مسلمانوں کو آگاہ کیا تھا کی یاجوج ماجوج کھل چکے ہیں
کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ‘ ینسلون ‘
یاجوج ماجوج کے لشکر تمام یعنی بہت ساری اقوام پر مشتمل گروھ ہے یہ انسانوں میں جنات میں شائد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو یہ
اللہ نے بنی آدم کو 10 حصوں میں تقسیم کیا 9 حصے یاجوج ماجوج بنائے اور باقی ایک حصہ میں باقی کے عام انسان (مستدرک حاکم )
ایک دوسری حدیث میں الفاظ کچھ یوں ہیں
نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر انہیں کھلا چھوڑدیا جائے تو وہ لوگوں پر انکے معاش میں فساد پھیلایئنگے ۔ (طبرانی )
یعنی اس دنیا کا سودی نظام ۔۔ کارپوریٹ کلچر ۔ اور کمیونسٹ معیشیت سرمایا دارانہ نظام ۔۔ جمہوریت کے زریئے انسانوں کو تقسیم کرنا ۔۔ دنیا میں جنگیں کرانا
فحاشی عریانیت کا سیلاب ۔۔ خاندانی منصوبی بندی کے نام پر بچوں کا قتل عام کرنا ۔۔ دنیا میں بیماریاں پھیلانا ۔۔۔ یہ سب انکے فساد کی علامات ہیں ۔۔
قرآن کریم میں یاجوج ماجوج کی پیش قدمی کا زکر کچھ اس طرح ہے
اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے. (سورۃ تکویر:4)
یعنی جب بڑی بڑی حکومتیں دوسرے بر اعظموں کی طرف پیش قدمی کرینگی۔ان آیات میں اسلام کا زوال اور آخری زمانہ کا ذکر ہے۔اس کے علاوہ فرمایا :
اور جب وحشی اکٹھے کئے جائیں گے۔ (سورۃ التکویر:6)
اس آیت میں یاجوج ماجوج کا زکر ہو رہا ہے جو آج یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔۔ اس میں بہت ساری قومیں آجاتی ہیں ۔۔ روس ۔ چین
ترکی ۔۔ امریکا ۔۔ برطانیہ ۔۔ اسرائیل ۔۔ ایرانی ۔۔ ھندوستانی ۔۔ اسرائیلی غرض یہ دنیا میں پھلے تمام سیکولر ۔۔ ملحد ۔۔ زایئنسٹ فریمسن قسم کے لوگ جہنوں نے دنیا میں سودی نظام قائم کرکے انسانیت کو خون نچوڑا ہوا ہے ابھی تو اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں شامل تمام ممالک دجال کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں انہیں روکا ہے ہے انکے لیڈر دجال نے لیکن جب حضرت عیسی علہ السلام کے پاتھوں دجال قتل ہوگا تو اس قوم کو سنبھالنے والا اس وقت کوئی نہیں ہوگا یہ ساری اقوام مسلمانوں پر غصے سے حملہ آور ہوجایئنگی اس وقت پھر دنیا میں انکا وحشی پن کھل کر سامنے آیئگا ۔۔۔
یاجوج ماجوج کی طاقت اور انکے ناقابل تسخیر قوم ہونے کا زکر صحیح مسلم کی ایک حدیث قدسی میں کچھ یوں ہوا ہے جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
ہم نے اپنی مخلوق میں سے ( یاجوج ماجوج ) ایسے تخلیق کیئے ہیں کہ انکو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا حتی کے میں ان سے جنگ کروں ۔۔
قران پاک میں یاجوج ماجوج کو فساد پھیلانے والے کہا گیا ہے اور جنہیں اللہ خد ختم کریگا ۔۔۔ دجال کے قتل کے بعد یاجوج ماجوج حملہ کردینگے مسلمانوں پر پھر حضرت عیسی علہ السلام مسلمانوں کو کوہ طور پہاڑ پر لیجا کر دعا کرینگے پھر اللہ انہیں ایک بیماری میں مبتلا کرکے ختم کریگا ۔
یاجوج ماجوج کون ہیں مفسرین کی نظر میں:
اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں بعض قوموں کا تذکرہ ان کے ناموں کے ساتھ اور بعض کو ان میں مبعوث ہونے والے انبیاء و رسل کے ناموں سے منسوب کرکے پکارا ہے۔ ان میں اکثر و بیشتر اقوام ہلاک کر دی گئیںاور کچھ ہیں جو باقی ہیں۔ نسل انسانی میں سے ہی یاجوج ماجوج بھی ہیں۔ قرآن مجید میں اس قوم کی خصوصیات نیز ان کا قرب قیامت تک دنیا میں موجود رہنا وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود یاجوج و ماجوج کی شناخت کا معاملہ مشتبہ رہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں عجیب الخلقت سمجھا گیا حالانکہ یہ نسل انسانی میں سے ہی ہیں۔ یاجوج و ماجوج کے موضوع پر علمائے دین کی چند تحقیقات ایک خاص ترتیب کے ساتھ یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔ اس مقصد کی خاطر تاکہ انکی پہچان میں کوئی شک نہ رہے ۔۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یاجوج و ماجوج کا تذکرہ سورۃ الکہف میں اور سورۃ الانبیاء کی چند آیات میں کیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ تفہیم القرآن سے نقل کیا جارہا ہے۔
سورۃ الکہف:یہاں تک کہ جب وہ (ذوالقرنین ) دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل سے ہی کوئی بات سمجھتی تھی (۹۲) ان لوگوں نے کہا ۔ اے ذوالقرنین ، یاجوج و ماجوج اس سر زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کام کے لئے دیں کہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کردے۔ (۹۶۔۹۳) (یہ بند ایسا تھا ) کہ یاجوج وماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آ سکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لئے اور بھی مشکل تھا۔(۹۷)۔ ذوالقرنین نے کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے، مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کردے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے ۔(۹۸) اور اس روز ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ ( سمندر کی موجوں کی طرح ) ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوں گے اور صور پھونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے۔ (۹۹)۔
سورۃ الانبیاء :اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو ، وہ پھر پلٹ سکے۔(۹۵) یہاں تک کہ جب یاجوج وماجوج کھول دئے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے۔(۹۶) اور وعدہ بر حق کو پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا تو یکایک ان لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کفر کیا تھا۔ کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے بلکہ ہم خطا کار تھے۔ (۹۷)
قران مجید میں ذوالقرنین کی تین فوجی مہموں کا تذکرہ ہے۔ پہلی مہم میں وہ مغرب کی جانب ملک پر ملک فتح کرتا ہوا خشکی کے آخری سرے تک پہنچ گیا جس کے آگے سمندر تھا۔ اس طرح اس مہم میں بحراسود تک تما م ایشیائے کوچک اس کے زیر اثر آگیا۔ دوسری مہم میں مشرق بعید کے بعض وحشی اور صحرہ نشین قبائل نے سرکشی اور بغاوت کی۔ یہ وہ علاقہ ہے جو آج کل مکران کہلاتا ہے ۔ اس مہم میں بھی اسے کامیابی حاصل ہوئی۔ تیسری مہم ایران کے شمال کی جانب پیش آئی۔ اس مہم میں وہ بحر کاسپین (Caspian sea) (بحرخزر) کو داہنی جانب چھوڑتا ہوا کاکیشیاکے پہاڑی سلسلہ تک پہنچتا ہے۔ انہیںپہاڑوں میں اس کو ایک درہ ملتا ہے جو دو پہاڑوں کے درمیان پھاٹک کی طرح نظر آتا ہے۔ اس مقام پرجب وہ پہنچا تو ایک قوم نے اس سے یاجوج و ماجوج قبائل سے تاراج ہونے کی شکایت کی کہ وہ اس درے سے نکل کر ہم کوتباہ و برباد کر ڈالتے ہیں۔ چنانچہ سائرس (ذوالقرنین) نے لوہا اور تانبا استعمال کر کے اس پھاٹک کو بندکر دیا اور دھات کی ایک سد (دیوار)قائم کر دی۔ یہ سیتھین قوم کے سرحدی حملے تھے۔ جن کی روک تھام کے لئے سائرس نے خاص انتظامات کئے تھے۔ یہ سیتھین قبائل ہی یاجوج و ماجوج کے نام سے جانے جاتے تھے جو قریب کی آبادیوں کو تاخت و تاراج کرتے تھے۔
یاجوج و ماجوج کون ہیں؟
اکثر مفسرین نے یاجوج و ماجوج کی شناخت میں بہت کچھ بیان کیا ہے۔ ، اس میں سے کچھ اس طرح ہے:یہاں چند باتیں اختصار کے ساتھ پیش
یاجوج و ماجوج در اصل ایشیاء کے شمال مشرقی علاقہ کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملہ کرتی رہی ہیں اور جن کے یلغار کا رخ ایشیاء اور یورپ کی طرف رہا ہے۔ بائبل کی کتاب پیدائش(باب ۱۰) میں ان کو حضرت نوحؐ کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے اور یہی بیان مسلمان مورخین کا بھی ہے ۔ حزقی ایل کے صحیفے (باب ۳۸؍۳۹) میں ان کا علاقہ روس اور توبل (موجودہ توبالسک) اور مسک (موجودہ ماسکو) بتایا گیاہے۔ اسرائیلی مورخ یو سیفوس ان سے مراد سیتھین قوم لیتا ہے۔ جن کا علاقہ بحر اسود کے شمال اور مشرق میں واقع ہے۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشاکے شمال میں بحر خزر (Capsian sea )کے قریب آباد تھے۔ سورۃ الکہف (تفہیم القران جلد سوم)
البیہقیؒ کی کتاب البعث کے حوالے سے مشہور صحابی ابن عمر ؓ کی ایک روایت تفسیر کی کتابوں میں پائی جاتی ہے جس میں حضرت ابن عمرؐ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ـ یعنی یاجوج و ماجوج کے پیچھے تین قومیں ہیں۔ تاویل، تالس ،منسک
امام بیہقی ؒکے علاوہ امام سیوطی ؒ نے لکھا ہے کہ طبرانی ابن ا لمنذر وغیرہ حدیث کے چوتھے درجہ کی کتابوں میں بھی یہی روایت پائی جاتی ہے اور علاوہ ابن عمر ؒ کے دوسرے صحابی عبداللہ بن مسعود ؓ کی طرف بھی یہ بیان منسوب کیاگیا ہے کہ انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی سنا تھا۔( درمنثور)
قرآن مجید میں یاجوج و ماجوج سے متعلق بیان کردہ تذکرہ کی روشنی میں مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے ان کی زندگی کے چار دور گنائے ہیں۔
پہلا دور: پہلے دورمیں ان کی قومی خصوصیت جو قرآن نے بیان کی ہے وہ زمین میں فساد پیدا کرنے کی ہے۔
دوسرا دور: اس دور میں ذوالقرنین کی دیوار تعمیر ہو جانے کے بعد وہ جب غیرو ں سے مایوس ہوگئے تو آپس میں ہی لڑتے بھڑتے اور باہم دست و گریباں ہوتے رہے۔
تیسرا دور: اس دور کا تذکرہ سورۃ الانبیاء کی آیت۹۶ میں کیا گیا ہے یعنی ’’یہاں تک کہ جب کھول دیے گئے یاجوج وماجوج اور وہ ہر حدب(ڈھلان )سے تیزی کے ساتھ چل نکلیں گے ـ۔‘‘ اس دور میں انہیں قیامت سے قبل غیر اقوام کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا موقعہ دیا جائے گا۔اس دور کی تعبیر’’فتح یاجوج وماجوج‘‘ یا ’’ خروج یاجوج و ماجوج‘‘ سے کی جاتی ہے۔
چوتھا دور:اس دور کا تذکرہ سورۃ الکہف کی آیت۹۹ ’’پھونک دیا جائے صور پھر ہم ان کو یعنی یاجوج و ماجوج کو اچھی طرح سمیٹ لیں گے۔‘‘
کھول دیے گئے یاجوج و ماجوج؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خروج یاجوج و ماجوج کی بابت اشارہ بخاری میں ہے حضرت زینب بنت حجش ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپؐ کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور آپ ؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے۔ لا الٰہ الا اللہ ، اہل عرب کے لئے قریب آنے والے شر میں تباہی ہے، آج یاجوج وماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے اور سفیان نے انگلی بندکر کے دکھائی۔ کسی نے پوچھا کہ نیک لوگوں کی موجودگی میں بھی کیاہم ہلاک ہو سکتے ہیں۔ فرمایا:ہاں! جب گندگی بڑھ جائے ۔
اس حدیث سے متعلق جید علماء نے کیا سمجھا؟
’’اس مشہور روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ گویا اس کی اطلاع دے چکے تھے کہ یاجوج و ماجوج کی قومی زندگی کے تیسرے دور کے ظہور کے امکانات آپ ہی کے زمانے میں قریب آ چکے تھے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کوئی کہنا چاہے تو کہہ سکتا ہے کہ ظہور کے آغاز کی کرن عہد نبوت میں پھوٹ چکی تھی۔بہر حال یہ مسئلہ کہ خروج کے سارے ساز و سامان اور زمین کی تیاری کا کام عہد نبوت میں جو شروع ہو چکا تھا اس کی تکمیل کا وقت بھی کیا کوئی متعین کیا گیا ہے۔ اس سورۃ الانبیاء کی آیت ۹۶ ’’تااینکہ کھول دئے گئے یاجوج و ماجوج اور ہر حدب (ڈھلان )سے تیزی سے چلتے ہوئے وہ نکل پڑے۔ ‘‘ یعنی زمین کے سارے معمورہ میں پھیل پڑیں گے اور اس طرح پھیل پڑیں گے کہ ان کی آمد کا یہ سلسلہ جاری رہیگا اور بڑی تیزی کے ساتھ آباد حصوں میں گھسنے لگیں گے تب سمجھا جائے گا کہ عہد نبوت میں جس خروج کے لئے سوراخ پیدا ہوا تھا وہ مکمل ہو گیا اور کھول دیئے گئے یاجوج و ماجوج کی پیشن گوئی تکمیلی شکل میں سامنے آگئی۔اس لئے حضرت مولانا انور شاہ ؒ کشمیری کا خیال یہ تھا کہ یاجوج وماجوج کے خروج کا واقعہ دفعتاً پیش آنے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ ان کے خروج یکے بعد دیگرے پیش آتے رہیں گے۔‘‘ (دجالی فتنہ کے نمایاں خد وخال ۔ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ)
حضرت انور شاہ کشمیری ؒ کی یہ بات توجہ طلب ہے کہ ’’ ان کے خروج یکے بعد دیگرے پیش آتے رہیں گے۔‘‘
کیا حدیث بخاری میں تاریخ امت کے کسی خاص حادثہ کی طرف اشارہ سمجھا گیا ہے؟
’’تاریخ امت سے متعلق اس حدیث سے ہمارے علماء نے یہ سمجھا ہے کہ سد (دیوار) ذوالقرنین کے استحکام کی مدت ختم ہوگئی اور اب اس میں رخنہ پڑنے کی ابتداء ہو چکی ہے ۔ گویا وہ اب آہستہ آہستہ شکست و ریخت سے دو چار ہو جائے گی اور نبی ﷺ ایک ایسے شر کی اطلاع دے رہے ہیں جس کا اثر یہ ہوگا کہ عرب کوسخت ہلاکت کا سامنا ہوگا اور خلافت قریش زوال پذیر ہوگی۔ شارح بخاری کرمانی بعض علماء سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث میں ایسے حادثہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کا ظہور قیامت کی علامت سے مختلف درمیانی وقفہ میں پیش آنے والا ہے جو باعث ہوگا عرب کے زوال کا اور فتح ردم استعارہ ہے اس بات سے کہ جو حادثہ آئندہ پیش آنے والا ہے اس کی ابتدا ہو گئی ہے اور یہ وہ حادثہ ہے جو معتصم با اللہ خلیفہ عباسیہ کے زمانے میں فتنہ تاتار کے نام سے برپا ہوا اور جس نے عرب طاقت یعنی خلافت قریش کا خاتمہ کر دیا۔ ‘‘ (عمدۃ القاری:فتنہ یاجوج و ماجوج)
علامہ انور شاہ کشمیری ؒ فیض الباری جلد ۴ صفحہ ۴۲۳ میں فرماتے ہیں:
’’ قرآن میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ یاجوج و ماجوج کے خروج کاواقعہ دیوار ٹوٹنے کے ساتھ ہی پیش آ جائے گا، بلکہ دیوارٹوٹنے کا وعدہ صرف سورۃ الکہف والی آیت میں کیا گیا ہے اور دیوار حسب وعدہ ٹوٹ گئی، لیکن یہ بات کہ دیوارٹوٹتے ہی بغیر کسی وقفہ کے یاجوج و ماجوج نکل پڑیںگے۔ قرآن میں کوئی ایسا حرف نہیں پایا جاتا جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے۔ ‘‘(دجالی فتنہ کے نمایاں خدو خال : مولانا مناظر احسن گیلانی )
خروج یاجوج و ماجوج
ہمارے اکابر علماء نے فتنہ تاتار کو خروج یاجوج و ماجوج سے تعبیر کیا ہے۔ کیا اس کے بعد کے دور میں بھی خروج یاجوج و ماجوج کی نشاندہی کی گئی ہے ؟ جی ہا ں ۔
مولانا حکیم ظل الرحمٰن اپنی کتاب ’’ذوالقرنین ،یاجوج و ماجوج او ر جائے وقوع، دیوار ذوالقرنین ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’بعض علماء کی رائے کہ ان قبیلوں (یعنی یاجوج و ماجوج ) کی نسلیں روسی اور یورپین اقوام ہیں اور ان حکومتوں کے سابقہ دو صدیوں کی وسعتوں کو فتحت سے تعبیر کرنے کو بے وزن قرار نہیں دیا جا سکتا ۔مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے اقوام روس اور یورپ کو یاجوج و ماجوج کی نسلوںسے تعبیر کیا ہے اگر ا س کو تسلیم کر لیا جائے تو صلیبی جنگوں کے واقعات ۱۸۵۷ ء، کے بعد اقوام یورپ کے ذریعے سرمایا دارانہ نظام کا پھیلاؤ ،جنگ عظیم کے بعد فلسطین کی تباہی اور کمیونزم کے پھیلاؤ کو لفظ فتحت سے تعبیر کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ‘‘
حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔اور یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ ذوالقرنین کا قول (پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اس کوگرا کرریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے رب کی فرمائی ہوئی بات سچ ہے ) اس کا اپنا ہے اور قرینہ سیاق و سباق میں ایسا موجود نہیں ہے جس سے سد (دیوار)کے ریزہ ریزہ ہو جانے کے واقعہ کو علامات قیامت میں شمار کیا جائے اور شاید ذوالقرنین کو یہ علم بھی نہ ہو کہ اشراط ساعت میں سے خروج یاجوج وماجوج بھی ہے اور اس نے وعدہ ربی سے صرف اس کا کسی وقت میں ٹوٹ پھوٹ جانا مراد لیا ہو۔ پس اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’ کہ ہم نے کر چھوڑا ان کو اس دن سے اس حالت میں کہ بعض بعض پر امڈ رہے ہیں ۔ ‘‘استمرارتجددی پر دلالت کرتا ہے یعنی برابر ایسا ہوتا رہے کہ ان میں بعض قبائل بعض پر حملہ آورہوتے رہیں گے۔حتیٰ کہ خروج موعود کا وقت آ جائے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد جو کہ سورۃ ابنیاء میں ہے ’’ حتی اذافتحت ‘‘ تو البتہ یہ بلا شبہ علامات قیامت میں سے ہے لیکن اس میں سد (دیوار) کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ہے پس اس فرق کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ آخر میں ارشاد فرماتے ہیں میں نے ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے وہ قرآن میں تاویل نہیں بلکہ قرآن عزیز کے کسی لفظ کو اس کے اپنے موضوع سے نکالے بغیر تاریخ اور تجربہ کے پیش نظر مزید اظہار خیال ہے ۔‘‘
شیخ عمران حسین کی تحقیق
دور حاضر کے محقق فضیلت الشیخ عمران حسین اپنی گراں قدر تصنیف ’’القدس اور اختتام وقت ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’قرآن کریم نے ایک نمایاں نشانی بتائی ہے جس سے نہ صرف یاجوج وماجوج کی رہائی کا علم ہو جائے گا بلکہ یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ دنیا اس وقت یاجوج و ماجوج کے کنٹرول میں ہے۔ ’’ جس بستی کو ہم نے تباہ کر دیا تھا اس کے باشندوں پر پابندی ہے کہ وہ وہاں نہیںجا سکتے جب تک یاجوج و ماجوج نہ کھل جائیں۔ اور وہ تمام بلندیوں سے اترتے نظر آئیں گے۔(یا ہر سمت میں بڑھتے نظر آئیں گے) ‘‘ (سورۃ الانبیاء ،۹۵؍۹۶) جب یاجوج وماجوج رہا ہو جائیں گے اور ہر سمت میںچھا جائیں گے تو وہ لوگ جو عذاب سے تباہ کئے گئے تھے یعنی یہود دوبارہ لا کر اس بستی میں بسائے جائیں گے۔اور ایسی بستی صرف ایک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تباہ کر دیا تھا اور جس کا تذکرہ یاجوج و ماجوج کے ساتھ احادیث میں بھی مذکور ہے اور وہ یروشلم ہے۔‘‘
سورۃ الانبیاء کی آیت ۹۵،۹۶ کسی خاص واقعہ کو یاجوج و ماجوج کے خروج کی ایک واضح نشانی کے طور پر پیش کرتی ہے اور اس کا سمجھنا آج کے دور کے حالات کے تناظر میں نہایت ہی اہم اور ضروری ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ سورۃ بنی اسرائیل میں یہود پر اللہ تعالیٰ کے دو بار عذاب کے نزول کے تذکرے کے بعد اس بات کی بھی آگے ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ’’ اگر تم واپس ہو جاؤ گے تو ہم بھی واپس ہوں گے۔ ‘‘ اس پر اظہار خیال کے بعد سورۃ الابنیاء کی آیت ۹۵ ’’ اور روک لگی ہوئی ہے اس آبادی پر جسے ہم نے ہلاک کر دیا کہ وہ نہ واپس لوٹیںگے تااینکہ جب کھول دئے جائیں یاجوج و ماجوج اور ہر ڈھلاؤ(حدب) سے وہ تیزرفتاری کے ساتھ نکلیں۔‘‘ کو پیش کرنے کے بعد مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ لکھتے ہیں:
’’اس کا اگر یہ مطلب سمجھا جائے کہ یاجوج و ماجوج کے کھلنے سے پہلے برباد اور تباہ ہونے والی بستیوں کو دو بارہ سر اٹھانے اور عروج و ترقی حاصل کرنے کا موقع یاجوج و ماجوج کے کھول دئے جانے کے بعد ہی مل سکتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ قرآنی تعبیر کے طرز خطاب سے جومانوس ہیں ان کے لئے یہ کوئی چھپنے کی سی بات ہو۔‘‘ (دجالی فتنے کے نمایاں خدو خال)
یاجوج و ماجوج کی پہچان پر آخر پردہ کیوں پڑا رہا ؟ اس کی وجہ غالبا یہ رہی ہے کہ عموماً ان قوموں کو غیر متمدن اور وحشی قومیں تصور کیا گیا ہے اور وقت کے گذرنے پر جب یہ متمدن ہو گئیں تو ان پر یاجوج وماجوج ناموں کے چسپاکئے جانے پراشتباہ رہا ۔ البتہ ان کے شر وفساد کا سلسلہ برقرار رہا اور وقت انہی ہنگاموں میں گذرتا رہا تااینکہ جنگ عظیم اول کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا ۔ یروشلم پر قبضہ ہو گیا اور بعد از آں اسرائیلی ریاست کے قیام کا عندیہ دیا گیا اور ساتھ ہی قوم یہود کو یروشلم لا کر بسانا شروع کیا گیا۔ ان واقعات نے سورۃ الانبیاء کی متذکرہ آیات پر پڑے پردوں کو ہٹا دیا اورہلاک شدہ یا عذاب زدہ قوم کے یروشلم واپس پلٹ آنے پر یاجوج وماجوج کے خروج کو ایک واضح نشانی کی صورت میں ظاہر کر دیا اور وہ پہچان لئے گئے۔ لیکن یہ واقعات تو اصلاً نتیجہ ہیں گذشتہ چند صدیوں پر پھیلے مسلسل مسلمانوں کے اقتدار کی پسپائی کا اور مجموعی طور پر امت مسلمہ کے زوال پذیر ہونے کا۔
انجیل کا انکشاف
یہاں یہ انکشاف حیرت انگیز ہے کہ نیا عہد نامہ یعنی انجیل کے آخری حصہ میں یوحنا عارف کا ایک مکاشفہ ہے جس میںیاجوج و ماجوج کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ اس مکاشفہ سے قبل بھی ایک مکاشفہ ہے اور دونوں میں واضح تعلق پایا جاتا ہے۔ ان دونوں مکاشفوں میں بیان کردہ پیشین گوئیوں پر غور و فکر کیا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ اس میں سولہویں صدی کے وسط کا زمانہ زیر تذکرہ ہے اور یہ تاریخ اسلامی کا وہ دور ہے جسے بجا طور پر امت کے زوال کی ابتدا کا دور سمجھا جا تا ہے اور اس کے بالمقابل مغرب کی نشاۃ الثانیہ کی ابتدا کا یہ زمانہ ہے اور غالباً اسی دور سے مغربی اقوام کا مسلمان حکومتوں پرپے در پے حملوں کا سلسلہ جاری ہوا ہے ۔ یہ وہی زمانہ ہے جب مغرب میں مذہب بے زاری کی لہر اٹھی اور آزادی ٔ فکر اور خدا سے بغاوت کے نظریات اختراع کئے گئے۔ اور نظام زندگی کو ان کے مطابق ڈھالنے کی مسلسل شدت پسندی کے ساتھ جد و جہد کی گئی۔
یہ عجیب بات ہے کہ ’’نیا عہد نامہ‘‘ یعنی انجیل کے نام سے جو مجموعہ اہل کتاب میں موسوم ہے ۔اس میں ایک چھوٹا رسالہ بالکل آخر میں یوحنا عارف کا مکاشفہ کے نام سے بھی شریک ہے۔ ہم یہاں بائبل سوسائٹی ہند بنگلور کی شائع کردہ ’’کتاب مقدس یعنی پرانا اور نیا عہد نامہ‘‘ کے آخر ی حصے سے یوحنا عارف کے دو مکاشفے نقل کرتے ہیں۔مقصد ان مکاشفوں میں بیان کردہ پیشین گوئیوں پر مولانا مناظر احسنؒ گیلانی ؒکی تحقیق پیش کرنا ہے۔جو قابل توجہ ہے۔مکاشفہ ۱۹ ( ۱۱ تا ۱۶) اس طرح بیان ہوا ہے۔
’’ پھر میں نے آسمان کو کھلا ہوا دیکھا اور کیا دیکھتاہوں کہ ایک سفید گھوڑا ہے اور اس پر ایک سوار ہے، جو سچا اور برحق کہلاتا ہے اور وہ راستی کے ساتھ انصاف اور لڑائی کرتا ہے اور اس کی آنکھیں آگ کے شعلے ہیں اور اس کے سر پر تاج ہے اور اس کا ایک نام لکھا ہوا ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیںجانتا اور وہ خون کی چھڑکی ہوئی پوشاک پہنے ہوئے ہے اور اس کا نام کلام خدا کہلاتا ہے اور آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر سوار اور سفید صاف مہین کتابی کپڑے پہنے اس کے پیچھے پیچھے ہیں اور قوموں کے مارنے کے لئے اس کے منہ سے ایک تیز تلوار نکلتی ہے اور وہ لوہے کی عصا سے ان پر حکومت کرے گا اور قادر مطلق خداکے غضب سے مے کے حوض میں ان کو روندے گا اور اس کی پوشاک اور ان پر یہ نام لکھا ہوا ہے۔بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوند کا خدا وند۔
اس مکاشفہ میں سچا اور برحق کن الفاظ کا ترجمہ کیا گیا ہے ورنہ اس مقام پر ’’الصادق الامین‘‘ کے الفاظ سمجھے جائیں تو الصادق الامین کی حیثیت سے حضور ﷺ کو کون نہیں جانتا۔ آپ ؐ کو اور ان بادشاہوں کو جن کے سروںپر آپ ؐ ہی کی ذات مبارک کے تاج، گھوڑوں پر چڑھے ہوئے فرشتوں کو بھی لوگوں نے بدر کے میدان میں دیکھا تھا۔ جو انصاف کے مستحق تھے۔ ان کے ساتھ انصاف اور جنہوں نے لڑنے کا ارادہ کیا ان کے ساتھ لڑائی اور انہی لڑائیوں میں خون کے چھینٹوں کا دامن پرپڑنا، آہنی پنجے کے ساتھ ایسی حکومت قائم کرنا کہ شریروں کے حوصلے پست ہو گئے۔ اور جو مقابلے کے لئے کھڑے ہوئے وہ گرائے گئے روندے گئے۔ بادشاہوں کے بادشاہ اور خدا وندوں کے اس خداوند کو کون نہیں پہنچانتا۔
اس مکاشفے کے بعد دوسرا مکاشفہ ہے۔ وہ اس طرح سے ہے:
’’پھر میں نے ایک فرشتے کو آسمان سے اترتے دیکھا جس کے ہاتھ میں اتھاہ گڑھے کی کنجی اور ایک بڑی زنجیر تھی۔ اس نے اس اژدہا یعنی پرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے، پکڑکر ہزار برس کے لئے باندھا۔ اور اسے اتھاہ گڑھے میں ڈال کر بند کر دیا اور اس پر مہر کر دی تاکہ وہ ہزار برس کے پورے ہونے تک قوموں کو پھر گمراہ نہ کرے اس کے بعد ضروری ہے کہ تھوڑے عرصے کے لئے کھولا جائے۔ پھر میں نے تخت دیکھے اور لوگ ان پر بیٹھ گئے اور عدالت ان کے سپرد کی گئی۔ اور ان کی روحوں کو بھی دیکھا جن کے سر یسوع کی گواہی دینے اورخدا کے کلا م کے سبب سے کاٹے گئے تھے۔ اور جنہوں نے اس حیوان کی پرستش کی تھی نہ اس کے بت کی۔ اور نہ اس کی چھاپ اپنے ماتھے اور ہاتھوں پر لی تھی۔ وہ زندہ ہوکر ہزار برس تک مسیح کے ساتھ بادشاہی کرتے رہے۔ اور جب تک یہ ہزار برس پورے نہ ہو لئے باقی مردے زندہ نہ ہوئے۔ پہلی قیامت یہی ہے۔‘‘
