“تم اپنے محمد ﷺ کو مدد کیلیے کیوں نہیں بلاتے ۔۔؟” وہ وقت جب سلطان صلاح الدین ایوبی سے یہ سوال کیا گیا؟
583ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے ہر طرف جہاد میں بھرتی کا اعلان فرما دیا پھر آپ لشکر لے کے طبریہ کی طرف بڑھے اور بزور جنگ اسے فتح کر لیا یہ صورت حال دیکھ کر صلیبیوں نے بھی لڑائی کی تیاری کی اور ہر دوردراز اور قریب کے علاقوں کے صلیبی ان کے لشکر میں شامل ہونے لگےسلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے لشکر میں بارہ ہزار گھڑ سوار تھے اور پیادہ لشکر اس کے علاوہ تھا۔ صلیبیوں کی تعداد اسی ہزار کے لگ بھگ تھی ۔کئی دن دونوں لشکر آمنے سامنے رہے بالآخرجب صلیبیوں کی بدقسمتی عروج پر رہی اور ان کے بڑے بڑے سردار اور حکام پکڑے گئے جن میں ان کا بادشاہ یروشلم گائی بھی شامل تھا ۔ عماد الکاتب کا کہنا ہے کہ اس دن جنگ میں اتنے صلیبی قتل اور گرفتار ہوئے کہ مقتولین کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ پوری فوج قتل ہو چکی ہے جبکہ قیدیوں کے ڈھیر دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ پوری فوج زندہ گرفتار کر لی گئی ہے ۔ ایک مسلمان سپاہی تیس تیس صلیبیوں کو خیمہ کی ایک رسی میں باندھ کر ہنکاتا پھر رہا تھا اس لڑائی نے صلیبیوں کی قوت کو پارہ پارہ کر دیا ان کی بڑی مقدس صلیب مسلمانوں کے ہاتھ آگئی تھی اور ان کا مشہور جنگجو بادشاہ ریجی نالڈجس نے ایک بار مسلمانوں کے ایک قافلے کو گرفتار کر لیا تھا اور جب انہیں قتل کرنے لگا تو ان سے کہا اب تم محمد کو اپنی مدد کے لئے کیوں نہیں بلاتے ہو ملعون بھی مسلمانوں کے قید میں تھا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اسے کہا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدد آچکی ہے ۔ پھر اسے قتل کر دیا قتل سے پہلے اس کے سامنے اسلام پیش کرنے کی بھی ایک روایت ہے اس جنگ سے حاصل ہونےوالے قیدی دمشق کے بازاروں میں ایک ایک جوتے کے بدلے فروخت ہوئے۔جب قاضی ابن ابی عصرون دمشق میں داخل ہوئے تو عیسائیوں کی بڑی صلیب ان کے سامنے سر نگوں پڑی ہوئی تھی ۔سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اپنے یلغار کو جاری رکھا اور آپ کے بھائی کے لشکر نے ناصریہ، قیساریہ، عسکا، صفوریہ، شقیف ، فلہ ، تبنین ، صیدا، بیروت ، صور ، عسقلان ،کے علاقے فتح کئے اور رملہ وغیرہ مضافاتی علاقے فتح کرنے کے بعد سلطان نے اپنی اصل منزل مقصود بیت المقدس کا رخ کیا۔فلسطین کے وہ تمام علاقے جن پر سلطان نے قبضہ کر لیاتھا وہاں کے صلیبی اور عسقلان کے شکست خوردہ لشکروں نے بھی بیت المقدس میں پناہ لے لی تھی اور ساٹھ ہزار صلیبی جنگجو بیت المقدس پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے جمع تھے مسلمانوں نے پورے عزم اور ولولے کے ساتھ صلیبیوں پر حملہ کر دیا اوربالآخر صلیبیوں نے امان مانگی۔ سلطان نے ان کی درخواست قبول کرلی اور یہ قرار پایا کہ بیت المقدس کے تمام مسیحی فی مرد دس دینار ،فی عورت پانچ دینار اور فی بچہ دو دینار فدیہ اداء کریں چالیس دن تک جو فدیہ نہیں دے گا وہ غلام شمار کیا جائے گا ۔ اس قرار داد کے بعد جمعہ 27 رجب 583ھ [ مطابق ستمبر 1187ء ] صلیبیوں نے بیت المقدس مسلمانوں کے حوالے کر دیا اور اکانوے سال سے جاری ظلم و بربریت کا وہ دور ختم ہو گیا جس نے پوری امت مسلمہ کے سر شرم سے جھکا رکھے تھے اور اللہ کا یہ
پاک گھر پھر اپنے حقیقی باسبانوں کے ہاتھ میں آگیا اور مسجد اقصیٰ نے سکون کا سانس لیا ۔جب سلطان ایوبی مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تو اس کے ایک حصے میں خنزیر بندھے ہوئے تھے اور اسکے غربی حصے میں فوج کے لیے بیت الخلاء تھے اور محراب کو بند کر دیا گیا تھا ۔ مسلمانوں نے فوراً اس کی پاکی و صفائی کا اہتمام کیا اور مسجد میں قیمتی قالین بچھا دیئے گئے اور خوبصورت اور قیمتی قندیلوں سے اسے منور کیاگیا شعبان کے پہلے جمعے میں اکانوے سال بعد مسجد اقصیٰ سے دوبارہ اذان گونجی اور اس کے منبر سے خطبہ دیا گیااورسلطان نے اظہار تشکر کے لیے گنبد صخریٰ میں نماز اداء فرمائی کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد اللہ تعالٰی نے انہیں بیت المقدس کی فتح کا اعزاز بخشا تھا صلیبیوں نے گنبد صخریٰ میں جو تبدیلیاں کر دی تھی وہ ختم کر دی گئیں اور سلطان تقی الدین نے خود مسجد اقصیٰ میں حاضری دی اور گلاب کے پانی سے اسے غسل دیا اور اپنے ہاتھوں سے جھاڑو دینے کی سعادت حاصل کی اور ہر طرف خوشبوئیں بھکیر دیں۔ آج جبکہ پچاس سال ہونے کو ہیں اور مسجد اقصیٰ یہودیوں کے ناجائز قبضے میں ہے ۔ہم ان واقعات کو مسجد اقصیٰ کی فتح کے واقعے پر ختم کر رہے ہیں تاکہ اس باب کو پڑھنے والا ہر شخص غزوہ بدر سے لے کر مسجد اقصیٰ کی دوبارہ فتح تک کی تاریخ کو بار بار پڑھے اوراپنے دل میں اس نیت اور عزم کو پختہ کرے ؎ جو نیت اور عزم سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اپنے دل میں پختہ کیا تھا اور بالآخر وہ مسجد اقصیٰ کو خنزیروں سے پاک کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔بات صرف عزم کی ہے بات صرف سچی نیت کی ہے پھر یہ عزم اور نیت انسان کو گھر نہیں بیٹھنے دیتے اور منزل پر پہنچے بغیر چین نہیں کرنے دیتے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ بھی ہماری طرح ایک انسان تھے لیکن ان کے دل میں یہ بے چینی تھی کہ مسجد اقصیٰ کافروں کے قبضے میں کیوں ہے ؟ ان کے دل میں یہ خلش تھی کہ اگر ہم اپنے مقدس مقامات کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے تو پھر زندہ رہنے کا کیا فائدہ ہ زمانے میں بھی مسلمان انتشار کا شکار تھے ۔ اس زمانے میں بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد جہاد سے غافل ہو کر عیش پرستی میں پڑ چکی تھی اس زمانے میں بھی سفید چہرے والا کالا یورپ اسلام کو مٹانے کے لیے اور اس کے سینے میں صلیب گھونپنے کے لیے متحد ہو چکا تھا مگر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اپنے اوپر آرام کو حرام کرلیا اور گھوڑے کی پشت کو اپنا تخت اور رات کے وقت مصلے کو اپنا بستر بنایاانہوں نے ایک طرف پکار پکار کر مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی اور علماء کرام سے جہاد پر کتابیں لکھوا کر پوری اسلامی دنیا میں پھیلائیں اور منبر و محراب کے جمود کو برق صفت شعلہ عزم خطباء کے ولولہ انگیز خطبات سے توڑ ڈالا اور دوسری طرف سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اللہ تعالٰی کے سامنے حد درجے کی آہ وزاری کی اور راتوں کی تاریکیوں میں اس نے بیت المقدس واپس لینے کی توفیق مانگی چنانچہ مسلمان بھی متحد ہوگئےاور آسمان سے مدد کے دروازے بھی کھل گئے اور لاکھوں نفوس پر مشتمل صلیبیوں کی آہنی لشکر جو خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھےسلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے سامنے مکڑی کے جالے ثابت ہوئے ۔ آج پھر وہی ماحول ہے ۔ آج پھر کفر نے خود کو نا قابل تسخیر سمجھ رکھا ہے آج پھر مسلمانوں میں انتشار اور جمود کی کیفیت ہے مگر اس خاک کے اندر بہت سارے شرارے چھپے ہوئے ہیں اور امت مسلمہ آج بھی سب کچھ کرنے کی طاقت رکھتی ہے مگر ضرورت ہے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ جیسےایک قائد کی جو خود عمل کا پیکر ہو جو خود بے چینی اور خلش میں مبتلا ہو جس کی عزم میں آہن کی سختی اور جس کی نیت میں حوض کوثر کی پاکیزگی ہو جو درد سے بولتا ہو اوراپنا درد بانٹنے کی طاقت رکھتا ہو جس کا دل امت کی حالت دیکھ کر زخمی ہو مگر وہ ان زخموں کو کافروں کی طرف منتقل کرنے کا عزم رکھتا ہوں، جو اپنی ذات کے چکر اور ہر طرح کے رعب سے آزاد ہو جو صرف موت کے آئینے میں رخ یار کو تلاش کرتا ہو اور فقر سے محبت کرتا ہو۔ آج افغانستان کیطرف سے ایک خوبصورت جھلک تو نظر آئی کیا معلوم یہی وہ بدر منیر ہو جو امت مسلمہ کی تاریک رات کو روشن کرسکے لیکن اچھا قائد اچھے لوگوں کو ہی ملتا ہے اور ماہر کسان اچھی زمین ہی سے فصل نکال سکتا ہے آج ہر مسلمان کو جہاد کے لیے تیار ہونا ہوگا آج ہر مسلمان کو اپنی ذات کے خول سے نکلنا ہوگا آج ہرمسلمان کو اپنے اندر آہنی عزم اور سچی نیت پیدا کرنی ہوگی۔آج ہر مسلمان کو اسلامی ممالک کی ایک ایک چپہ زمین آزاد کرانے کا عزم کرنا ہوگا ۔ آج ہر مسلمان کوخون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ لینے کی نیت کرنی ہوگی ۔ آج مسلمانوں کو اسلام کی عظمت کی خاطر خاک اور خون میں تڑپنے کا شوق اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔ تب ان شاء اللہ خود انہی مسلمانوں میں سے کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ بھی پیدا ہو جائے گا ۔ اور کسی ماں کا بیٹا نورالدین زنگی رحمہ اللہ جیسا بھی کہلائے گا۔