بیت المقدس کے معاملے پر اسرائیل فلسطین تنازعہ کیسے شروع ہوا
لاہور 8 دسمبر 2017
(بیورو رپوٹ پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)
یروشلم: مقبوضہ بیت المقدس جسے یروشلم بھی کہا جاتا ہے دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔1948میں جب برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی تو یروشلم اس کا حصہ نہیں تھا۔ اقوام متحدہ نے علاقے کو فلسطین اور اسرائیل میں تقسیم کرنے کے لیے جو نقشہ بنایا اس میں بھی یروشلم کو بین الاقوامی کنٹرول میں دینے کی سفارش کی تھی۔مگر فلسطینیوں نے یہ پلان تسلیم نہیں کیا اور اپنے پورے علاقے کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ 1948 کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی یروشلم پر قبضہ کر لیا جب کہ مشرقی یروشلم اردن کے کنٹرول میں رہا۔1967کی جنگ میں اسرائیل نے عربوں کی متحدہ فوج کو شکست دے کر اردن سے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم کا علاقہ بھی چھین لیا۔اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو اپنا علاقہ قرار دیا تو 1967ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی مخالفت کی۔1993کے اوسلو معاہدے کے تحت فلسطین اور اسرائیل نے ایک دوسرے کا وجود تسلیم کیا،غزہ اور مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم کی گئی۔ اور 1994 میں امریکہ نے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا ،،لیکن آج تک ایسا ممکن نہ ہوا ،،جبکہ یروشلم کا معاملہ بعد میں طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت قائم ہونے کے بعد سے رہے سہے مذاکرات بھی ختم ہو گئے اور اب اسرائیل مشرقی یروشلم کے علاقوں میں بھی یہودی بستیاں قائم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔مقبوضہ بیت المقدس جسے یروشلم بھی کہا جاتا ہے دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے1948میں جب برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی تو یروشلم اس کا حصہ نہیں تھا1948 کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی یروشلم پر قبضہ کر لیا جبکہ مشرقی یروشلم اردن کے کنٹرول میں رہا1967کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو اپنا علاقہ قرار دیا1967ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی مخالفت کی1993کے اوسلو معاہدے کے تحت فلسطین اور اسرائیل نے ایک دوسرے کا وجود تسلیم کیا