ورکنگ جرنلسٹ مظلوم طبقہ ہے اس کو عزت نہیں دے سکتے تو نہ دیں ان کو برا نہ بھلا کہیں
پاکستان 29 نومبر 2017
(رپوٹ عثمان شاہد سے نیوز وائس آف کینیڈا )
یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ورکنگ جرنلسٹ کو ادارے سے کسی قسم کی تنخواہ نہیں ملتی، سارا دن خبروں کی تلاش میں مارے مارے پھرنا کوئی آسان کام نہیں، خبریں جمع کرنے سے لے کر اسے کمپیوٹر پر کمپوز کر کے ای میل یا FTP کرنے تک جو خرچ آتا ہے وہ بھی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے، ہر خبر کسی کے حق یا مخالفت کا تاثر دیتی ہے، حق میں ہو تو TC مخالفت میں ہوتو بلیک میلنگ، پولیس کے خلاف ہوتو جھوٹے مقدمات، جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہو تو وہ دشمن،
اس طرح صحافی اپنے زندگی میں دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کرتا ہے،
علاقائی صحافیوں (OSR’S) کو زرد صحافت، بکاؤ مال، ٹاؤٹ اور لفافوں کے طعنے دئےجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کسی کی بکری بھی چوری ہو جائے تو پہلی کال صحافی کو ہی کرتا ہے کہ وہ مقدمہ کے اندراج سے لے کر برآمدگی تک اس کا ساتھ دے گا، جب اس کے اہل خانہ کو یرغمال بنا لیا جاتا ہے یا اسے کسی چوک چوراہے پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے توکوئی پرسان حال نہیں ہوتا،
جس ملک میں لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، بیورو کریٹ، پولیس سیاست دان، استاد، جج، عالم دین، فوج، حتی کہ مزدور بھی ایماندار نہیں وہاں صرف بغیر اجرت کے کام کرنے والا صحافی ہی مورد الزام کیوں ؟
ورکنگ جرنلسٹ مظلوم طبقہ ہے اس کو عزت نہیں دے سکتے تو نہ دیں ان کو برا بھلا کہہ کر تسکین محسوس کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے،