مودی نےبھارتی مسلمانوں کو شدید مشکل میں ڈال دیا ہے

نئی دلی (نیوز ڈیسک) بھارتی انتہا پسندوں کی جانب سے جہاں ایک جانب مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے تو وہیں حکومت بھی درپردہ ایسے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے کہ جن کا مقصد مسلمان شہریوں کے مسائل میںا ضافہ کرنا ہے۔ ایک ایسا ہی اقدام حج کے معاملات کو خارجہ امور کی وزارت سے لے کر اقلیتی امور کی وزارت کو دینے کا فیصلہ ہے، جس پر مسلم دانشور اور رہنما سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر اور جریدے ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزارت اقلیتی امور ایک کمزور اور بے مقصد وزارت ہے جس کے اختیار میں عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وزارت ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد بھارتی مسلمانوں کے حج پر جانے کے امور کا انتظام کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام کا کہنا تھا کہ متعدد امور ایسے ہیں کہ جن کا انتظام وزارت خارجہ امور کے پاس ہونا ضروری ہے، جن میں حاجیوں کے لئے پاسپورٹ کا اجراءبھی شامل ہے۔ اسی طرح مکہ اور مدینہ میں حاجیوں کے لئے قیام گاہوں کا انتخاب اور حصول بھی مملکت میں مقیم بھارتی سفراءکے ذریعے ہی بہتر طور پر سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ حجاج کو کوئی مسئلہ درپیش ہونے کی صورت میں بھی وزارت خارجہ امور ہی بہتر طور پر اسے حل کرسکتی ہے۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام کا کہنا تھا کہ وزارت اقلیتی امور اقلیتی طلباءکو سکالر شپ دینے جیسے آسان کام کا انتظام بھی نہیں کرپاتی تو یہ حج جیسے مشکل انتظامات کے قابل کیسے ہوسکتی ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وزارت خارجہ امور میں حج کے معاملات سے متعلق 13 سینئر افسران تعینات تھے لیکن وزارت اقلیتی امور میں محض ایک افسر کے ذمے یہ کام لگایا گیا ہے، جو اس سے پہلے ہی وقف، درگاہ اور نگرانی جیسی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ دیگر مسلم رہنماﺅں کی جانب سے بھی بھارتی حکومت کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے لیکن حکومت اپنا فیصلہ بدلنے پر ہرگز تیار نظر نہیں آتی۔