اس مکاشفے میں دکھایا گیا ہے کہ ایک فرشتہ آسمان سے اترا ۔ اس نے پرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے پکڑ کر ہزار برس کے لئے باندھا اور اسے اتھا گڑھے میں ڈال کر بند کردیا اور اس پر مہر لگا دی تاکہ وہ ہزار برس پورے ہونے تک قوموں کو پھر گمراہ نہ کر سکے ۔ اس کے بعد تھوڑے عرصہ کے لئے کھولا جائے گا۔ یعنی جب ہزار برس پورے ہو چکے ہوں گے تو شیطان جسے قید کر کے رکھا گیا تھا وہ چھوڑ دیا جائے گا اور وہ ان قوموں کو جو زمین کے چاروں طرف ہوں گی یعنی ماجوج و ماجوج کو گمراہ کر کے لڑائی کے لئے جمع کرنے کو نکل کھڑا ہوگا۔
مکاشفہ میں ہے وہ زندہ ہوکر ہزار برس تک مسیح کے ساتھ بادشاہی کرتے رہے۔ یہاں مسیح کے لفظ کی جگہ الصادق الامین پڑھتے ہوئےیہ سمجھاجاسکتاہے کہ ہزار سال تک دنیا کی سیاسی باگ ڈور حضور ﷺ کے ماننے والوں کے ہاتھوں میں رہے گی۔ اور آگے یہ جوفرمایا ’’اور جب تک ہزار سال پورے نہ ہو لئے باقی مردے زندہ نہ ہوں گے۔‘‘یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس فقرہ کا مال بھی تقریباً وہی ہے جو سورۃ الانبیاء کی یاجوج وماجوج والی آیت کا ہے جس کا تذکرہ آئیندہ چند سطور کے بعد آ رہا ہے۔اور یہ جو مکاشفہ میں گذر چکا کہ ’’جب ہزار سال پورے ہو چکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور ان قوموں کو جو زمین کے چاروں طرف ہوں گی یعنی یاجوج و ماجوج کو گمراہ کر کے لٖڑائی کے لئے جمع کرنے کو نکلے گا۔ ‘‘
ان کا حاصل یہی ہے کہ یاجوج وماجوج کے کھولے جانے کے بعد ان مردوں کو زندہ ہونے کا موقع ملے گا جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لا کر ہزار برس والے زمانے میں زندگی نہ حاصل کر سکے۔اور یہ بھی یاجوج و ماجوج نامی اقوام کے پہچاننے کی منجملہ دوسری نشانیوں کے ایک ایسی نشانی ہے جس کا مطالعہ ہم تاریخ کے اوراق کے سوا اپنی موجودہ زندگی کے اسٹیج پر بھی کر سکتے ہیں اور ان قوموں کو ہم پہچان سکتے ہیں جومسلم حکمرانی کے ایام میں تو مردہ رہیں لیکن مسلمانوں کا دور جب ختم ہوا تو زندگی کی یہ ہل چل ان ہی مردہ قوموں کی آبادیوں میں شروع ہوئی اور یکے بعد دیگر زندہ ہو ہو کر دنیا کے سامنے نمایاں ہو رہی ہیں۔ ( تاریخ میں یورپ قوموں کا ۱۵ ویں صدی تک کا دور تاریک دور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور سولہویں صدی کے وسط سے یورپ کی نشاۃ الثانیہ کی ابتداء ہوئی)ْ۔ اب پڑھئے مذکورہ بالا معروضات کی روشنی میںاسی قرآنی آیت کو
’’ اور روک لگی ہوئی ہے اس آبادی پر جسے ہم نے ہلاک کیا کہ وہ نہ واپس لوٹیں گے تا اینکہ کہ جب کھول دئے جائیں یاجوج و ماجوج اور ہر ڈھلاؤ (حدب)سے وہ تیز رفتاری کے ساتھ نکلیں۔‘‘(سورۃانبیاء ،۹۵؍۹۶)
آیت میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ہلاک شدہ آبادی کو پلٹنے کا موقع اس وقت تک حاصل نہ ہوگا جب تک یاجوج و ماجوج نہ کھول دئے جائیں اس کا اگریہ مطلب سمجھا جائے کہ یاجوج وماجوج کے کھلنے سے پہلے برباداور تباہ ہونے والی بستیوں کو دوبارہ سر اٹھانے اور عروج و ترقی حاصل کرنے کا موقع یاجوج وماجوج کے کھول دئے جانے کے بعد ہی مل سکتا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ قرآنی تعبیر کے طرز خطاب سے جو مانوس ہیں ان کے لئے یہ کوئی چھپنے کی سی بات ہو جسے خواہ مخواہ دور از کار شاعرانہ تاویل قرار دے کر ناقابل لحاظ ٹھہرا دی جائے۔اور غور کیجئے کہ فقیر کا ذہن جس پہلو کی طرف منتقل ہوا ہے دوسرے قرائن و قیاسات اور قرآن کے خاص طریقہ تعبیر و طرز ادا سے اس کی کس حد تک تائید ہوتی ہے ۔ وللہ تعالیٰ عالم۔‘‘
آگے تذکرہ ہے کہ:
’’ ان قوموں (یاجوج و ماجوج) کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہوگا اور وہ زمین میں پھیل جائیں گے اور شہر مقدسوں کی لشکرگاہ اور عزیز شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیں گے۔ مقدسوں کے لشکر گاہ اور عزیز شہر سے مرادبیت الحرام ہو سکتا ہے۔ آسمان سے آگ نازل ہو کر انہیں کھا جائے گی۔‘‘(دجالی فتنہ کے نمایاں خد و خال: مولانا مناظر احسن ؒ )
یاجوج و ماجوج کے انجام سے متعلق احادیث میں بھی کچھ اس سے ملتا جلتا تذکرہ ملتا ہے۔
عالمی فیصلہ کن جنگ
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’ہم نے چھوڑا ان کو اس دن اس حالت میں کہ بعض بعض پر امڈ رہے ہیں۔‘‘ یعنی برابر ایسا ہوتا رہے گا کہ ان میں سے یعنی یاجوج و ماجوج کے بعض قبائل بعض پر حملہ آور ہوتے رہیں گے اور تاریخ گواہ ہے کہ ان قوموں کے درمیان زمانہ قدیم سے اب تک کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ اور زمانہ قریب میں دو عالمگیر جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ ان جنگوں کا سلسلہ چلتا رہے گا حتیٰ کہ خروج موعود کا وقت آ جائے گا یعنی ایک آخری عالمگیر جنگ جو اسلامی دنیا اور یاجوج و ماجوج اقوام کے درمیان ہوگی جس کا تذکرہ احادیث میں ال ملحمۃ العظمیٰ کے نام سے ملتا ہے اور جس کا تذکرہ بائبل میں Armageddon کے نام سے ملتا ہے جس کے انجام پر عیسیٰ علیہ اسلا م کے ہاتھوں دجال کاقتل ہوگا اور سارے یہودی مارے جائیںگے۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’ حتیٰ اذا فتحت‘‘ یاجوج و ماجوج کا یہ عالمی خروج قیامت سے کچھ قبل ہوگا جیسا کہ بعض حدیث میں ذکر ملتاہے۔
بخاری و مسلم اور دوسری صحیح احادیث جو کتاب الفتن میں مذکور ہیں، صاف صاف یہ بیان کرتی ہیں کہ علامت قیامت میں جب آخری علامات رونما ہوں گی تو پہلے دجال کا سخت فتنہ برپا ہوگا۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہوگا اور آخر کار دجال ان کے ہاتھوں مارا جائے گا۔
یہود بھی سارے کے سارے مارے جائیں گے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی ساری دنیا پر حکومت ہوگی اور فلسطین سے آپ حکومت کریں گے اور پھر ان کے آخر ی دور میں یاجوج و ماجوج کا موعود خروج ہوگا جو تمام دنیا میں شر و فساد کی صورت میںچھا جائے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام طور پر محصور ہو جائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نتیجے میں یاجوج و ماجوج ہلاک ہوں گے۔ اس وقت سے متعلق حدیث میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ اس کے بعد قیامت اس قدر قریب ہوگی جیسے وہ حاملہ جس کی مدت خلاصہ مکمل ہو چکی ،کہہ نہیں سکتے کب بچہ جن دے۔
خلاصہ ٔ کلام
