سرِ تسلیم خم
کالم:- طارق حسین بٹ شانؔ
سینیٹ میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے خطاب کے بعد ملک میں جاری غیر یقینی صورتِ حال کے بادل چھٹ گئے ہیں۔کوئی کسی پر اعتماد کرے یا نہ کرے سپہ سالار کی کہی ہوئی بات پر ہر کوئی بلا چون و چرا یقین کرلیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ سپہ سالار سچائی کا پیکر ہوتا ہے،زیادہ محبِ وطن ہو تا ہے،عقل و دانش کا استعارہ ہوتا ہے،دور نگاہی کی علامت ہوتا ہے،جمہوری روش کو پروان چڑھانے والانا خدا ہوتا ہے یا اس کی ہر بات منطق اور دلیل کی نمائندہ ہوتی ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سپہ سالار بے پناہ قوت کا حامل ہوتا ہے جو اقتدار کی مسند کا فیصلہ کرنے میں بنیادی رول ادا کرتی ہے اور اسی کردار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر کوئی سپہ سالار کی کہی ہوئی بات کو وزن دینے کیلئے بے تاب ہوتا ہے۔ہمارے سامنے پاکستان کی ۰۷ سالہ طویل تاریخ کے اوراق بکھرے پڑے ہیں جن میں سپہ سالار کا کردار بڑا نمایاں اور کلیدی نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ کی تحقیر،جمہوریت کی پاما لی اور وزیرِ اعظم کی معزولی،گرفتاری، سزا،اور پھانسی تک کونسا ایسامرحلہ ہے جو کہ سپہ سالار کی مرضی اور رائے سے سر انجام نہیں پایا؟ ہماری عدلیہ لاکھ اس بات کی دہائی دے کے ابھی تک کوئی مائی کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا جو عدلیہ پر دباؤ ڈال سکے تو یہ بات دل کو نہیں لگتی کیونکہ حقائق اس للکار کی نفی کرتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس ثا قب نثار کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کرتے ہوں اور سارے فیصلے اپنی سمجھ بوجھ،ضمیر،حقائق اور سچائی سے اور کرتے ہوں اور عدل و انصاف کی میزان کو کسی ایک جانب جھکنے نہ دیتے ہوں۔ ہم ان سے اس حد تک اتفاق کر سکتے ہیں کہ وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ درست ہے لیکن عدلیہ کا ادارہ تو ثاقب نثار کا نام نہیں ہے۔ ان کے پیشروؤں نے ماضی میں جس طرح کے فیصلے کئے تھے وہ باعثِ فخر نہیں ہیں اور نہ ہی اس سے عدلیہ کے ادارے کی توقیر میں کوئی اضافہ ہواا ہے بلکہ بعض فیصلوں نے تو عدلیہ کی جگ ہسائی کا موقعہ فراہم کیا تھا اور ہمیں دنیا کے سامنے بحثیتِ قوم شرمندگی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اگر ہم حالات و واقعات کو آج کے تناظر میں دیکھنے کی کو شش کریں تو ہمیں جنرل پرویز مشرف آئین سے بالا تر نظر آتے ہیں اور قانون ان کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا دکھائی دیتا ہے۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کوئی انتہائی دولتمند اور با اثر انسان ہیں بلکہ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان کی پشت پر ہمارے سابق سپہ سالار کھڑے تھے جس کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف قانون کی نگاہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنرل پرویز مشرف ایک طالع آزما جنرل تھے جھنوں نے میاں محمد نواز شریف کی آئینی حکومت کا تختہ الٹا تھا لیکن ہماری عدلیہ نے اس شب خون کو جائز قرار دے کر اپنی اجلی پیشانی کو داغداد کر لیا تھا۔سچ تو یہی ہے کہ طالع آزمائی کے منہ زور طوفانوں کے سامنے عدلیہ کا کوئی معزز جج کھڑا نہیں رہ سکا تو پھر قوم کیسے یقین کر لے کہ عدلیہ دباؤ کے بغیر اپنے فیصلے صادر کرتی رہی ہے؟عدلیہ کا احترام اپنی جگہ مسلم لیکن حقائق سے نظریں چرانا بھی ممکن نہیں اور سچ یہی ہے کہ عدلیہ ہمیشہ طالع آزمائی کے سامنے جھکتی رہی ہے۔کیسے کیسے گہرِ تابناک تھے جو طالع آزماؤں کی طالع آزمائی اور عدلیہ کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھے۔اس روش کے خلاف بڑی سخت جدو جہد کی گئی لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات۔۔کاش عدلیہ کبھی ایک بار آئینی حکیمران کی خاطر طالع آزماؤں کی راہ میں کھڑی ہو جاتی تو ہم بھی فخر سے اپنا سر بلند کرتے لیکن ایسا بوجوہ نہ ہو سکا۔ ہم نے جانے والوں کا ماتم ضرور کیا اور ان کی بسالتوں کو جی بھر کر خراجِ تحسین بھی پیش کیا لیکن کھوتی بوڑھ کے نیچے ہی رہی۔طالع آزماؤں کا دست و بازو بنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے جس میں ہماری عدلیہ بڑی ممتاز نظر آتی ہے۔ عوام سب کچھ جانتے اور پہچانتے ہیں لہذا انھیں گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ اقتدار کے طالبین کی بے چینیوں کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ ہر کوئی ذولفقار علی بھٹو تو بن نہیں سکتا کہ جمہوریت کی خاطر جان پر کھیل جائے اور عوام الناس صدیوں اس کے نام کی مالا جپتے رہیں۔کوئی تو اس جیسا ایک ایک شخص دکھاؤ جودباؤ کے سامنے کھڑا ہو اور ہم کہہ سکیں کہ اس میں عوام کی روح بولتی ہے۔،۔
