ایس ایس پی راؤ انوار کو عہدے سے ہٹادیا گیا
کراچی: جعلی پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کو قتل کرنے کے الزام میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے میں کپڑوں کے تاجر نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کو قتل کرنے والے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدے سے ہٹادیا گیا۔ بے گناہ نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف شہریوں کے شدید احتجاج پر راؤ انوار کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے گناہ اور پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنااللہ عباسی نے راؤ انوار کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جس پر کارروائی کرتے ہوئے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو عہدے سے ہٹاکر ایس ایس پی عدیل چانڈیو کو ملیر کا چارج دے دیا ہے۔
آئی جی سندھ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔ آئی جی سندھ نے ایسٹ اور ملیر کے دو ایس ایس پیز کو بھی عہدے سے ہٹاتے ہوئے ایسٹ کے انویسٹی گیشن آفیسر الطاف سرور ملک کو سی پی او رپورٹ کرنے کی ہدایت کردی۔ آئی جی اے ڈی خواجہ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نقیب اللہ کا پولیس مقابلہ مشکوک ہے، یہ وہ نقیب اللہ نہیں جس کے خلاف سچل تھانے میں 2014ء میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی، پوری کوشش ہے کہ واقعے کی تحقیقات شفاف انداز میں ہوں۔
نیوز وی او سی نے نقیب اللہ کی ہلاکت پر بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بھی حاصل کرلی ہے جس میں راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ چیف سیکریٹری ، حکومت سندھ ، وزارت داخلہ کو بھجوادی گئی ہے۔
دوسری طرف ایس ایس پی راؤ انوار نے کہا کہ نقیب اللہ کی ہلاکت پر بنائی جانیوالی تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کرتا ہوں اور ایسی کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتا جس میں میرے مخالفین کو شامل کیا گیا ہو، کئی گھنٹے تک میری پولیس پارٹی کو حبس بیجا میں رکھا گیا اور میرے خلاف بیان دینے پر اکسایا گیا، میں تو مقابلے کی اطلاع ملنے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچا تھا اور اس وقت تک 4 دہشتگرد مارے جاچکے تھے۔ ادھر نقیب اللہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے گھر سے حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
واضح رہے کہ راؤ انوار پر اس سے پہلے بھی جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ نوجوانوں کو ہلاک کرنے اور زمینوں پر قبضے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 2016ء میں بھی معطل کیا گیا تھا تاہم بعدازاں اعلیٰ سطح سے آنے والے دباؤ کے بعد کچھ ہی عرصے میں بحال کردیا گیا۔ 2016 میں ایک انٹرویو میں راؤ انوار نے بتایا تھا کہ وہ اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس مقابلے اور ان میں درجنوں مبینہ ملزمان کو ہلاک کرچکے ہیں۔