یوگا اورآکوپنکچرسے پرانا درد ختم کیا جاسکتا ہے، امریکی ادارہ صحت
میری لینڈ: نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ امریکا کے ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد پہلی بار یہ اعتراف کیا ہے کہ آکوپنکچراور یوگا سے پرانے اور طویل مدتی درد سے چھٹکارا پانے میں واقعی بہت مدد ملتی ہے۔
علاج کے روایتی یا غیر متبادل طریقوں کو جدید طبّی سائنس میں اکثر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ان کی افادیت کسی باضابطہ سائنسی تحقیق سے ثابت شدہ نہیں۔ اس کے باوجود، عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا میں آج بھی 60 فیصد سے زائد لوگ روایتی یا متبادل طریقہ علاج سے مستفید ہورہے ہیں۔ امریکی آبادی میں 30 فیصد بالغ افراد اور 12 فیصد بچے کسی نہ کسی صورت متبادل طریقوں سے اپنا علاج کرواتے ہیں۔
ریسرچ جرنل ’’میو کلینک پروسیڈنگز‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کے ’’نیشنل سینٹر فار کمپلیمنٹری اینڈ انٹیگریٹیو ہیلتھ‘‘ (NCCIH) میں سائنسدانوں نے گزشتہ 50 سال کے دوران کی گئی ایسی 150 طبّی آزمائشوں اور ان سے حاصل شدہ نتائج کا جائزہ لیا جن میں دوائیں استعمال کیے بغیر درد ختم کرنے کی مختلف تدابیر کا مطالعہ کیا گیا تھا اور ان میں یوگا اور آکوپنکچر بھی شامل تھے۔
اس تجزیئے کے دوران واضح طور پر یہ بات سامنے آئی کہ یوگا اور آکوپنکچر سے طویل مدتی درد (کرونک پین) میں بہت افاقہ ہوتا ہے اور مریضوں کو ان سے واقعی میں بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ میڈیکل کی زبان میں طویل مدتی درد یا کرونک پین سے مراد جسم کے کسی بھی حصے میں اٹھنے والی وہ تکلیف ہے جو 12 ہفتے یا اس سے زیادہ وقت تک برقرار رہے۔ تقریباً 10 کروڑ امریکی شہری ہر سال طویل مدتی درد کا شکار ہوتے ہیں۔ سکون آور دواؤں سے طویل مدتی درد میں صرف وقتی افاقہ ہوتا ہے اور دوا کا اثر ختم ہونے کے بعد تکلیف دوبارہ شروع ہوجاتی ہے جب کہ دواؤں کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) اس کے علاوہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا میں متبادل طریقہ ہائے علاج پر سالانہ تقریباً 30 ارب ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں ماہرین نے طویل مدتی درد کی 5 اقسام پر کی گئی طبّی آزمائشوں کا مطالعہ کیا، یعنی کمر کا درد، گٹھیا، گردن کا درد، پٹھوں کا درد، سر میں شدید درد اور مگرین (آدھے سر کا درد یا دردِ شقیقہ)۔ ان تمام دردوں کے علاج میں یوگا، آکوپنکچر اور تائی چی کو بہت واضح طور پر مفید و مؤثر پایا گیا۔ ماہرین کے بقول یہ پہلا موقع ہے جب متبادل طریقہ ہائے علاج کی افادیت کے حق میں اتنے ٹھوس اور ناقابلِ تردید سائنسی ثبوت ملے ہیں۔