سینیٹ میں سپہ سالار کے ایک خطاب کے بعد حکومت کے جانے کی ساری افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ہر کوئی دھیما لہجہ اختیار کر رہا ہے کیونکہ سپہ سالار نے کہہ دیا ہے کہ میں جمہوریت کے ساتھ ہوں۔اب وہ حکومت جو ہر روز ہچکولے کھاتی پھر رہی تھی اب طلاطم انگیزیوں سے باہر آ چکی ہے۔یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اس کے خلاف دھرنے اور احتجاج نہیں ہو ں گے لیکن اس میں وہ شدت نہیں ہو گی جس سے حکومت کو بوریا بستر باندھنا پڑ جائے۔میری ذاتی رائے ہے کہ ۸۱۰۲ کے انتخا بات سے قبل سارے طوفان تھم جائیں گے اور پرچی کی قوت کے بھر پور اظہارکا تاریخی لمحہ ہماری ذہانتوں کا امتحان ہو گا۔ حلقہ بندیوں کے بل کی منظوری اس سمت میں ایک دوسری اہم پیش رفت ہے جبکہ ٹیکنو کریٹ حکوت کے قیام کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔عمران خان نے بھی ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کی مخالفت کر دی ہے کیونکہ وہ ذاتی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت ۸۱۰۲ کے انتخابات جیتنے کی سکت رکھتی ہے اور عوامی حمائت سے اگلے وزیرِ اعظم کی پگ اپنے سر پر سجا سکتی ہے۔ٹیکنو کریٹ حکومت شیخ رشید احمد،چوہدری برادران، جماعت اسلامی،عوامی تحریک اور اہلِ سنت جماعت کو تو سوٹ کرتی ہے لیکن ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ٹیکنو کریٹ حکومت کے نام سے بدھکتی ہیں کیونکہ اس سے ان کا حقِ اقتدار متاثر ہو تا ہے۔قومی رہنما غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کے پر چارک ہو تے ہیں اور عوامی رائے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں کیونکہ اسی سے ان کے اقتدار کی راہیں پھو ٹتی ہیں۔وہ چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی سدا مزا حمت کرتے ہیں کیونکہ اس سے بہت سے پریشر گروپ اقتدار کے حقدار بن جاتے ہیں جبکہ مقبول سیاسی جماعتوں کو کرب و بلا اور آزما ئشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سپہ سالار کے بیان کاسب سے حیران کن پہلو یہ تھا کہ سپہ سالار نے خود کو پارلیمنٹ کی طاقت کے سامنے سرنگوں کیا تھا۔سپہ سالار کی اس ادا کو سب نے بہت سراہا۔ایک مستحسن اقدام کی پذیرائی ضروری ہوتی ہے اور پذیرائی کا یہ حق سب نے دل کھول کر ادا کیا۔کچھ اور ہوا یا نہ ہو ا لیکن اتنا ضرور ہو اکہ بڑی دیر کے بعد اسٹاک ایکسچیج میں تیزی کا رحجان دیکھنے کو ملا۔مندی کا وہ ماحول جو میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی سے شروع ہوا تھا سپہ سالار کی ایک تقریر سے اس کا خاتمہ ہو گیا لہذا اب امید کی جانی چائیے کہ تیز ی کا یہ رحجان آنے والے مہینوں میں بھی برقرار رہے گااور ہماری اسٹیبلشمنٹ جمہوری اقدار کے تسلسل کی خاطر ملکی نظام پر چھانے والے گہرے بادلوں سے قوم کو نجات دلا کر دم لے گی۔ ہماری پاک افوج نے دھشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ہمارے فوجی جوانوں نے ملکی سلامتی کی خاطر اپنی جانوں کی جو قربانی دی ہے پوری قوم اس پر ان کی احسان مند ہے۔ان کے لہو کی سرخی سے پاک وطن کو جو استحکام ملتا ہے ہر پاکستانی اس پر نازاں بھی ہے اور اپنی افواج سے دلی محبت بھی کرتا ہے۔محبت کا یہ اٹوٹ رشتہ ہی پاک وطن کے استحکام اور اس کی یکجہتی کی علامت ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ افواجِ پاکستان جب ملک میں کرپشن،بد دیانتی،لوٹ کھسوٹ،اور بند بانٹ کا تماشہ دیکھتی ہیں تو انھیں اپنی لازوال قربانیاں مٹی میں ملتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ان کا دل کڑتا ہے اور ان کی روح بے چین ہو جاتی ہے اور شائد یہی بے چیچنی انھیں کسی غیر آئینی اقدام کی جانب دھکیل دیتی ہے جو کہ غیر آئینی راستہ ہے اور بے شمار نئے مسائل کو جنم دیتا ہے۔آئین کے سامنے سر نگوں رہ کر پار لیمنٹ اور انتظامیہ کو خود احتسابی پر مائل کرنا ہی بہتریں راستہ ہے اور فوجی قیادت کو اسی راہ کا انتخاب کرنا چائیے۔پاکستانی عوام افواجِ پاکستان سیبے پناہ محبت کرتے ہیں۔خدا کرے کہ محبت کا یہ رشتہ ہمیشہ قائم و دائم رہے تا کہ وطنِ عزیز جمہوری انداز میں آگے بڑھے اور اقوامِ عالم میں اپنی اہمیت کو اجاگر کرے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسٹیبلشمنٹ اور سارے طاقتور ادراے خود کو پارلیمنٹ کے سامنے سر نگوں کر دیں۔،۔