پاکستان

کالاباغ ڈیم چاروں صوبوں کیلئے پانی، سستی بجلی، خوشحالی اور غریبوں کے مستقبل کا ضامن ہے: چودھری پرویزالٰہی

اسلام آباد/لاہور 6 دسمبر 2017
(بیورو رپوٹ پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)
بچوں کے روشن مستقبل کیلئے یہ ڈیم ضروری ہے، آج 18روپے یونٹ والی بجلی ایک روپیہ 54پیسے اور زراعت کیلئے پانی مفت میں ملتا: ممتاز ماہر شمس الملک ڈیم کی لاگت اب 9ارب ڈالر ہے جبکہ چار سال میں سیلاب سے 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا: پاکستان مسلم لیگ کے تحت مونس الٰہی ایم پی اے کے زیر انتظام قومی سیمینار سے خطاب
پاکستان مسلم لیگ کے سینئرمرکزی رہنما و سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ کالاباغ ڈیم چاروں صوبوں کیلئے پانی، سستی بجلی، خوشحالی اور غریبوں کے مستقبل کا ضامن ہے۔ وہ اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ کے تحت ’’کالاباغ ڈیم قومی سیمینار‘‘ سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سیمینار کے چیف آرگنائزر مونس الٰہی تھے۔ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ و چیئرمین واپڈا شمس الملک، ممتاز ماہر معاشیات سابق وفاقی وزیر خزانہ سلمان شاہ، بلوچستان کے سینیٹر سعیدالحسن مندوخیل اور دیگر رہنماؤں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم نہ بنانا فیڈریشن کیخلاف سازش ہے، پنجاب کے حکمران بھی اس کی تعمیر میں مخلص نہیں، میاں برادران نے اپنی کرسیوں کیلئے اس پر سودے بازی کی جبکہ کالاباغ ڈیم بننے سے چاروں صوبوں میں اندھیرے دور، آبپاشی کیلئے پانی کی قلت ختم ہونے کے علاوہ لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی آباد ہو گی، پاکستان سرپلس ملک بن جائے گا اور دفاعی بجٹ کا مسئلہ بھی حل ہو گا۔
سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں نثار صفدر، ظفر بختاوری ، خالق مہمند اللہ، عبدالرحیم بلوچ، کرنل عبدالرزاق بگتی، رضوان ممتاز علی اور محمد سلیمان خان بھی شامل تھے۔ پہلی نشست کی صدارت ممتاز ماہر شمس الملک اور دوسری کی چودھری پرویزالٰہی نے کی جس میں ماہرین کے علاوہ ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی بڑی تعداد موجود تھی۔

چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ غربت کے خاتمہ کیلئے تھر جیسے علاقوں کو سرسبز کرنا ہو گا، کالاباغ ڈیم بنانے کیلئے تمام مخالفت کرنے والوں کو بلائیں گے، کھلے دل سے فرداً فرداً ایک ایک کو راضی کریں گے، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے مگر آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کیلئے آپس میں اختلافات ختم کرنا ہوں گے، کالاباغ ڈیم بننے سے 18 روپے یونٹ ملنے والی بجلی ڈھائی روپے میں ملے گی، آئی ایم ایف کو ہم نے نکال باہر کیا تھا مگر یہ پھر سے لے آئے، کالاباغ ڈیم کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے، ڈیم سے سب سے زیادہ فائدہ سندھ پھر خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور پنجاب کو فائدہ ملے گا۔
میڈیا سے گفتگو میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم بنانے کیلئے جلد اے پی سی بھی بلائی جا سکتی ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے پی ٹی آئی کی ریلی پر ن لیگ کی جانب سے فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس پر دلی افسوس ہے کہ اس پر فائرنگ پنجاب حکومت کی نااہلی ثابت کرتی ہے۔ چودھری پرویزالٰہی نے سیمینار میں مزید کہا کہ موجودہ حکومت کے کئی اور وعدوں کی طرح 6ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ بھی جھوٹ ثابت ہوا بلکہ اسے ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نظر نہیں آ رہی، بجلی مسلسل اتنی مہنگی کی جا رہی ہے کہ غریب عوام چیخ رہے ہیں کہ وہ بچوں کو دو وقت کی روٹی دیں یا بجلی کا بل ادا کریں، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی بجلی کے ریٹ زیادہ ہیں جو بجلی ہمارے 2002-07ء کے دور میں 3سے 5روپے فی یونٹ تھی، آج 18سے 20روپے ہے، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اور سرچارج اس کے علاوہ ہیں، ہر سال تقریباً 40ملین ایکڑ فٹ قیمتی پانی سمندر میں گر کے ضائع ہو جاتا ہے، سیمینار میں ماہرین کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس سے نہ صرف بجلی بلکہ زرعی مقاصد کیلئے سندھ کو 4ملین ایکڑ فٹ، خیبرپختونخواہ کو 2.2ملین ایکڑ فٹ، بلوچستان کو 1.5ملین ایکڑ فٹ اور پنجاب کو مزید 2ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہو سکتا ہے، اسی طرح پنجاب سے کہیں زیادہ فائدہ سندھ اور خیبرپختونخواہ کی زراعت کو فائدہ ہو گا، آج شمس الملک صاحب اور دیگر مقررین کی مدلل گفتگو کے بعد خیبرپختونخواہ اور دیگر صوبوں کے دوستوں پر توکالا باغ ڈیم کی اہمیت ضرور واضح ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 4 سال میں سیلاب سے ملکی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا جبکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیرکا موجودہ تخمینہ 9 ارب ڈالر ہے، ڈیم بن چکا ہوتا تو ملکی معیشت کو اتنا نقصان نہ ہوتا بلکہ 3500 قیمتی انسانی زندگیوں کو بھی بچایا جا سکتا تھا۔ چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ بطور وزیراعلیٰ پنجاب این ایف سی ایوارڈ کی میٹنگ میں بجلی اور گیس کی تقسیم کے ضمن میں آبادی کی بنیاد کی بجائے source based formula کی تجویز پر میں نے کہا کہ میری صرف ایک شرط ہے اور آئیں آج سب مل کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبہ پر دستخط کریں، تاکہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو توانائی کے بحران سے مستقل نجات مل جائے تو تمام وزرائے اعلیٰ خاموش ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کے بارے میں دوسرے صوبوں، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور سندھ میں جو غلط فہمیاں پھیلا ئی گئی ہیں، ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور ہماری پارٹی کا یہ سیمینار اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی اختلاف رائے جمہوریت اور سیاست کا حسن ہے لیکن ہمیں ایک ایسے منصوبے کو سیاسی اختلاف رائے کی نذر نہیں کرنا چاہیے، جس سے پاکستان کی آئندہ نسلوں کی روشنی، ترقی اور خوشحالی وابستہ ہے۔

سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ و چیئرمین واپڈا شمس الملک نے کہا کہ کالاباغ ڈیم نہ بنانا پاکستان کی فیڈریشن کیخلاف سازش ہے اور پنجاب کے حکمران بھی یہ ڈیم بنانے میں مخلص نہیں، اپنے بچوں کا مستقبل روشن کرنا ہے تو پھر یہ ڈیم بنانا ہو گا۔ مرحوم صدر جنرل ایوب خاں نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کیلئے انڈس سٹڈی کا پلان بنایا جس کے تحت بجلی کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی ہو سکتی تھی جبکہ 1973ء میں ورلڈ بینک نے بھی کہا کہ پاکستان کی آئندہ ترقی و خوشحالی کا دارومداد کالا باغ ڈیم پر ہو گا، پاکستان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے منگلا اور تربیلا کے بعد کالا باغ ڈیم بنانا بہت ضروری ہے، 77ء میں اس کی فزیبلٹی رپورٹ بھی بنا لی گئی اور ورلڈ بینک نے بہترین عالمی ماہرین کو انڈس سٹڈی پر لگایا تھا بلکہ ان کی رپورٹ کے بارے میں پتہ نہیں کن لوگوں نے کہا کہ اس میں ٹیکنیکل غلطی ہے جس کی بناء پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر روک دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ زراعت کیلئے پانی حاصل کرنے کیلئے بھی کالا باغ ڈیم کی سائٹ بہترین ہے، اس سے پورا سندھ سیراب ہو گا، تھر کی پیاس کالا باغ ڈیم ہی بجھا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 92ء میں واپڈا کا فیصلہ تھا کہ 95ء تک کالا باغ ڈیم بنا دیا جائے، بھاشا ڈیم 2010ء تک مکمل کیا جائے، آج ہمیں جو بجلی 18 روپے فی یونٹ مل رہی ہے کالا باغ ڈیم بننے سے وہ ہمیں 1 روپیہ 54 پیسے فی یونٹ ملتی اور کھیتوں کیلئے پانی مفت میں مل رہا ہوتا، آج پاکستان کو 192 ارب روپے سالانہ بجلی کی مد میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
شمس الملک نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ دھوکہ دشمنوں نے نہیں بلکہ اپنے حکمرانوں نے کیا جو خود تو بجلی کی قیمت دیتے نہیں، صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤس میں بجلی جانے سے جو جنریٹر چلتے ہیں ان کے فیول کی قیمت بھی وہ شہری بھی ادا کرتا ہے جو بجلی استعمال ہی نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک اب ورلڈ بینک نہیں رہا بلکہ وہ انڈین کمپنی بن چکا ہے، موجودہ حکمران کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نہ بناؤ، ہمیں بتایا جائے کہ 1967ء میں حکومت جھوٹ بول رہی تھی یا یہ حکومت بول رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تربیلا ڈیم کو پاور کی ضروریات اور کالا باغ ڈیم کو آبپاشی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ کے بلوچستان سے سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان کو کالاباغ ڈیم بننے سے کوئی مسئلہ نہیں، ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق آنے والے دس سال میں لوگ کوئٹہ سے نقل مکانی شروع کر دیں گے کیونکہ بلوچستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا، بعض سیاسی جماعتیں جن کے پاس کوئی ایشو نہیں وہ اس کو ایشو بنا کر اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں، بلوچستان کالا باغ ڈیم بننے کی حمایت کرتا ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ سید سلمان شاہ نے کہا کہ پانی کے بغیر پاکستان کی معیشت نہیں چل سکتی، غربت، بھوک، افلاس کے خاتمہ کیلئے پانی بنیادی جزو ہے، کالا باغ ڈیم نہ بننے سے پاکستان کی 25 ملین ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے، اگر کالا باغ ڈیم بن جائے تو صرف پنجاب کو 20 ارب ڈالر سالانہ زرعی شعبے سے حاصل ہو سکتا ہے جبکہ دوسرے صوبوں کو بھی برابر فائدہ ہو گا، کالا باغ ڈیم سستی بجلی فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتا ہے مگر ہمارے حکمران کسی کنفیوژن کی وجہ سے اسے بنانے کیلئے تیار نہیں، آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کالا باغ ڈیم بنانے کے ذرائع ہمارے پاس موجود ہیں، اس سے تین سال کا پانی ہم سٹور کر سکتے ہیں دنیا میں اتنے لمبے عرصے تک پانی سٹور کرنے والا کوئی ڈیم نہیں ہے، سندھ، جنوبی پنجاب، جنوبی خیبرپختونخواہ اور مشرقی بلوچستان کا حصہ کالا باغ ڈیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں حتیٰ کہ پاکستان کے ڈیفنس بجٹ کا مسئلہ بھی اس ڈیم کے بننے سے حل ہو سکتا ہے اور پاکستان ایک سرپلس ملک بن سکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا، چودھری ظہیرالدین، محمد بشارت راجہ، سینیٹر محسن لغاری، میاں عمران مسعود، امتیاز رانجھا، ڈاکٹر امجد، ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی، راجہ ناصر، وقاص موکل، زین الٰہی، رانا زاہد توصیف، خواتین رہنما فرخ خان، ثمینہ خاور حیات، آمنہ الفت، خدیجہ فاروقی، تمکین آفتاب و دیگر مسلم لیگی رہنما بھی اس سیمینار میں شریک تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button