وسیم اختر کی معافی کا رینجرز پر کوئی اثر نہ ہو
کراچی: عدالت میں پیشی کے دوران کراچی کے میئر وسیم اختر کے ‘بھول جانے اور معاف کرنے’ کے بیان کو سندھ رینجرز نے بظاہر قبول نہیں کیا اور نیم فوجی فورس کے خیال میں یہ بیان کراچی میں رینجرز کی ‘غیر جانبدارانہ’ کارروائیوں کو پس پشت ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔
وسیم اختر کو ان کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے سینٹرل جیل کراچی سے انسداد دہشت گردی عدالت لایا گیا، جہاں میڈیا سے گفتگو میں میئر کراچی نے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بلال اکبر کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا، ‘خدا کے لیے آگے بڑھیں اور ماضی میں جو کچھ ہوا، اسے بھول جائیں’۔
وسیم اختر کا کہنا تھا، ‘ڈی جی رینجرز ہمارے بڑے ہیں اور میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ (ہماری) غلطیاں معاف کردیں، اگر وہ کسی بھی معاملے پر غصے میں ہیں تو میں ان سے معافی کا طلب گار ہوں’۔
ساتھ ہی انھوں نے حکام سے اپیل کی کہ انھیں ‘جھوٹے مقدمات میں نہ پھنسایا جائے’ اور شہر کے نمائندے کے طور پر عوام کی خدمت کرنے کی اجازت دی جائے
تاہم نیم فوجی فورس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈی جی رینجرز نے وسیم اختر کی معافی کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور میئر کراچی کی میڈیا سے گفتگو کو کراچی میں جاری رینجرز آپریشن کو متنازع بنانے کی ایک کوشش قرار دیا۔
رینجرز کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں ترجمان نے وسیم اختر یا ان کی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا نام لیے بغیر کہا، ‘ایک سیاسی جماعت کے ممتاز رہنما کی جانب سے ڈی جی رینجرز کو مخاطب کرکے یہ تاثر دینا کہ کراچی آپریشن میں کسی مخصوص شخص یا پارٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، حقائق کے برعکس ہے’۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘رینجرز کراچی کا امن بحال کرنے کے لیے صرف جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کو ہی نشانہ بنارہی ہے اور کراچی آپریشن کے دوران کسی مخصوص پارٹی یا گروپ کو نشانہ نہیں بنایا جارہا’۔
تاہم رینجرز کے بیان نے ایم کیو ایم رہنماؤں کو مایوس کردیا، جن کا ماننا ہے کہ میئر کراچی کے بیانات کا جو تاثر رینجرز نے لیا، وہ درست نہیں۔
ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ یہ 22 اگست کو الطاف حسین کے خطاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر وسیم اختر کی جانب سے ایک مصالحتی کوشش تھی، ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وسیم اختر نے مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف رینجرز کے اقدامات پر کسی بھی قسم کے خدشات کا اظہار نہیں کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ رینجرز نے وسیم اختر کے بیان کو غلط انداز میں لیا۔
یاد رہے کہ وسیم اختر کو رواں برس 19 جولائی کو اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رینجرز کی جانب سے ضیاء الدین ہسپتال میں دہشت گردوں کے علاج میں معاونت کے کیس میں وسیم اختر کی عبوری ضمانت مسترد کردی تھی۔
بعدازاں انھیں ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا جبکہ ان کے خلاف سانحہ 12 مئی کے سلسلے میں 7 مزید مقدمات بھی درج کیے گئے۔
24 اگست کو وسیم اختر جیل سے ہی الیکشن جیت کر میئر کراچی منتخب ہوئے اور 30 اگست کو انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
وسیم اختر پر 2 درجن سے زائد مقدمات درج ہیں، جن میں سے زیادہ تر ایم کیو کے بانی الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقاریر سننے اور ان کا اہتمام کرنے سے متعلق ہیں۔