اب تک کی گفتگو کا خلاصہ، قرآن مجید کے بیان کے مطابق ذوالقرنین نے ایک قوم کی یاجوج و ماجوج کے فساد سے حفاظت کی خاطر دو پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ گذر گاہ پر دیوار تعمیر کر کے ان کو اس طرف سے آنے پر روک لگا دی۔ اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مخفی کے پورا ہو جانے پر اس دیوار کے ریزہ ریزہ ہوجانے کی خبر دی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ہی وقت میں اس دیوار کے شکست و ریخت کی ابتدا ہو جانے کی اطلاع اس امر کے ساتھ دی کہ اس حادثہ میں عربوں کے لئے تباہی ہے۔ یہ حدیث زمانہ قدیم کے بعد یاجوج و ماجوج کے دوبارہ فساد برپا کرنے کی اطلاع دیتی ہے۔ یہ یاجوج وماجوج بحر کیسپین کے شمال میں دریائے وولگا سے داغستان اور دوسری طرف ڈان اور کریمیا تک آباد سیتھین قبائل تھے جو خزر کہلاتے تھے۔ انہی کی نسبت سے بحر کیسپین بحر حزر بھی کہلاتا ہے۔ اسلامی فتوحات کی ابتدائی زمانے میں حزر قوم نے یورپ کے رخ پر مسلمانوں کی جنگی پیش قدمی کو روک دیا تھا۔ آگے چل کر اس قوم نے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر یہودیت اختیار کرلی تھی۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے علاوہ یہ قبیلہ تیرھویں قبیلے (Thirteenth Tribe) کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔صہیونی تحریک کا بانی یہی قبیلہ ہے۔ساؤتھ افریقہ کےہیروں کی کانوں پر قبضہ کر کے انہوں نے اپنے خزانے دولت سے بھر لئے۔ اور یہی دولت جنگ عظیم اول میں کام میں لائی گئی۔پھر خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے، عربوں اور ترکوں کو آپس میں لڑانے اور ان کو وظائف وغیرہ کا لالچ دئے جانے کے کام میں لائی گئی۔اب تک کی اسلامی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ یہود اسلامی نظام مملکت میں بگاڑ پیدا کرنے میں پیہم کوشش کرتے رہے ہیں اور بالآخر خلافت کے ادارے کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے لے کر سولہویں صدی کے وسط تک کا ہزار سالہ دور اسلامی اقتدار کے عروج کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اس ہزار سالہ دور میں مسلمانوں کی اخلاقی حالات کا معاملہ قوم یہود سے مختلف نہیں رہا۔ جس طرح یہود اپنی قومی زندگی میں دو بار اللہ کے عذاب کا شکار ہوئی جس کا تذکرہ ہمیں سورۃ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں ملتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بھی بغداد کی تاخت و تاراج کا معاملہ تاتاریوں کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ کے پہلے عذاب کی صورت میں پیش آیا۔
دوسرا عذاب حضور ﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق یہ ملتا ہے کہ دنیا کی ساری قومیں مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اور سطور بالا میں یوحنا عارف کے مکاشفہ کا ذکر عہد نامہ جدید سے جو نقل کیا گیا اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس حدیث کے مضمون سے ملتی جلتی ہے کہ شیطان ان قوموں کو جو یاجوج و ماجوج ہیں لڑائی کے لئے جمع کرے گا یعنی مسلمان حکومتوں پر یاجوج و ماجوج کے حملوں کا سلسلہ شروع ہو گا۔ ہمارے قریب کے زمانے میں امت مسلمہ پر دوسرا عذاب اقوام یورپ یعنی Anglo Sexans اور Nordic races جو یاجوج و ماجوج ہی کی نسل سے ہیںان قوموں کا مسلمان حکومتوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انگریز، فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی اور ویلیندیزی (Duch) سارے عالم اسلام پر قابض ہو گئے۔ پورے ایشیاء اور افریقہ کو نوآبادیاتی نظام میں جکڑ لیا۔اسکے بعد ان یاجوج و ماجوج قوموں کے درمیان آپس میں دو عالمی جنگیں ہوئیں اور ان جنگوں کو ان کے اب تک کے سب سے بڑے خروج سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ جس کے نتیجے کے طور پر خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا۔ یہود یوں کو فلسطین میں لا کر بسایا گیا اور ۱۹۴۸ ء میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر صادق آئی کہ وہ بستی جو عذاب کی زد میں آ چکی تھی وہ پلٹ آئی اور ایسا یاجوج و ماجوج کے خروج کے نتیجے کے طور پر ہوا۔ عالمی جنگ اول اور دوم کے بعدمختلف عوامل کی بنا پر نوآبادیاتی نظام میں جکڑے ہوئے ممالک سے انہیں پسپا ہونا پڑا۔مگر حقیقت میں دنیا کے بیشتر ممالک پر آج بھی indirectly ان کا ہی قبضہ ہے۔s World Bank, MultyNational اور IMF اور Nato جیسے معاشی اور حربی ادارے indirectly انہیں کے اشارۂ ابرو پر انہیں کی حکومتوں کو مضبوط کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
مغربی تہذیب ہی دجالی فتنے کی بنیاد کیوں؟
سولہویں صدی کے وسط تک کا عرصہ اسلامی اقتدار کے عروج کا زمانہ مانا جاتا ہے اور اس دور میں یورپی اقوام تاریک دور سے گذر رہی تھیں۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی ؓ نے اس زمانے کا نقشہ اپنی کتاب انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر میں اس طرح کھینچا ہے۔
سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی تاریخ انسانی کا یہ وہ اہم ترین عہد ہے جس کا اثر بعد کی صدیوں پر نقش ہے۔ یورپ اس میں اپنی لمبی نیند سے بیدار ہوا تھا۔ اور ایک جوش و جنوں کی حالت میں اٹھ کر غفلت اور جہالت کے طویل زمانے کی تلافی کرنا چاہتا تھا۔ وہ ہر شعبہ حیات میں گریز پا ترقی کر رہاتھا، طبعی قوتوں کو مسخرکائنات کے اثرات کو منکشف اور نامعلوم سمندروں اور عقلیموں کو دریافت کر رہا تھا، ہرعلم وفن میں اس کی فتوحات اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کے اکتشافات جاری تھے۔ مختصر سی مدت میں اس کے یہاں پر ہر علم میں بڑے بڑ ے محقق ،موجد اور مجتہد فن پیدا ہوئے۔
مولانا محترم نے کتاب مذکور ہ میں یورپ کی بیداری کے ساتھ ساتھ اس کی خدا بیزاری کو اس تحقیقی انداز میں پیش فرمایا ہے:
’’دنیا کی زمام قیادت مسلمانوں کے بعد مغرب کی ان قوموں نے اپنے ہاتھ میں لی جن کے پاس ابتدا سے حکمت الہٰی کا کوئی سرمایا اور علم صحیح کا کوئی صاف سرچشمہ نہ تھا۔ نبوت کی روشنی وہاں دراصل پہنچنے ہی نہیں پائی، حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کی ایک شعاع جو وہاں پہنچی بھی ،وہ تحریف و تاویل کے اندھیروں میں گم ہوگئی۔ انہوں نے اس آسمانی روشنی کی خانہ پوری یونان و روما کے دفتروں کی سیاہی سے کی اور نسلی طور پر ان کے تمام فطری، ذہنی، اخلاقی اور مزاجی خصائص ان میں منتقل ہوئے۔ محسوسات پرستی ، روحانیت سے بعد ، تمتع و لطف اندوزی و وطنیت کا غلو ، غیر محدود شخصی آزادی کا شوق یونان سے اور ضعف ایمان ، جارحانہ قوم پرستی، طاقت کی تقدیس اور استعمار ( شہنشاہیت) کی روح روم سے منتقل ہوئی۔ ارباب کلیسا کی عیش پرستی اور دنیا داری نے اہل مذہب کی طرف سے بے اعتمادی اور نفرت پیدا کی، حکومت او ر کلیسا کی کشاکش نے قومی مزاج میں برہمی اور عدم توازن پیدا کیا اور دین و سیاست میں تفریق ، مذہب اور اقلیت کی خونی کشمکش اور اہل دین کے جمود اور نافہمی اور ارباب کلیسا کے لرزا خیز مظالم نے برائے نام مذہب کے خلاف نسلی اور مورثی عداوت کا بیج بویا اور مذہب کے رہے سہے فوائد سے بھی محروم کر دیا۔ آخر کار ساری مغربی قوموں پر مادہ پرستی کا دور آیا۔ اور سارے مغرب پر خدا فراموشی اور اس کے طبعی نتیجے کے طور پر خود فراموشی کا عالم چھا گیا۔ زر پرستی مذہب بن گیا۔ استعمار یا امپیریلزم نے ساری دنیا کو بردہ فروشی کی ایک منڈی جہاں (قوموں کا سودا ہوتا ہے) اور سلطنتوں کی رقابتوں میں دنیا کو لوہار کی بھٹی بنا دیا جہاں ہر وقت آگ کا کھیل اور لوہے کو تپا کر اور پیٹ کر اپنے کام کے ہتھیار بنائے جاتے ہیں۔ بے قید اور بے شعور عقل و علم نے ہر رہزن اور کفل شکن کو کفل شکنی کا آلہ اور ہر بد مست کو تلوار مہیا کی، سائنس نے یبسویں صدی کے شریر اور نادان بچو ں کو کھیلنے کے لئے دھار دار اور خطرناک اوزار تقسیم کئے جن سے وہ اپنے کو بھی زخمی کر رہے ہیں؛ اور اپنے بھائیوں کو بھی۔ بالآخر اندھے بہرے سائنس نے ذراتی اور ہیڈروجن بم کی شکل میں انسان کے ہاتھ میں خود کشی کا ہتھیار دے دیا۔ خدا طلبی کے عمومی ذوق کی جگہ دنیا طلبی کے بحران نے لے لی۔ اخلاق و معنویا ت اور حقیقی انسانی صفات و کمالات میں سخت انحطاط و تنزل ہوا۔غرض لوہے اور دھات کو ہر طرح ترقی ہوئی اور آدمیت کو ہر طرح زوال ہوا۔‘‘
مولانہ محترم اپنی ایک اور کتاب ’’معرکۂ ایمان اور مادیت‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
