شامی جنگ بندی کے معاملے پر امریکہ اور روس میں کشیدگی
روس نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے ’اعتدال پسند‘ باغی تنظیموں کو شدت پسند تنظیموں سے الگ نہ کیا تو وہ ان پر دوبارہ سے بمباری شروع کر سکتا ہے۔
اس کے جواب میں امریکہ نے حلب اور دوسرے محصور علاقوں تک امدادی سامان نہ پہنچنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس کے علاوہ باغی تنظیموں اور حکومتی دستوں کے مابین جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
اگر جنگ بندی سات دن تک جاری رہی تو امریکہ اور روس نے اتفاق کیا ہے کہ وہ جبہ الفتح الشام (جو پہلے النصرہ فرنٹ کے نامی سے جانی جاتی تھی) اور شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ پر مشترکہ حملے کریں گے۔
جمعے کے روز امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور روسی وزیرِ خارجہ سرگے لاروف نے اس بحران کے بارے میں ٹیلی فون پر بات کی۔
جان کیری نے خبردار کیا امریکہ روس مشترکہ فوجی حکمتِ عملی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک امدادی سامان نہ پہنچا دیا جائے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان میں کہا کہ جان کیری نے ’اس بات پر زور دیا کہ امریکہ توقع رکھتا ہے کہ روس بشار الاسد کی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے امدادی قافلے کو حلب اور دوسرے ضرورت مند علاقوں تک پہنچنے دے گا۔
’امریکی وزیرِ خارجہ نے واضح کیا کہ امریکہ روس کے ساتھ مل کر اس وقت تک مشترکہ نفاذ مرکز قائم نہیں کرے گا جب تک امدادی سامان کی رسائی کی شرائط پوری نہیں ہو جاتیں۔‘
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک محصور حلب تک سامان پہنچانے کی منتظر ہے۔
Iترکی اور شام کی سرحد پر امدادی سامان سے لدے 20 ٹرک پیر سے محفوظ راستہ ملنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ تاہم اقوامِ متحدہ کو ابھی تک شامی حکومت کی جانب سے اجازت نامے نہیں ملے۔
اسی دوران روسی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سرگے لاوروف نے جان کیری پر زور دیا ہے کہ وہ متعدل حزبِ اختلاف کو شدت پسند عناصر سے الگ کرنے کا وعدہ جلد پورا کرے۔
بیان کے مطابق لاوروف نے امریکہ سے یہ بھی کہا کہ وہ جنگ بندی کا معاہدہ سب کے سامنے پیش کرے اور اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظور کروائے۔
اس سے قبل نائب روسی وزیرِ خارجہ میخائل بوگدانوف نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کا ملک پراعتماد ہے کہ شام جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کرے گا، تاہم انھیں ’حزبِ اختلاف کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی