رنگ برنگ

ختنہ پاکستانی ٹریول انڈسٹری کے لیے سونے کی کان بن گیا

ابو ظہبی 6 دسمبر 2017
(بیورو رپوٹ پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا)
ختنہ پاکستانی ٹریول انڈسٹری کے لیے سونے کی کان بن گیا، خلیجی ممالک میں ختنے پر کتنے لاکھ روپے خرچ آتا ہے اور پاکستان میںیہ سہولت کتنے میں دستیاب ہے؟ دلچسپ رپورٹ‎
خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو اپنے بچوں کے ختنوں کے لئے مجبورا پاکستان کا سفر کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں انہیں اپنے بچے کے ختنے کی سرجری پر 29ہزار سے ایک لاکھ15ہزار روپے ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ پاکستان میں انہیں سرجری کی یہ سہولت چند سو روپے میں دستیاب ہوتی ہے۔خلیجی میڈیا کے مطابق اکثر پاکستانی والدین بچے کے ختنے پر ہونے والے بھاری اخراجات سے بچنے کیلئے پاکستان کا سفر کرتے ہیں۔
ابو ظہبی کے نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں ایک بچے کے ختنے پر اوسط لاگت ایک ہزار سے چار ہزار درہم آتی ہے۔والدینشکایت کرتے ہیں کہ اس طریقہ کار کے لئے اتنی بھاری رقم کا مطالبہ بہت زیادہ ہے، جب کہ اتنی معمولی سی سرجری ان کے اپنے ملک پاکستان میں چند سو روپے میں ہو جاتی ہے ۔متحدہ عرب امارات میں ایک ہیلتھ انشورنش کمپنی ختنے کی سرجری کی سہولت فراہم کرتی ہے، لیکن وہاں زیادہ تارکین وطن کے پاس اسکی ہیلتھ انشورنس نہیں ہے، متحدہ عرب امارات کے زیادہ ترمقامی افراد اپنے بچوں کے ختنے ہیلتھ انشورنس پالیسی کے تحت کراتے ہیں جہاں انہیں ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔
ابو ظہبی میں مقیم منور علی کا کہنا تھا کہ یہ سرجری یہاں بہت مہنگی ہے ،لہذا میں نے اپنے تمام بچوں کی سرجری پاکستان سے کرائی۔ایک اور پاکستانی علی کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک میں کلینک پر چند سو رپوے میں اس کی سرجری کرالیتے ہیں۔ایک بھارتی مسلمان کا کہنا تھا کہ اس نے شارجہ کے ایک کلینک سے 5سو درہم میں اپنے بچے کے ختنے کرائے۔ماہرین طب اس معاملے میں احتیاطی تدابیر کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں،یورالوجسٹ کا کہنا ہے اپنے بچوں کے ختنے کی سستی سرجری پر احتیاط سے کا م لیں یہ مہلک بھی ہوسکتا ہے۔
عام طور پر نوزائیدہ کی معمولی سرجریوں پر دس سے بیس منٹ وقت لگتا ہے۔ ابو ظہبی کے یونیورسل ہسپتال کے ماہر یورولوجسٹ کا کہنا ہے کہ مسئلہ ختنے کرنے میں نہیں ہے، لیکن غلطی اس وقت ہوتی ہے جب بچے کا مناسب طریقے سے طبی مائنہ نہ کیا ہو۔کچھ صورتوں میں اگر بچہ انیمیا یا ہیموفیلیا میں مبتلا ہو اور اس صورت میں یہ سرجری کردی جائے تو اس وجہ سے بچے کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button