’’تاریخ کے چند افسوس ناک سانحوں میں ایک الم ناک سانحہ اور انسانیت کی ایک بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک ایسے عہد میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی جس میں دین سے بغاوت اور ایمان بالغیب کا انکار عام ہو چکا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حد سے بڑھی ہوئی مادی طاقت ، طبعی قوتوں کی تسخیر ، کائنات پر اقتدار ، کفر اور مادہ پرستی کے ساتھ مل گیا۔ اور یہ مغربی تہذیب کی مخصوص علامت ، اس کی امتیازی خصوصیت اور نمایاں پہچان بن گئی۔ہم کو کسی ایسی تہذیب اور تمدن کاعلم نہیں جو اس درجہ مادی قوت رکھنے کے ساتھ مذاہب و اخلاق سے اس درجہ برسر جنگ ہو۔ خالق کائنات اور اس کی بنائی ہوئی شریعت اور دستور اور قانون کا اس طرح باغی اور منکر اور مادیت کی پر ستش ، نفس کی غلامی اور بوبیت کے دعویٰ میں مبتلا ہو ۔ جس طرح یہ مغربی تہذہب۔ مغربی تہذیب کا نشو و نما اس طرح ہوا ہے کہ کائنات کا اقتدار اس کو حاصل ہے۔لیکن وہ خدا کی منکر اور عادت کی اسیر بھی ہے۔ ا سکے ذمہ دا ر اور نمائندے اپنی قوت اور صنعت کے سوا اور کسی چیز پر یقین نہیںرکھتے۔ اس کے بڑے مراکز امریکہ ، یورپ اور روس کبھی اعلان کیساتھ اور کبھی بغیر اعلان کے غیبی حقائق، روحانیت، اخلاق اور آسمانی نظام سے مستقل بر سر پیکار ہیں اور حالت جنگ میں ہے۔اور اب وہ زمانہ قریب ہے جب یہ تہذیب مادیت اور صنعتی ترقی نکتۂ اختتام پرپہنچ جائے گی۔اور اس کا وہ سب سے بڑا نمائندہ اور ذمہ دار ظاہر ہوگاجس کو نبوت کے زبان میں ’’ دجال‘‘ کہا جاتا ہے۔جن احادیث میں دجال کا ذکر آیا ہے ان میں صاف اس کی سراحت ہے کہ وہ ایک معین شخص ہوگا جس کے کچھ معین صفات ہوں گے۔ وہ ایک خاص اور معین زمانے میں ظاہر ہوگا۔ (جس کی صحیح تاریخ اور وقت سے ہم کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ ) نیز ایک معین قوم میں ظاہر ہوگا جو یہودقوم ہیں۔اس لئے ان تمام وضاحتوں کی موجودگی میں نہ اس کے انکارکی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ احادیث میں اس کا بھی تعین کر دیاگیا ہے کہ وہ فلسطین میں ظاہر ہوگا۔ اور وہاں اس کو عروج و غلبہ حاصل ہوگا۔ در حقیقت فلسطین وہ آخری اسٹیج ہے جہاں ایمان و مادیت اور حق و باطل کی ایک کشمکش جاری ہے۔
یاجوج ماجوج کی حقیقت
حدیث میں مسیح اور مہدی کے ظہور کی ایک علامت یاجوج وماجوج کا خروج بیان کی گئی ہے۔ یاجوج و ماجوج کے متعلق عوام الناس میں عجیب و غریب کہانیاں پائی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس، انگریز اور ان کی اتحادی حکومتیں ہیں کیونکہ قرآن اور حدیث میں دجال اور یاجوج وماجوج دونوں کے غلبہ کا ایک ہی زمانہ میں ذکر ملتا ہے جبکہ دونوں کا بیک وقت غلبہ ممکن نہیں۔ دراصل دجال اور یاجوج وماجوج ایک ہی قوم کے دو نام ہیں مغربی عیسائی قوموں کے مذہبی راہنماؤں کو دجال کا نام دیا گیا ہے اور ان ہی کا سیاسی و قومی نام یاجوج و ماجوج ہے۔
یاجوج و ماجوج کے الفاظ أجَّ سے مشتق ہیں جس سے مراد آگ کے شعلے مارنے اور بھڑکنے کے ہیں۔
ان قوموں کے اس نام میں ایک اشارہ آگ کو مسخر کرنے اور بڑی مہارت سے آگ سے کام لینے کی طرف ہے اور دوسرا اشارہ ان قوموں کی ناری سرشت کی طرف تھا کہ یہ متکبر قومیں انتہائی تیز اور چالاکی اور ہوشیاری میں یکتا ہوں گی اور انہیں اقوام کا سیاسی اور قومی نام یاجوج اور ماجوج ہے۔
یہ خیال کہ یاجوج ماجوج بنی آدم نہیں بلکہ اور قسم کی مخلوق ہے یہ صرف جہالت کا خیال ہے۔ کیونکہ قرآن میں ذوالعقول حیوان جو عقل اور فہم سے کام لیتے ہیں اور مورد ثواب یا عذاب ہو سکتے ہیں وہ دو ہی قسم کے بیان فرمائے ہیں۔ (۱)ایک نوع انسان جو حضرت آدم کی اولاد ہیں۔ (۲)دوسرے وہ جو جنات ہیں۔ انسانوں کے گروہ کا نام معشر الانس رکھا ہے اور جنات کے گروہ کا نام معشر الجن رکھا ہے۔ پس اگر یاجوج ماجوج جن کے لئے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں عذاب کا وعدہ ہے معشر الانس میں داخل ہیں یعنی انسان ہیں تو خواہ مخواہ ایک عجیب پیدائش ان کی طرف منسوب کرنا کہ ان کے کان اس قدر لمبے ہوں گے اور ہاتھ اس قدر لمبے ہوں گے اور اس کثرت سے وہ بچے دیں گے ان لوگوں کا کام ہے جن کی عقل محض سطحی اور بچوں کی مانند ہے اگر اس بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت بھی ہو تو وہ محض استعارہ کے رنگ میں ہوگی۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کی قومیں ان معنوں سے ضرور لمبے کان رکھتی ہیں کہ بذریعہ تار کے دور دور کی خبریں ان کے کانوں تک پہنچ جاتی ہیں اور خدا نے بری اور بحری لڑائیوں میں ان کے ہاتھ بھی نبرد آزمائی کی وجہ سے اس قدر لمبے بنائے ہیں کہ کسی کو ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔۔۔۔ پس جبکہ موجودہ واقعات نے دکھلا دیا ہے کہ ان احادیث کے یہ معنی ہیں اور عقل ان معنوں کو نہ صرف قبول کرتی بلکہ ان سے لذت اٹھاتی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ خوامخواہ انسانی خلقت سے بڑھ کر ان میں وہ عجیب خلقت فرض کی جائے جو سراسر غیر معقول اور اس قانون قدرت کے برخلاف ہے جو قدیم سے انسانوں کے لئے چلا آتا ہے اور اگر کہو کہ یاجوج ماجوج جنات میں سے ہیں انسان نہیں ہیں تو یہ اور حماقت ہے کیونکہ اگر وہ جنات میں سے ہیں تو سد سکندری ان کو کیونکر روک سکتی تھی جس حالت میں جنات آسمان تک پہنچ جاتے ہیں جیسا کہ آیت فَاَتْبَعَہٗ شَھَابٌ ثَاقِبٌ ۱ سے ظاہر ہوتا ہے تو کیا وہ سد سکندری کے اوپر چڑھ نہیں سکتے تھے جو آسمان کے قریب چلے جاتے ہیں۔ اور اگر کہو کہ وہ درندوں کی قسم ہیں جو عقل اور فہم نہیں رکھتے تو پھر قرآن شریف اور حدیثوں میں ان پر عذاب نازل کرنے کا کیوں وعدہ ہے کیونکہ عذاب گنہ کی پاداش میں ہوتا ہے اور نیز ان کا لڑائیاں کرنا اور سب پر غالب ہوجانا اور آخر کار آسمان کی طرف تیر چلانا صاف دلالت کرتا ہے کہ وہ ذوالعقول ہیں بلکہ دنیا کی عقل میں سب سے بڑھ کر
بائیبل میں روس کے فرمانرواؤں کو جوج کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔
’’اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرمانروا ہے متوجہ ہو اور اس کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھ اے جوج، روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں‘‘۔ (حزقیل باب۳۸ آیت۱تا ۳)
واضح ہو کہ مسک (ماسکو) اور توبل (ٹوبالسک) روس کے ہی مختلف علاقے ہیں۔ اور ماسکو شہر دریائے ماسکو کے کنارے آباد ہے اور اسی بنا پر اس شہر کو ماسکو کا نام دیا گیا ہے اس طرح ٹوبالسک شہر نے دریائے توبل کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے ٹوبالسک کا نام پایا۔
قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ یاجوج و ماجوج آخری زمانہ میں بہت زیادہ ترقی کریں گے اور ان کا زمین کے اکثر حصہ پر تسلط، غلبہ اور اثر و رسوخ ہوگا۔ چنانچہ فرمایا
حَتّٰٓى اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ( الانبیاء:۹۷)
یعنی ’’یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ ہر پہاڑی اور ہر سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے دنیا میں پھیل جائیں گے‘‘۔
حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ عیسٰیؑ کو وحی کرے گا کہ میں نے ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن کے ساتھ کسی کو جنگ کی طاقت نہیں پس میرے بندوں کو طور پہاڑ کی طرف لے جا اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو کھڑا کرے گا اور وہ ہر بلندی سے چڑھ دوڑیں گے۔ ۔۔۔ نبی اللہ عیسیٰ اور اس کی جماعت دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی ہلاکت کے لئے طاعون پیدا کرے گا۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
یعنی یاجوج و ماجوج سے ظاہری مقابلہ کی کسی کو طاقت نہ ہوگی تب مسیح کو اپنی جماعت کے ساتھ طور پہاڑ کی پناہ لینے کی ہدایت کی جائے گی یعنی عبادات اور دعاؤں کی طرف توجہ دلائی جائے گی اور بالآخر دعاؤں اور آسمانی نشانوں سے ہی مسیح موعود کی جماعت کو ان طاقت ور قوموں پر فتح ہوگی۔
پھر مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال میں ہے۔
’’یاجوج و ماجوج آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج قومیں آگ سے کام لے کر علم ہیئت اور خلائی تحقیق میں بہت زیادہ ترقی کریں گی اور جدید قسم کی خلائی گاڑیاں اور میزائل وغیرہ ایجاد کر کے مختلف سیاروں پر پہنچیں گی۔
مندرجہ بالا علامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یاجوج وماجوج سے مراد روس اور آج کی ترقی یافتہ مغربی اقوام اور امریکہ ہیں جنہوں نے آگ کی قوت کو تسخیر کر کے اور ایٹم بم ایجاد کر کے اپنی ناری سرشت کے اظہار کے طور پر ساری دنیا پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔ چنانچہ یہ قدیمی نام آج تک مغربی اقوام اپنے لئے استعمال کر رہی ہیں گلڈ ہال لندن میں نصب یاجوج و ماجوج کے مجسمے اس کی کافی شہادت ہیں جن کو دوبارہ ایستادہ کرنے کی تقریب پر ۱۹۵۱ء میں چرچل نے یاجوج کو روس اور ماجوج کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا نشان قرار دیا تھا۔ (لندن ٹائم ۱۰ نومبر ۱۹۵۱ء)
چنانچہ خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:۔
’’یاجوج ماجوج روس و جرمن کی قومیں ہیں جو سیلاب طوفان کی طرح دنیا پر امڈنا چاہتی ہیں‘‘۔ (کتاب الامر از خواجہ حسن نظامی صفحہ۸ سٹیم پریس امرتسر ۱۹۱۲ء)
اسی طرح علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے انہیں قوموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔
’’کھل گئے‘‘ یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرفِ ’’ینسلون‘‘
گلوبل سپر پاور
انیسویں صدی میں مغرب ’’ معاشی دیو ‘‘ بن کر ابھر آیا۔ پھر اس کا من مانی کا دور شروع ہوا۔ ہر معاملہ میں وہ dictate کرنے لگا۔ انگریزوں نے شروعات تجارت سے کی۔ نفع کمانے آئے تھے۔ اب چلے گئے لیکن جہاں جہاں سے گئے یہ یقینی بنا کر گئے کہ ان کے معاشی مفادات اسی طرح جاری رہیں گے۔خبردار اس پر آنچ نہ آنے پائے۔
گلوبلائزیشن کے نام پر دنیائے انسانیت کو انہوں نے کئی طبقات میں بانٹ رکھا ہے۔ غریب افریقی اور مسلم ممالک کی کیٹیگری جس کا کام کہ وہ اسے raw material (خام مال) اور سستا مزدور سپلائی کرتے رہے۔
آج دنیا اس کے من مانی کے دور کو بھگت رہی ہے۔ اس کے معیار دوہرے ہیں۔
٭جو ہولو کاسٹHolocast)یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم)کو نہ مانے ، وہ مجرم۔جو ا س پر شبہ ظاہر کرے وہ بھی مجرم۔
٭ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرنے والے کو قانونی تحفظ۔
٭ دنیائے اسلام کی ۹۵ فی صد تجارت مغربی دنیا سے ہوتی ہے۔ صرف ۵ فی صد آپس میں، مغرب کے کسی سودے کو بدل کر اسلامی ملک سے کرنے کی کوشش کرکے دیکھئے۔ F-16 کی ڈیلیوری رک جائے گی۔ یا آپ Sanction کا شکار ہوں گے۔پوری دنیا کے عیسائی مفاد سے اسے دلچسپی ہے۔ Secularismتو بس ایک ڈھکوسلہ ہے۔ ان کی ساری حکومتیں عیسائی مفاد میں ایک آواز ہیں۔
اسرائیل کا قیام پھر مغربی تجارت کی گذر گاہ نہر سویز پر اسرائیل کا قبضہ، سوڈان کے جنوب میںنیا اسرائیل، صومالیہ، ایریٹیریا،مشرقی تمور ، یہ سب اتفاقی واقعات نہیں ہیں۔ ایک لانگ ٹرم پلاننگ ،ایک دجالی منصوبہ بندی ہے۔
علم و صنعت ، تحقیق و انکشاف ، میں اخلاقیات کا توازن صفر،اس خدا بیزار اندھے بہرے سائینس نے فلاح انسانیت کو چھپر پر رکھ کر ہر بد مست کے ہاتھ میں تلوار ،مشین گن اور بم تھما دیا ہے۔
مشہور صحافی اوریا مقبول جان کی تحقیق کے مطابق ’’ دنیا کے گذستہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں ایسا دور نہیں آیا کہ اس کرہ ارض میں بسنے والے ۶ ارب انسانوں کو اس طرح مستقل اور پیہم دھوکہ دیا جارہا ہو اور قاتل کو جائز اور مقتول کو گناہ گار کہا گیا ہو۔ ہمیشہ دنیا مختلف گروہ میں تقسیم رہی ہے۔
کسی حصے میں حق کی آواز بلند کرنے والے اور اس کا ساتھ دینے والے غالب تھے اور کسی حصے میں جھوٹ اور بد دیانتی کے بنیاد پر ظلم کی انتہاکرنے والے غالب تھے۔، دونوں کی جنگ میں حق کا انتخاب کرنا اس لئے آسان تھا کہ دنیا میں اکیسویں صدی کا کامیاب اور مہلک ہتھیار میڈیا وجود میں نہیںآیا تھا۔ اب اس چھوٹی اسکرین پر جس کو چاہے باطل ثابت کرو اور جس کو چاہے حق، اور پھر ثابت کرنے کے بعد جس پر چاہو چڑھ دوڑو، قتل کرو، بستیاں تباہ و برباد کرو۔ ا س پورے دور کو غور سے دیکھئے اور سید الانبیا ء کی اس حدیث پر کی اس حدیث پر چند لمحوں کے لئے سوچئے کہ کیا ہم ا س دور میں واقعی داخل ہو چکے ہیں۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکہ اور فریب کے ہوںگے، سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا، خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار کو خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں روبیضہ بات کریں گے، پوچھا گیا روبیضہ کون ہیں۔فرمایا گھٹیا لوگ (فاسق و فاجر) ۔ وہ لوگوں کے اہم معاملات میں بولا کریں گے۔ (مسند احمد، مسند ابی لیلیٰ) رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کو ایک نظریہ یا تھیوری تصور کرکے غور کریں کہ کیا ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں۔؟ ڈاکٹر محمد اقبال حسین ایم ایس کالج، موتی ہاری کے مضمون ’’ دور جدید کے فتنے احتیاطی تدابیر ‘‘سے دجالی فتنے سے متعلق چند اقتباسات نقل کر رہے ہیں:
’’در اصل آج کا سب سے بڑا فتنہ مادیت کا فتنہ ہی ہے۔ جس کے ذریعے اسلام کے عقائدی ،فکری، علمی، ذہنی ، غذائی، ملبوساتی ، ادبی، معاشرتی،رہائشی۔ تعمیراتی، تمام عناصر پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے۔ اور بغیر کسی قانونی ترمیم کے ، بغیر کسی بظاہر زورزبردستی کے ہمارے پورے روحانی اخلاقی اور معاشرتی نظام کو درہم برہم کرنیکی بے تکان کوششیں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ اوپن کلچر ،آزادیٔ نسواں ، فیوچر پلاننگ، ابا حیت پرستی ، اور جنسی انارکی، کے ذریعے ساری دنیا پر دجالی تہذیب مسلط کی جارہی ہے۔دجالی کبیر کا ظہور تو قرب قیامت پر ہوگا لیکن دجالی اثرات اور دجالی طرز فکر ابھی سے سارے عالم پر چھاتا جارہا ہے۔(بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ تین دجالی فتنے وہ ہیںجو ظاہر ہو چکے ہیں۔ اورجنہو ں نے ساری دنیا کو جکڑ لیا ہے۔ نظام زندگی کے طور سیکولرزم ، معاشی سطح پر سودی نظام، اور معاشرتی سطح پر نظام فحاشی ۔)گلوبلائزیشن کے نام پر دنیا میں خود ساختہ اصلاحات کی جو آندھی چل رہی ہے۔ اب اس کے نتائج دنیاکے معاشی نظام کو تو متاثر کر ہی رہے ہیں ساتھ ہی اس کے انتہائی خوف ناک اثرات ہماری طرز رہائش ، ہماری فکر، ہماری سوچ، ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بنیادی عقائد پر پڑ رہے ہیں۔ہمیں سیاسی ،معاشی، علمی، اور عسکری اعتبار سے مفلوج کر نے کے بعد اب عالم کاری (گلوبلائیزیشن ) کے نام پر معاشرتی ، اخلاقی اور روحانی اعتبارسے تہہ تیغ کرنے کی کوشش کا نام ہی عالم کاری ہے۔ قرب قیامت کے سلسلے میں جن بڑی علامتوں کے ظہور کی نشان دہی احادیث سے ہوئی ہیں ان میں سب سے نمایاں فتنہ ٔ دجال بتایا جاتا ہے۔اور اس کے متعلق متعدد روایات ہیں۔ جن میں آپ ؐ نے دجال سے چوکنا رہنے اور اس کے فتنے سے پناہ مانگنے کی ترغیب دی ہے۔لیکن علامتی طور پر عصر حاضر پوری طرح دجالی قوتوں کے ہاتھ میں آ چکا ہے اور مغربی نظام اپنی تہذیب کے ساتھ جو اب ہر جگہ رائج ہو چکا ہے۔ اور اس کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے ، ہر گوشہ ٔ حیات میں دجالیت کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں۔‘‘
انجام غفلت
’’اور وعدۂ برحق کے پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا تو یکایک ان لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوںنے کفر کیا تھا،۔ کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے بلکہ ہم خطا کار تھے۔‘‘ (سورۃ الابنیاء ،۹۷)
اس آیت میں یاجوج و ماجوج کی عالم گیر یورش کا تذکرہ ہے جو قیامت سے کچھ قبل پیش آئے گی۔ اور یہ سارا کا سارا فساد دجال کی سربراہی میں پیش آئے گا۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ یاجوج و ماجوج کا تذکرہ تقریباً تما م ہی مذہبی کتابوں میں مختلف ناموں کے ساتھ پایا جاتا ہے اور حدیث میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے۔اس کے باوجود جو لوگ اس فتنے کی ہلاکت سامانیوں کا شکار ہوں گے وہ انجا م کار اپنی غفلت کا ہی نہیں بلکہ اپنے خطا کار ہونے کا بھی اعتراف کریں گے۔
تفہیم القرآن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اس آیت کی تفسیرمیںلکھا ہے:
’’وعدۂ برحق پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا ‘‘ یہ اشارہ صاف طور پر اس طرف ہے کہ یاجوج و ماجوج کی یہ عالم گیر یورش آخری زمانے میںہوگی اور اس کے بعد جلد ہی قیامت آ جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ ارشاد اس معنی کو اور زیادہ کھول دیتا ہے جو مسلم نے حذیفہ بن اسید الغفاری کی روایت سے نقل کیا ہے۔ ’’ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو۔۱۔ دھواں ،۲۔ دجال،۳۔ دابۃ العرض، ۴۔ مغرب سے سورج کا طلوع،۵۔عیسیٰ ابن مریم کا نزول، ۶۔ یاجوج و ماجوج کی یورش۔ تین بڑے خصوف (زمین کا دھنسنا) ۷ پہلا مشر ق میں ۸۔ دوسرا مغرب میں،او ر ۹۔ تیسرا جزیرۃ العرب میں ، پھر سب سے آخر میں۱۰۔ یمن سے ایک سخت آگ اٹھے گی جو لوگوں کومحشر کی طرف ہانکے گی۔(یعنی بس اس کے بعد قیامت آجائے گی۔) ایک اور حدیث میں یاجوج و ماجوج کا ذکر کرکے حضور ﷺ نے فرمایا ’’ اس وقت قیامت اس قدر قریب ہوگی جیسے پورے پیٹوں کی حاملہ کہ نہیں کہہ سکتے کہ کب وہ بچہ جن دے، رات کویا دن کو۔لیکن قرآن مجید اور حدیث میں یاجوج و ماجوج کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ یہ دونوں متحد ہوںگے۔ اور مل کر دنیا پر ٹوٹ پڑے گے۔ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں یہ دونوں آپس میںلڑ جائیں اور پھر ان کی لڑائی عالم گیرفساد کی موجب بن جائے۔ (آگے یہ جو فرمایا کہ ’’ ہم غفلت میںپڑے ہوئے تھے بلکہ ہم خطا کار تھے‘‘)’’غفلت ‘‘ میں پھر بھی ایک طرح کی معذرت پائی جاتی ہے، اس لئے وہ اپنی غفلت کا ذکر کرنے کے بعد پھر خود ہی صاف صاف اعتراف کریں گے کہ ہم کو انبیاء علیہ السلام نے آ کر اس دن کے لئے خبر دار کیا تھا لہٰذا در حقیقت ہم غافل اور بے خبر نہ تھے بلکہ خطا کار تھے۔‘‘
ہم وقت کے اختتام کے عہد میں جی رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ ۲۰ برسوں میں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان کسی نہ کسی فتنے کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھا،اس قدر ارزاں خون مسلم کبھی نہ تھا۔ ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگر آپس میںلڑ کر بھی انہوںنے جانیں گنوائیں تو اس سازش کا سرغنہ بھی دجال اکبر ہی تھا۔
منافقین
ہر دور میں انگریزوں کو اپنے استعمار کی خدمت کے لئے بہترین وفادار مسلمان (منافقین) ملتے رہے ہیں۔ وہ ان غداروں کو کبھی سراج الدولہ کے مقابلے تو کبھی ٹیپو سلطان شہید کے مقابلے استعمال کرتے رہے۔ آج بھی جھوٹ ،فریب اور سازش کا سہارا لے کر ان فتنہ گروں نے مسلم ممالک میں اپنے ایجینٹ بٹھا رکھے ہیں۔ اور جب حکمرانی کے اس میدان میں مواقع کم نظر آئے تو مسلمانوں کی وحدت کو تاراج کرنے کے لئے غلام احمد قادیانی اور سلمان رشدی جیسے اہانت رسول کے مرتکبین کی سرپرستی یہ کرتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ سرد جنگ میں روس کے خلاف مسلمانوں کو آلۂ کار بنایا گیا۔ لیکن اس بات پر پوری توجہ دی گئی کہ اس ٹوٹتے بکھرٹے روس سے کوئی ذرہ شرع پیغمبر کا علم بردار نہ اٹھ کھڑا ہو۔ قیام اسرائیل سے لے کر آ ج تک مسلم ملکوں میں انکاؤنٹر ،بموں کے دھماکے، ٹارگیٹ کیلنگ، بین المذاہب و مسالک خوں ریز فسادات ، آگ و خون کا یہ بازار، انہیں فتنہ پروروں کی د ین ہے۔
عین اس وقت جب مسلم ممالک پر بموں کی برسات ہو رہی ہوتی ہے ، ا ن کا کنٹرولڈ میڈیا اوبامہ کو مسلمانوں کی عید الفظرکی ضیافت کرتے یا قاہرہ میں یہود و نصارہ کے پسندیدہ اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور کچھ نہ بن سکا تو ٹیلی وزن ریٹینگ پوائنٹ کے طور پر مائیکل جیکسن کے قبول اسلام کی اسٹوری چلا دی جاتی ہے۔ دراصل یہ سیکولر راگ دو صدیوں سے فتنۂ دجال کے سروں میں گایا جارہا ہے۔سبھی یورپی ممالک حتیٰ کہ امریکہ جیسے سوپر پاور کی پالیسی میکنگ کنجیاں کل بھی حکومت برطانیہ کے ہاتھ میں تھیں اور آج بھی۔ حتیٰ کہ نو آبادیاتی نظام جن ملکوں میںقاتم تھے ان کی سیاست و معیشت پر بھی انہیں کا کنٹرول ہے۔
گذشتہ دو سو برسوں سے مسلم ممالک سے کی گئی لوٹ اور برطانیوی ٹیکس پیئر سے وصول کی گئیں رقومات برطانیہ نے ہمیشہ نو آبادیات پر قبضے کو مستحکم کرنے،انڈیا پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں آگ دہکائے رکھنے میں صرف کی اور اپنی عوام کی فلاحی کاموں سے لا پرواہی کی۔ آج کا برطانیہ بے روز گاری کا شکار ہے ۔حتیٰ کہ ان ظالموں نے فطری اخلاقیات کو بھی پارہ پارہ کردیا۔
پیہم دھوکہ بازی کی ایک تازہ مثال اسی سال مورخہ ۸ اپریل برطانیہ کی سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر ( خاتون آہن) کا انتقال ہوا ۔ مشہور صحافی کلدیپ نیر نے اس لیڈی سے متعلق یادیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۱۹۹۰ ء میں سرد جنگ کے اختتام سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا تھا کمیونزم کو ہم نے کامیابی کے ساتھ شکست تو دے دی،اب معرکہ اسلام کے ساتھ ہے۔ اندازہ لگائیے ۱۹۴۸ ء میںمسلمانوں کے سینے پر اسرائیل کا قیام اس کے با وجود اسلام دشمنی پر مبنی حسد کی یہ آگ تھنڈی نہ ہوئی بلکہ ہنوز یہ شیطان اکبر چراغ مصطفوی سے ستیزہ کار ہے۔
مارگریٹ تھیچر جو نج کاری اور گلوبلائزیشن کی چیمپین بنی رہیں آج اس کے انتقال پر عوام جشن منا رہے ہیں۔،چڑیل مردہ باد، جاؤ۔جہنم میںجاؤ۔تمہاری قبر میںکیڑے پڑے،لندن، بلفاسٹ، گلاسگو، مانچیسٹرکی گلی کوچوں میںیہ نعرے بلند ہو رہے ہیں۔افسوس ہمارے اپنے نادان دانشوروں پر جو اس فولادی خاتون کی حب الوطنی اور جمہوریت پسندی کے راگ الاپ رہے ہیں ۔کاش کہ اس سازشی ٹولے اور دجالیت کے خد و خال ان نادانوں پر آشکار ہوں۔
مجھے اس مسئلے پر علمائے کرام سے خلوص نیت کی کمی کی شکایت نہیں ، مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ آ پ سنت الٰہی اور عالم گیر انسانیت کے ربط کو درہم برہم ہوتا محسوس نہیں کر رہے ہیں؟ عالمی طور پر انسانیت بدبختی اور ہلاکت سے دوچار ہے۔ اس کا بھی صحیح اندازہ آپ کو نہیں۔ کیا عالمی قیادت انتہاہی بدبودار نہیں ہو چکی۔؟ کیا لوگوں کی اپنی ہاتھوں کی کمائی سے خشکی اور تری میںفساد برپانہیں ہو چکا؟
کیا سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اثار قیامت سے متعلق احادیث اورپیشین گوئیاں کھل کر سامنے نہیں آ رہی ہیں؟ پھر آخر کیوں مادیت کے بلند و بالا ٹاوروں کے روزن سے فتنۂ یاجوج و ماجوج یا دجال کا بربریت آمیز رقص آپ کی نظروں سے اوجھل ہے؟
اسلامی نظام کے وقیام کی ساری کوشش اپنی جگہ، نظام مصطفیٰ کی تگ و دو برحق ، میں اسلامی مادی ترقی کا ہر گز مخالف نہیں لیکن مادی ترقیوں کو فساد کی راہ پر ڈالے جانے کے مناظر آپ کی آنکھوں سے آخر کیو ں اوجھل ہیں۔کیا پوری انسانیت کی بقا داؤ پر نہیں لگ چکی؟
ممکن ہے میرے ذہن میں ابھرنے والے یہ چند نقوش صفحۂ قرطاس پر غیر علمی انداز میں نمودار ہوئے ہوں لیکن کیا تاریخ انسانی میں اس سے پہلے بھی کبھی انسانیت اس قدر بدبختی اور ہلاکت سے دوچار تھی۔؟ پھر آخرکیوںدجالی فتنوںکی کھل کر نشان دہی نہیںکی جارہی ہے؟مذاکرات، درس و تدریس، ذکر و اذکار کی مجالس اس موضوع پر آخر کیو ں منعقد نہیںکی جاتیں؟ کیاسورۃالا نبیاء ،سورۃ الکہف کی ان آیاتوں اور جملہ احادیث کی ان نشان دہیوں کے باوجود بھی ہم غفلت کی نیند سوتے رہیں گے ؟
پس یاجوج و ماجوج کے متعلق قرآن کریم اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں آج سے چودہ سو سال قبل جو علامتیں بیان فرمائی تھیں وہ آج لفظ بلفظ پوری ہو چکی ہیں ان علامتوں کا پورا ہونا جہاں ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ایک عظیم الشان نشان ہے وہاں ہمیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ ہم اس مہدی کو بھی تلاش کریں جس کے زمانہ کی یہ ساری علامتیں آپؐ نے بیان فرمائی ہیں۔
(بصیرت فیچرس)